کالمز

سوشل میڈیا کواقدامی طور پر استعمال کرنا ہوگا

خاطرات: امیرجان حقانی

الھدیٰ  فاؤنڈیشن گلگت کشروٹ کی دوسری تقریب میں بطور گیسٹ اسپیکر اورممتحن فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔ یہ ایک مختصر سا فورم ہے جو برادرم عبدالعلیم اور یونس سروش صاحب نے چند اہل دانش کے ساتھ مل کر فروغ دیا ہے۔ اس فورم کی پہلی تقریب نومبر 2021 کو جامع مسجد الھدی میں ہوئی تھی جس میں کشروٹ اور سونی کوٹ ایریا کے مساجد و مدارس کے طلبہ نے نعت اور تقاریر میں حصہ لیا تھا۔ تب بھی راقم بطور جج اور گیسٹ اسپیکر مدعو تھا۔ دوسری تقریب 20 مارچ 2022 کو منعقد ہوئی ہے۔ اس میں بھی بطور منصف اور مقرر خاص اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ آج کی تقریب کشروٹ، کنوداس اور سونی کوٹ پر مشتمل اسکول و مدارس اور مساجد کے طلبہ کے درمیان تقریری اور تحریری مقابلوں پر حوالے سے منعقد کی گئی۔الھدیٰ فاؤنڈیشن کے قیام، مقاصد اور مستقبل میں اس کے دائرہ کار پر ایک اور نشست میں احباب کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کرنے کا بھی موقع ملا جس میں طویل گفت و شنید ہوئی۔

الھدیٰ فاوُنڈیشن  کے کارپردازوں کے عزائم بڑے وسیع اور اچھے ہیں۔فاؤنڈیشن کے قیام کا بنیادی مقصد نسلِ نو کی ذہنی اور اخلاقی  اور تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی کیریئر کونسلنگ، مستقبل کی تیاری اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرناہے۔ اس کے علاوہ باصلاحیت مگر کم آمدنی والے  نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا، انہیں اعلی تعلیمی اداروں میں اسکالرشپ دلانا ہے۔ کم آمدنی والے گھرانوں کو آسان شرائط پر بلا سود قرضے فراہم کرنا اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر معزز زندگی گزارنے کے لئے رہنمائی کرنا بھی فاونڈیشن کے اصولی مقاصد میں شامل ہیں۔گزشتہ ایک سال میں الھدیٰ فاؤنڈیشن نے کئی ایک مستحق خاندانوں کی مدد کی ہے۔

محترم یونس سروش صاحب نے فاؤنڈیشن کے ابتدائی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا:

طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مناسب پلیٹ فارم مہیا کرنا۔

 نوجوانوں کی دینی و اخلاقی  تربیت کے لئے مجالس کا اہتمام۔

بین المدارس مقابلوں کے زریعے طلبہ کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع فراہم کرنا۔

بیماروں کا مفت علاج کروانا یا علاج کے لئے فوری قرضِ حسنہ فراہم کرنا۔

مختلف موضوعات پر سیمنارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا۔

مسحق افراد کو آسان قرضہ فراہم کرنا

طلبہ و طالبات کو اسکالرشپ دلانا اور ان کی کونسلنگ کرنا

مستقل قریب میں پورے گلگت بلتستان میں تعلیمی و رفاہی ایکٹیویز کرنا

الھدیٰ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام”سوشل میڈیا اور بڑھتی ہوئی بے حیائی ” پر 12 تعلیمی اداروں  بشمول مساجد و مدارس  کے  کم عمر طلبہ نے شاندار تقاریر کی اور سامعین سے خوب داد سمیٹی۔راقم الحروف نے طلبہ کے درمیان مقابلہ جاتی موضوع "سوشل میڈیا اور بڑھتی بے حیائی” پر اپنے خیالات کا اظہارِ کیا۔

حمد و ثنا کے بعد عرض کیا:

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بے حیائی پھیلانے والوں  کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔

”جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں  اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ۔”۔(النور: 19)

جو لوگ چاہیے مسلم ہوں یا غیر مسلم، اپنے ہیں یا غیر، بہر حال مختلف ذرائع بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعےاسلام اور مسلمانوں کے درمیان بد اخلاقی پھیلانے،فحش تصاویر، گانے، ویب سائٹس اور لٹریچر کے ذریعے  امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش میں ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اس فعل قبیح میں لگے ہوئے ہیں وہ عنداللہ سزا کے مستحق ہیں۔اس آیت کا اطلاق فحاشی و بے حیائی پھیلانے  کے جملہ امور پر ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا ہو، ذرائع ابلاغ کے دیگر ذرائع،شاعری، رقص، گانے، تصاویر،نائٹ کلب، ہوٹل  اور وہ تمام سرکاری و نجی ادارے  جو بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں ان سب کے لیے عنداللہ و عندرسول اللہ سخت وعیدیں موجود ہیں۔

اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو ان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

”ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو ۔  جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا ۔  لیکن اللہ تعالٰی جسے پاک کرنا چاہے ،  کر دیتا ہے  اور اللہ سب سننے والا سب  جاننے والا ہے ۔(النور:21)”

عزیز طلبہ اور معزز سامعین

ہمارے لئیے یہ بات خوش آئند ہے کہ الھدیٰ فاؤنڈیشن نے ایک زندہ و جاوید موضوع کو زیربحث بنایا ہے۔آپ سب طلبہ نے کم عمری کے باوجود اس اچھوتے موضوع پر اپنے شاندار خیالات کا اظہار کیا ہے۔پوزیشن لینے والے اور حصہ لینے والے تمام طلبہ داد کے مستحق ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کے بڑے نقصانات ہیں اور بے حیائی کا بڑا سبب ہے۔ تاہم میں آپ کے اس کے دوسرے رخ کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے  کہ سوشل میڈیا کیا  چیزہے؟

عزیز طلبہ

سوشل میڈیا دو الفاظ پر مشتمل ایک لفظ ہے۔ایک سوشل اور دوسرا میڈیا ۔سوشل کا مطلب سماج یعنی معاشرہ آپ اس کو یوں سمجھ لیجیے کہ رابطہ کی رو سے  لوگوں کا مجمع اور میڈیا وہ درمیانی آلہ جسے ہم ذرائع ابلاغ کہتے ہیں ، جو کسی ایک شخص کے پیغام، خیال اور نکتہ نظر کو دوسرے شخص یا اشخاص تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ہر دور میں میڈیا کی شکلیں بدلتی آئی ہیں۔

آج کے جدید دور میں اخبارات، نیوز چینل، ٹیلی فون، موبائل فون، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی سائٹس وغیرہ میڈیا کے وہ ذرائع ہیں جن سے دنیا مستفید ہورہی ہے اور اپنے خیال و فکر اور مذہب و دین کو فروغ دے رہی ہے جبکہ ہم مسلم بدقسمتی سے اسکا بائیکاٹ کیے جارہے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں بلکہ شٹ اپ کال دیتے ہیں جو انتہائی کمزور رویہ ہے۔یہاں تک جدید دور خاص سوشل میڈیا کی بات ہے تو سوشل میڈیا سےدراصل فقط Applications مراد لیا جاتا ہےـ

اور ان ایپس میں ہم جن کا ذکر کرتے ہیں عموماً جس میں Facebook, WhatsApp, Instagram یہ سب ہیں مگر یہ درست بات نہیں۔ سوشل میڈیا اس سے کئی گناہ وسیع ہے۔اگر ہم سوشل میڈیا کا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم جائے گا کہ سوشل میڈیا فقط ان ایپس کا نام نہیں ، بلکہ وہ تمام ذرائع جن کی مدد سے ہم ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔

عزیز طلبہ اور محترم سامعین

ہم سب جانتے ہیں کہ  4جی اور 5 جی کی دنیا میں اکثر کام سوشل میڈیا کے ذریعے انجام دیے جاتے ہیں۔سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا سے رستگاری نہیں۔آج کل دنیا کے تمام تعلیمی اداروں میں پڑھائی سے لے کر داخلہ تک آن لائن ہوچکا ہے۔ اب تو مدارس میں داخلہ بھی آن لائن ہونے لگا ہے۔ پھر یوٹیوب میں ہر قسم کے لیکچر مفت میں دستیاب ہیں۔ ایک ہی لیکچر کئی طریقوں اور کئی ایک زبانوں میں موجود ہوتا ہے۔

آج تو نوکری  کے لیے بھی آن لائن اپلائی کرنا ہوتا ہے۔ پھر خواتین بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے کام گھر بیٹھے انجام دیتی ہیں۔آج کےسوشل میڈیا کے تیز ترین دور میں بھی اگر کوئی انسان بالخصوص تعلیم یافتہ انسان  بھوکا مرتا ہے اور بے روز گار رہتا ہے تو یہ اس کا قصور ہے۔

عزیز طلبہ

یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر ایک کا دسترس ہے۔ میڈیا کے دیگر ذرائع بڑے مہنگے ہیں مگر سوشل میڈیا ایک ایسا فورم ہے جس پر اربوں لوگوں کو رسائی حاصل ہے۔انتہائی فاسٹ فورم ہے۔ یوں سمجھ لیجیے یہ ایک اوپن یونیورسٹی ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا۔ گزشتہ دو سال میں کرونا نے ہم سب کا جینا حرام کررکھا ہے۔اور ہم سب گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں عقل مند لوگوں نے گھر بیٹھے آن لائن اپنی تعلیم جاری رکھا ہے اور مختلف،اداروں اور  اکیڈمیز سے خوب استفادہ کیا ہے۔کالجز و یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات آن لائن کلاسز لے رہے ہیں Zoom , Google meet اور دیگر ایپس کے ذریعے۔پھر واٹس ایپ گروپ، فیس بک گروپ اور ٹیوٹیر نے تو دھوم مچا رکھی ہے۔میرے اپنے احباب اور طلبہ کے گروپس ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آج سے کچھ سال قبل  ملک اور بیرون ملک اپنے چاہنے والوں اور رشتہ داروں سے ملاقات اور رابطہ مشکل تھا اور بہت مہنگا بھی۔ مگر سوشل میڈیا کی بدولت آج یہ رابطہ کاری بہت آسان ہوگیا ہے۔آپ گھر بیٹھے ویڈیو کال کے ذریعے سستے داموں لاکھوں میل دور انسانوں سے رابطہ کرسکتے ہیں۔اب تو پاکستان بھر میں بھی لوگ بہت ساری خریداریاں آن لائن کرتے ہیں۔ میں خود آن لائن کاروبار کرتا ہوں۔ آپ بڑے شہروں میں جائیں گے تو آپ آن لائن ٹیکسی، موٹر سائیکل تک بک کرسکتے ہیں اور اس میں آپ کی مکمل سیکورٹی بھی ہے۔

عزیز طلبہ

 یاد رکھنے کی بات ہے۔ میں سوشل میڈیا کے نقصانات کا انکار بالکل بھی نہیں کررہا ہوں بلکہ اس کو مثبت انداز میں لینے کی بات کررہا ہوں۔سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔ اس پر آگاہی دی جانی چاہیے۔کوئی بھی ایپ اوپن کیا جائے تو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر بار دیگر عرض کرونگا ، یہ چیلنجز نئے نہیں۔ ہر دور میں اہل اسلام کو ان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔علماء اسلام کو اس پر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ کیسے سوشل میڈیا کو مثبت استعمال  کیا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا کو چیلنج سمجھ کر اس پر پابندی کی بات کرنا بالکل دانشمندی نہیں۔ یہ تو انتہائی کمزور بات ہوئی کہ جدید دنیا کی طرف سے مسلمانوں کے سامنے کوئی  چیلنج  کا سامنا ہو اور وہ آنکھیں بند کریں۔ اس پر پابند ی کی بات کریں اور پھر سمجھیں کہ مسئلہ حل ہوگیا۔ آپ ﷺ سے لے کر آج تک اس طرح کی چیلنجز کا  اہل حق نے دلیل و برہان اور حکمت عملی  کے ذریعے نہ صرف مقابلہ کیا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے تمام جدید ٹولز کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کہ ذریعے آج کا مغرب اپنا کلچر، عقیدہ اور اپنی ثقافت و تعلیم  ہمارے گھروں میں داخل کررہا ہے مگر کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم حکمت و بصیرت کے ذریعے سوشل میڈیا کو ہی استعمال کرکے اسلام کا عظیم پیغام گھر بیٹھے پوری دنیا کو پہنچا سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج لاکھوں خرچہ کرکے بڑے بڑے تبلیغی اسفار پر نکلنے کی جگہ مسلم نوجوانوں کو دنیا کے مختلف ممالک کے لیے ایسے منہج پر تیار کیا جائے کہ وہ اپنے روز مرہ کے معاملات اور رزق حلا ل کی کوشش کے ساتھ دنیا بھر میں اسلام کا پیغام بھی پہنچا سکے۔ہمارے قریب میں چین ہے۔ بہت جلد چین گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ ایسے میں ہمیں چائنہ زبان سیکھ کر اقدامی طور پر چائنہ کے بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرنی ہوگی۔ اور یہ تبلیغ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ ہر پڑھا لکھا انسان کرسکتا ہے۔ اسلام کے اصول انصاف و معاشرت انہیں بتانے ہونگے اور اسلام نے ناموس، حیا، امن، آشتی اور تجارت کی جو بات کی ہے اس کو سوشل میڈیا کے ہی ذریعے اہلیان چائنہ کو بتانا ہوگا ۔کل وہ یہاں آتے ہیں تو اس مائنڈ کے ساتھ آئیں کہ ہم جس ملک میں جارہے ہیں وہاں ایک جاندار دین ہے جس کے شاندار اصول ہیں جو ہر انسان کی کامیابی کے لیے لازم ہیں۔میری گزارشات کا خلاصہ یہی تھا۔

بہر حال الھدیٰ فاؤنڈیشن کی تقریب شاندار تھی۔کئی ایک اہل علم موجود تھے۔ علماء کرام اور پروفیسروں  کی بیٹھک تھی۔ صحیح معنوں میں قدیم وجدید کا امتزاج تھا۔ امید ہے الھدیٰ فاؤنڈیشن اپنے کام کو بہتر طریقے سے پورے گلگت بلتستان میں وسعت دے گا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button