تاریخی دستاویزات کی اہمیت
جیساکہ قارئین کو معلوم ہے کہ تاریخ نویسی ایک اہم فن بلکہ علم ہے اور تاریخ سمیت دیگر سماجی علوم کو درست طریقے پیش کرنے کے اعتبار سے یہ فن ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک تاریخ نویسی کے لئے دستاویزات (documents) ناگزیر ہیں۔ جس طرح فلسفہ مفروضوں (assumptions) کو اور فکشن تخیلات (imaginations) کو بنیاد بناتا ہے اسی طرح تاریخ دستاویزات کے بغیر ترتیب و تشکیل نہیں پاتی۔ اس لئے تو انگریزی کا یہ مقولہ مشہور و معروف ہے کہ:
"No document, no history”
عام طور پر، دستاویزات سے مراد تحریری دستاویزات، روز نامچے، سرکاری و غیر سرکاری رپورٹس، فرامین، اسناد، خود نوشت سوانح عمریاں، سفر نامے اور عینی شاہدوں کے بیانات ہیں۔
چنانچہ،تاریخ عام کی طرح گلگت بلتستان کی تاریخ لکھنے کے لئے بھی دستاویزات کی دستیابی اہمیت رکھتی ہے۔
شروع شروع میں جب کرنل مرزا حسن مرحوم و مغفور کی کتاب یعنی ان کی آب بیتی ‘ شمشیر سے زنجیر تک’ منظر عام پر آگئی تو اس کی بڑی شہرت ہوئی اور اسے جنگ آزادی گلگت بلتستان کی تاریخ پر واحد منبع و ماخذ سمجھا جانے لگا۔ لیکن بعد میں جب گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنٹ میجر الیگزینڈر براون کی کتابGilgit Rebellion چھپ کر مارکیٹ میں آگئی تو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے کئی چھپے ہوئے پہلو منصہ شہود پہ آگئے۔ پھر جنگ آزادی کے ایک اہم ہیرو کیپٹن (بعد میں گروپ کیپٹن) میر زادہ شاہ خان مرحوم کی کتاب ‘ گلگت اسکاوٹس ‘ زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر مارکیٹ میں پہنچی تو مزید حقائق سامنے آگئے۔ جبکہ گلگت میں ڈوگرہ حکومت کے آخری گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کی آپ بیتی Gilgit before 1947، جو عرصہ سے کم یاب بلکہ نایاب تھی، کا ترجمہ جب جناب شیر باز علی خان برچہ نے طبع کر کے شائع کیا تو اس کتاب نے بہت سے اہم حقائق سے پردہ اٹھا لیا جس سے مورخین کے لئے نئی راہیں کھل گئیں۔ اسی طرح گلگت ہی کے ایک سرکاری آفیسر غلام رسول مرحوم، جو ایک روشن خیال اور غیر جانب دار لکھاری تھے، کی کتاب ‘ آزادی گلگت بلتستان اور حقائق’ چھپ کر منظر عام پر آگئی تو جنگ آزادی کے بارے میں معلومات میں مزید اضافہ ہوا۔ کیونکہ موصوف جنگ آزادی کے دوران سرکاری اہلکار تھے اور اس دوران رونما ہونے والے واقعات کو بڑے سلیقے اور کمال مہارت کے ساتھ اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔
ان مذکورہ دستاویزات تک قارئین اور لکھاریوں کو براہ راست رسائی حاصل ہونے سے کسی حد تک جی بی کی تاریخ کے خط خال واضح ہوئے اور یوں، ایک لحاظ سے، ‘شمشیر سے زنجیر تک ‘ کی حدود اربعہ کا تعین ہوا۔ پس جیسے جیسے دیگر دستاویزات منظر عام پر آئیں گی تاریخ کے اس ٹرننگ پوائنٹ کے متعلق مزید توضیحات سامنے آئیں گی۔ اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ تاریخ نویسی میں دستاویزات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔