چیف کورٹ نےجعلی ڈگری مقدمے میں سابق وزیر اعلی خالد خورشید کو نااہل قرار دے دیا
الیکشن کمیشن نے نااہلی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا
گلگت: گلگت بلتستان کی چیف کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو جی بی اسمبلی کے رکن کے طور پر نااہل قرار دے دیا۔ یوں 2 سال اور 7 ماہ کے بعد ان کی وزارت ختم ہو گئی۔ الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان نے نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔
جسٹس ملک عنایت الرحمان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ سابق وزیر اعلیٰ لندن یونیورسٹی کی قانون کی ڈگری کی صداقت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس طرح وہ "صادق” اور "امین” نہیں رہے ہیں اس لئے انہیں گلگت بلتستان اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
درخواست گزار اپوزیشن کے رکن غلام شہزاد آغا نے وزیراعلیٰ خورشید کی نااہلی کے لیے درخواست جمع کرائی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ خالد خورشید نے بار کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جعلی ڈگری جمع کرائی تھی۔
تعلیمی اسناد کی تصدیق کے ذمہ دار ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بعد میں خالد خورشید کو دیا گیا مساوات کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا تھا کیونکہ وہ مبینہ طور پر لندن یونیورسٹی سے صداقت کی تصدیق حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
جعلی ڈگری کی خبر سب سے پہلے گلگت کے معروف صحافی شبیر میر نے چند سال قبل دی تھی۔
آج اس مقدمے کی سماعت مکمل ہوئی اور پھر فیصلے کا اعلان کیا گیا، جس سے خالد خورشید کے حلف اٹھانے کے 2 سال اور 7 ماہ بعد خطے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مختصر مدت کا خاتمہ ہوا۔
امجد حسین ایڈووکیٹ، جو گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں، درخواست گزار غلام شہزاد آغا کی نمائندگی کر رہے تھے، جبکہ خالد خورشید کی نمائندگی کرنے والی ٹیم کی قیادت ایڈووکیٹ اسد اللہ کر رہے تھے۔
درخواست گزار غلام شہزاد آغا کے لیے حیران کن صورتحال
چیف کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں درخواست گزار غلام شہزاد آغا کے لیے بھی حیران کن خبر تھا، جنہیں اب ‘حقائق چھپانے’ کی وجہ سے نااہلی کا سامنا ہے۔ مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آغا نے مقدمے کی سماعت کے دوران جان بوجھ کر عدالت سے یہ معلومات چھپائیں کہ وہ انسداد دہشت گردی قوانین کے آرٹیکل IV کے تحت دہشت گردی کی واچ لسٹ میں شامل تھے۔
خیال رہے کہ آغا چند سال قبل پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل وہ قوم پرست رہنما تھے۔ وہ جی بی اسمبلی کے ٹیکنوکریٹ ممبر ہیں۔
فیصلے پر ردعمل
عدالتی فیصلہ سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان سنایا گیا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس، ایف سی اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
پی ٹی آئی کے حامی بڑی تعداد میں عدالت کے گرد جمع تھے اور انہوں نے فیصلے کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو سزا اس لیے دی جا رہی ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا۔
پی پی پی اور پی ایم ایل این کے حامیوں نے فیصلے پر جشن منایا، رقص کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔