کالمز

مہنگائی بمقابلہ بیروزگاری

آج کل مشکلات بڑھ رہی ہیں لوگوں کو جینے سے زیادہ مرنا آسان لگ رہا ہے ایک انسان کو دوسرے کے فکر نہیں اس زندگی کی دوڑ میں سب مگن ہیں انسان کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہے فقط کوئی بھی کسی حال میں خوش نہیں، سیاسی رہنما سے لے کر ہر کوئی جن کے ہاتھ میں اختیار ہے ملک کو لوٹ رہے ہیں برباد کر رہے ہیں کوئی بھی تعلیمی ادارہ جہاں ایک انسان کی پرورش ہوتی ہے انسانیت سکھایا جاتا ہے اب کے وہاں کے حرکات آنے والے معاشرے کے بچوں پر برا اثر پڑ رہا ہے لوگ اپنی زندگی سےاور مہنگائی سے تنگ آگئے ہیں ماں باپ کے خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود اپنے اولاد کو پڑھاتے ہیں اولاد کے لئے ہر چیز کی قربانی دے کر ا نکی خاطر دن رات ایک کرتے ہیں اور اسی اولاد کی نصیب میں ایک نوکری نہیں ، جو لاجواب ہو کر گلے میں پھندا ڈال دیتا ہیں یا کوئی نہ کوئی مزدوری کرتا ہے عجب دنیا کے غضب کہانیاں ہیں سکون میسر نہیں مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ اپنے اولاد کے پیٹ نہیں بھر سکتے اور خودکشی کرتے ہیں آج کل پیسے مہنگا اور عزت عام ہوگیا ہے مہنگائی نے ہر طرف سے گھیر لیا ہیں عموماً مزدور خالی ہاتھ گھر جاتا ہے تو اس کے گھر میں چولہا جلائے بغیر بھوکے سو جاتے ہیں انسان کی جان کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہر بات بات پے بات کرتا کہ اپنی زندگی کا چراغ گل کر دوں لوگوں کی سکون اور جینا دوبھر ہوگیا ہے وہ کمزور باپ کو کہاں نیند اور آ رام جس کے بچے بھوکے سویے ہو ۔کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی درد سے گزر رہا ہے بس دل کے بوجھ کو چھپاتے چھپاتے لوگ مسکراہٹ بکھیرتے ہیں مہنگائی سے پریشان لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے ۔

وہ عورتیں جن کو سر کا تاج اور گھر کی عزت قرار دیتے تھے وہی ماں بیٹیاں جو غیرت ہوا کرتی تھی آج وہ "آٹا دو ” کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں میں نظر آتی ہیں دنیا اتنی ظالم نہیں جتنی لوگ ظالم ہے لوگ آٹے کی تھیلی کے لیے ایک دوسرے کے قتل کرتے ہیں افلاس کی بستی بن چکی ہے .

نوجوان بڑے سے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود بھی بےروزگار ہیں اتنی غفلت اور ہلچل مچی ہوئی ہے کئی لوگ نوکری کے لیے زمین بھیجتے ہیں گھر بار داؤ پر لگاتے ہیں ایک غریب اگر خون پسینہ ایک کرکے اپنے اولاد کو پڑھاتا ہے محنت کرتا ہے بد قسمتی سے نوکری کے لیے بھی گھر بھیجنا پڑا تو غریب کہاں جائیگا ۔

والدین کی آ س لگی ہوتی ہے کہ اولاد کما کے انکا سہارا بنینگے۔ وہی ماں اور باپ کا چہرہ اور دنیا کی مشکلات سے تھکے ہوئے آ نکھیں دیکھ کر ہی انکی اولاد ہمت ہار جاتا دیتا ہے وہ ناامیدیوں سے گھبرا جاتا ہے لوگ پیسوں کی خاطر اپنی عزت نفس کو بھول کر خوف آخرت کو ترک کر کے رشوت جیسے حرام چیز کو فوقیت دیتے ہیں آج کل نوکری کو عزت کی ترازو میں تولتے ہیں ۔ آخر مجھے لگتا نہیں ہے کہ ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں یہاں لوگوں کو لوگوں سے خطرہ ہے ہم ان جنگل کے جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں جن میں حیوانیت بھی ہوتی ہے پر آج کل ہم لوگ جاہل سے بھی جاہل ہو گئے ہیں ۔ یقینا کوئی شخص نظر نہیں آتا جو زندگی سے خوش ہو ۔ ہر کوئی خود سے لڑتے ہوئے جی رہا ہے بچپن کے خواب تو خواب ہی رہ گئے ہیں دنیا کے الجھنوں میں گم ہوگے ہیں وہ چہروں کے خوبصورت مسکراہٹیں ختم ہوگئی ہیں۔ بس مرتے مرتے جی رہے ہیں اللہ جانے ہمارا کیا ہوگا جس قوم کی رہنما خود آپس میں الجھے ہوئے ہو اور قوم کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہو انہیں ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑتا جو لاکھوں میں کماتے ہیں وہ بادشاہ ہیں ۔ہمیشہ دنیا کی اس جنگ میں غریب ہی مار کھاتا ہے وہی ہر چیز سے محروم رہتا ہے البتہ ہمارے عظیم رہنما بھی اپنے گھر کے پیسوں کے مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں اللہ انہیں قوم کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔۔ دن بدن یہ جو بروزگاری اور مہنگائی سے لوگ مر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اللہ بخشش فرمائیں اور خیر کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ آ مین ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button