کالمز

کرن قاسم اور قلمی محاذ

تحریر: فریاد فدائی

آپ برصغیر کے بہادر مسلم خواتین کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں، راشد النساء آپ کو برصغیر کے نامور خواتین کی فہرست میں چند با اثر اور طاقتور خواتین کے بعد ملے گی راشد النساء 1894ء پہلی مرتبہ باقاعدہ اپنے نام سے ناول شائع کرکے دنیا کو حیران کردیا راشد النساء نے اس وقت ناول لکھا جب برصغیر میں خواتین کو لکھنے کا فن سیکھنے کی اجازت اس خوف سے نہیں تھی کہ کہیں وہ غیر مردوں کو خط لکھیں راشد النساء کی انتھک محنت ، جرات و بہادری اور سرتوڑ کوشش نے اس وقت کے مسلم خواتین جو گھروں میں پابند سلاسل تھیں میں اس شعور کو بیدار کردیا جن کو اس خوف سے باہر جانے نہیں دیا جا رہا تھا کہ کہیں ان کو کوئی جنسی طور پر ہراساں نہ کرے یا خواتین معاشرے میں بدنامی کا باعث بن سکیں لیکن راشد النساء کی کوشش نے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا اور یوں برصغیر کے مسلمان خواتین یکے بعد دیگرے لکھنے اور پڑھنے کا فن سیکھنے لگیں برصغیر میں ایک عورت کے لئے پڑھنا لکھنا اور پھر اسے شائع کرنا اپنے آپ میں ایک انقلابی قدم تھا چنانچہ یہ انقلاب راشد النساء نے 1894ء میں اس وقت لائی جب ایک اردو ناول اصلاح النساء پٹنہ سے شائع ہوا۔یہ کہانی مجھے گزشتہ دنوں یوم آزادی صحافت کے موقع پر گلگت بلتستان کے مرکزی پریس کلب میں ایک تقریب کی تصویری جھلکیاں دیکھنے کے بعد سے یاد آئی جس میں گلگت بلتستان کی واحد خاتون صحافی کرن قاسم کو ان کی صحافتی خدمات پر تعریفی سند سے نوازا گیا یہ بظاہر تعریفی سند وصول کرنے کی تقریب تھی تاہم اس مقام تک پہنچنے کے لئے ایک خاتون کو کن مشکلات سے گزرنا پڑا کن مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا اس کا اندازہ آپ گلگت بلتستان کی معاشرتی،لسانی،مذہبی اور جغرافیائی حساسیت سے لگا سکتے ہیں۔ ہم بظاہر لیڈیز فرسٹ کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ہمارے سماج کا حقیقی چہرہ اس کے بالکل برعکس ہے ہمارے ہاں خاتون کا اونچی آواز میں بات کرنا مرد کی کمزوری سمجھی جاتی ہے، ہمارے ہاں خواتین کی تعلیم اور ان کی دیگر سرگرمیوں کو مذہب سے جوڑا جاتا ہے بلکہ منبر و محراب سے کفر کے فتوے دیئے لگائے جاتے ہیں ہمارے ہاں تنقید برائے اصلاح کی بجائے کردار کشی کر کے حوصلہ شکنی کی جاتی ہےہمارے ہاں دن دھاڑے نوجوان غائب ہو جاتے ہیں اور اگلے دن ان کی لاشیں ملتی ہیں اس کے باوجود بھی صحافی کرن قاسم نے ان مسائل کو اپنی منزل کی راہ میں حائل ہونے نہیں دی بلکہ قلمی محاذ میں اپنی اور گلگت بلتستان کے غریب عوام کی دفاع میں کھڑی رہی بلکہ گلگت بلتستان کی خواتین کو آگے لانے اور ان میں پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ گلگت بلتستان میں خواتین کی تعلیم ہو یا گلگت بلتستان میں سیاحت کی فروغ ہر میدان قابل تحسین کردار ادا کیا ہے ایسے خواتین جو مشکل حالات میں اپنی شخصیت و ہنر کا لوہا منوائی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے لہذا بذریعہ تحریر میں کرن قاسم کو ان کی شاندار صحافتی خدمات پر اسلام پیش کرتے ہیں اور مجھے قویٰ امید ہے کہ محترمہ آئندہ بھی صحافتی محاذ پر متحرک رہے گی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button