محترم شیرباز خان چیرمین سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسزگلگت بلتستان گذشتہ دنوں مختصر علالت کے بعد پنسٹھ سال کی عمر میں اپنے جاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ وہ ایک گم نام ہیرو، عظیم انسان اور حقیقی سماجی خدمت گار تھے ۔ انہوں نے اپنی سماجی خدمات کی نہ کھبی پرچار کی ، نہ کھبی پذہرائی مانگی اور نہ تو کسی پر احسان جتایا۔ جو کام انہوں نے کیا وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے سارے لوگ ان کو نہیں جانتے تھے لیکن جو بھی ان کے کام سے واقف تھے وہ ان کے مداح تھے ۔ ان کو گلگت بلتستان کا عبدالستار ایدھی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ سماجی خدمت کا جذبہ ان کے اندر پیدائشی تھا۔ آج سے تینتیس سال قبل جب ان کو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان میں خون کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے سالانہ کئ مریضوں کی اموات واقع ہوتی ہیں تو پہلی دفعہ نوے کی دہائی میں گلگت بلتستان میں انہوں نے بلڈ ڈونشینز کے لئے رضاکاروں کا ایک نیٹ ورک بنایا اور سال ہا سال تک اپنے بلڈ بینک پروگرام سے کئ لوگوں کو خون کا عطیہ دے کر ان کی جانیں بچائیں۔ پھر ایک دن ان کے محلے سے جب ایک نومولود لاواث بچہ ملا تو انہوں نے انسانیت کے ناطے ان کو سنھبالا اور ان کی دیکھ بھال کی۔ ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ بچہ کس کے حوالے کیا جائے۔ ان کی بیگم بھی ایک نیک سیرت اور عظیم خاتون ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ اس بچے کی کفالت کی بھی حامی بھر لی ۔ اس دوران ان کو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان میں لاوارث بچوں کو کتے کہا جاتے ہیں یا ان کو کسی بیابان ، دریا یا جنگل میں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ ان کو سنھبالنے کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ انہوں نے ایسے بچوں کو سنھبالنے کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا جو کہ ہمارے جیسے معاشرے میں ایک مشکل کام تھا ۔ ان لاوارث بچوں میں وہ بچے بھی شامل تھے جن کو پیدائش کے دوران معذوری کی وجہ سے والدین ہسپتالوں یا کسی اور جگہ میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ایسے درجنوں بچوں کی انہوں نے کفالت کی اور ان کو قانونی طریقے سے بے اولاد جوڑوں کے حوالے کیا۔ کئ معذور بچے پیدائشی بیماریوں کی وجہ سے جانبحق ہوگئے۔ کچھ ایسے بچے اور بچیاں اب بھی ان کے شیلٹر ہوم میں زیر کفالت ہیں جو معذوری کا شکار ہیں اور ان کی معذوری کی وجہ سے کوئی بھی فرد ان کو کود میں لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے آج سے تینتیس سال قبل سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز جیسے فلاحی ادارے کی بنیاد رکھ کر اپنے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے گلگت بلتستان کے طول و ارض اور چترال کے سینکڑوں نادار، انتہائی غریب، یتیم اور بے سہارا بچوں اور بچیوں کی کفالت ، تعلیم اور رہائش کا بیڑا اٹھایا۔ تینتیس سالوں پر مشتمل اس سفر کے دوران انہوں نے ایسے سینکڑوں بچوں اور بچیوں کا باپ بن کر ان کو پالا پوسا، معیاری رہائش کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کو معیاری تعلیم دلائی، کئ یتیم بچیوں کی شادیاں کرائی، کئ قابل اور غریب طلباء و طالبات کو سکالرشپ دی، اور کئ انتہائی غریب اور بے سہارا لوگوں کے گھروں کے اخراجات اٹھائے۔ ایک پروگرام کے تحت انہوں نے حالیہ سیلاب سے متاثرہ کئ خاندانوں کے بچے اور بچیوں کی سکولوں کی فیسیں ادا کی۔ موجودہ وقت میں ان کے ادارے کے زیر انتظام چلنے والے ہاسٹل میں سو کے قریب غریب، یتیم اور بے سہارا طالباء و طالبات رہائش پذیر ہیں۔ جن کی رہائش، تعلیم اور دیگر تمام اخراجات سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز ادا کرتا ہے۔ گذشتہ تین دھائیوں میں اس ادارے میں پرورش پانے والے درجنوں یتیم اور انتہائی غریب خاندانوں کے بچے اس وقت پاکستان اور بیرون ملک اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے اخراجات یہ ادارہ اٹھاتا ہے۔ یہ محض ایک یتیم خانہ نہیں بلکہ جدید سہولیات سے آراستہ ایک گھر ہے۔ اس ادارے کے ہاسٹل سے گذشتہ تینتیس سالوں میں درجنوں یتیم اور بے سہارا بچے اور بچیاں فارغ التحصیل ہوکر اعلی عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں۔ جن میں انجنئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، پی ایچ ڈی سکالرز ، پائلٹ، آرمی اور سول آفیسرز اور دیگر عہدے شامل ہیں۔
سینا ہیلتھ اینڈ ویلفئر سروسز چار ایراز پر کام کرتا ہے۔ جن میں بے سہارا بچوں کی کفالت و تعلیم ، لاوارث بچوں کا ٹرانزیشنل شیلٹر، بچوں کے تحفظ اور حقوق کا پروگرام اور یونیورسٹی سکالر شپ پروگرام شامل ہیں۔
اس ادارے کو چلانے کے لئے اب وہ بچے اور بچیاں سپورٹ بھی کرتے ہیں جو یہاں سے فارغ ہوکر بر سر روزگار اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس ادارے کو چلانے کے لئے شیرباز خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں سے چندہ کیا اور اس چندے کی ایک ایک پائی کا حساب رکھ کر اس کا درست اور مناسب استعمال کیا جس کے نتیجے میں اب اس ادارے کی ساکھ بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں آنے والے ہر سول اور ملٹری افیسرز، سیاستدان اور دیگر اہم شخصیات ان کے ادارے کا دورہ کر کے ان کے کام سے متاثر ہوتے اور ان کو سراہتے رہے ہیں۔ پاکستان آرمی کی طرف سے ان کی اعلی سماجی خدمات کے اعتراف میں ٢٠٢٢ میں ان کو جی ایچ کیو میں پرائڈ آف پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ اسماعیلی جماعت خانہ خومر گلگت کے مکھی بھی رہے تھے جبکہ کمیونٹی لیول پر سماجی خدمات کی وجہ سے ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان نے ان کو عالیجاہ کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔
وہ اپنے ادارہ چلانے کے ساتھ ساتھ علاقے میں مختلف سماجی خدمات کے کئ فرومز کا حصہ بھی تھے جہاں وہ اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ الازہر ایڈوائزری فورم کےایک اہم رکن کی حیثیت سے انہوں نے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا قیمتی وقت اور خدمات پیش کئیں، وہ کئ عرصے تک ہاشو فاونڈیشن کے بورڑ آف ڈائیریکٹرز کے چیرمین بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ کئ دیگر سماجی اداروں کے ساتھ روابط میں بھی تھے۔ انہوں نے سماجی خدمات کے حوالے سے ایک متحرک اور شاندار ذندگی گزاری۔ وہ ایک عام گھر میں پیدا ہوئے تھے جہاں وسائل کی قلت تھی۔ وہ آغاخان ایجوکیشن سروسز میں ایچ ار منیجر کی حثیت سے ملازمت کرتے رہے۔ نارتھ اینڈ ساوتھ سوسائٹی کے بانی سکریٹری جنرل رہے۔ ان کی بیگم آغاخان ہیلتھ سروسز میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ ان کی بیگم کا شمار گلگت بلتستان کی اولین نرسوں میں ہوتا ہے۔ ان کی بیگم ان کے سماجی کاموں میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے۔ شیرباز صاحب نے جب سماجی خدمات کا آغاز کیا تو اس کے بعد دوستوں اور چاہنے والوں سے ملنے والا چندہ تھا جس سے وہ اپنا ادارہ چلاتے تھے۔ وہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔
میری ان سے قریبی رفاقت تھی ۔ میں نے ہمیشہ ان کو غریبوں اور یتیموں کے لئے روتے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا ۔ وہ ایک دھیمی ، شفیق، بربار، گہری اور پر اثر شخصیت کے مالک تھے۔ بات ہمیشہ دھیمے لہجے میں کرتے تھے۔ کسی غریب اور یتیم کا درد ان سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ وہ لوگوں کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے اکثر روتے تھے۔ وہ اپنے مخالفین کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے تھے۔ ان کے اندر سماجی نا انصافیوں کے حوالے سے ایک کرب تھا۔ مجھ اکثر فون کرتے ، اپنے پاس بلاتے، رائے لیتے اور سر پر بوسہ دیکر دعائیں دیتے تھے۔ مجھے سے کہتے تھے کہ میری ذندگی میں بڑے خواب تھے جو پورے نہیں ہوسکے۔ اپنی رحلت سے ایک ہفتہ قبل بھی مجھے سے کہنے لگے کہ صحت بھی اچھی نہیں ہے اور عمر بھی ذیادہ ہوگئ ہے لیکن بہت سارے کام کرنے تھے جو نہیں ہوسکے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ آپ کی طرح بھر پور ذندگی کسی نے نہیں گزاری ہے۔ آپ کی ذندگی قابل رشک ہے۔ اپنے کام کے دوران وہ اپنوں اور غیروں کی تنقید اور ستم ظریفیوں کی ذد میں بھی رہے لیکن ان کا مشن بہت نیک اور اعلی تھا اس لئے وہ ثابت قدم رہے ۔ اس کام کے دوران ان کو قدم قدم پر مشکلات اور مصائب کا سامنا رہا۔ کئ دفعہ ان کے ہاسٹل کے بچوں کو کھانا دینے کے لئے پیسے ختم ہوئے تو وہ رات بھر جماعت خانے میں جاکر روتے اور اللہ تعالی سے دعا مانگتے رہے۔ پھر کوئی نیک انسان وسیلہ بنتا اور ان کو چندہ مل جاتا تھا۔ ان کی ساکھ وقت کے ساتھ ایسے بنی کہ اب کئ لوگ خود بھی عطیات لے کر ان کے ہاسٹل پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ گلگت بلتستان اور چترال کے ہزاروں یتیموں، بے سہاروں ، بیواوں اور غریبوں کی دعائیں تھیں۔ ان کی رحلت سے ان کے چاہنے والے ہزاروں لوگوں اور اہل خانہ کو شدید دکھ ہوا ہے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے ادارے میں زیر کفالت ایک سو کے قریب بچے اپنے شفیق باپ سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں بیوی، تین بیٹے ، ایک بیٹی اور ایک بھائی شامل ہیں۔ شیرباز خان جیسے انسان دوست لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلاء کھبی پر نہیں ہوسکے گا۔ ان کی علاقے کے لئے گرانقدر خدمات کو مدتوں یادرکھا جائیگا۔ مجھے امید ہے کہ ان کا ادارہ جو انہوں نے انتہائی مشکلات سے گزر کر قائم کیا ہے ان کے اس عظیم مشن کو بھر پور طریقے سے آگے بڑھائے گا اور علاقے کے بے سہارا اور یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا بندوبست مرحوم شیرباز خان کے ویژن کے مطابق کرتا رہے گا۔ دعا ہے کہ شیربازخان مرحوم کو اللہ تعالی دائمی سکون نصیب کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے۔ آمین