گلگت بلتستان میں اقتدار کی حالیہ رسہ کشی میں منتخب ایوان کی تذلیل افسوسناک ہے۔ سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کی نا اہلی کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کو تالے لگا کر منتخب نمائندوں اور سٹاف کو بے دخل کرنے کا عمل معزیز ایوان کی تضحیک ہے۔ وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ایسا غیر جمہوری قدم اٹھانا پڑا جبکہ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے آرڈرز پر عملدرآمد اسمبلی کو تالے لگائے بغیر بھی کرایا جاسکتا تھا۔ خالد خورشید کی نااہلی کے بعد اگلے روز معزیز رکن اسمبلی حاجی گلبر خان اپنے علاج کے سلسلے میں اسلام آباد میں موجود ہونے کی وجہ سے نئے قائد ایوان کا انتخاب رکوانے اور حکم امتناعی حاصل کرنے کی غرض سے سپریم اپیلیٹ کورٹ سے رجوع کر چکے تھے۔ جس پر معزیز عدالت نے سپیکر کو عدالت میں طلب کر لیا تھا تاکہ ان کی طرف سے عجلت میں جاری کئے گئے شیڈول سے متعلق حاجی گلبر کی اپیل پر ان کا موقف سنا جاسکے، جس میں کاغذات نامزدگی اور انتخاب کے درمیان محض چند گھنٹوں کا وقت دیا گیا تھا ۔ حاجی گلبر خان کی سپریم اپیلٹ کورٹ میں دائر کی گئ اپیل سے ظاہر ہوتا تھا کہ کورٹ کے آرڈرز کے بغیر انتخاب کا عمل جاری رکھنا سپیکر کے لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ کئ ممبران اسمبلی سٹیشن پر موجود نہیں تھے ۔ پھر وہی ہوا اور کورٹ سے اسی روز حکم امتناعی جاری ہوگیا اور سپیکر کو حکم ملا کہ وہ قائد ایوان کے انتخاب کے لئے نیاء شیڈول جاری کریں ۔
کورٹ کے اس آرڈر پر عملدرآمد کے لئے سپیکر خود بھی کورٹ سے وعدہ کرکے آئے تھے جبکہ اس کے علاوہ کورٹ آرڈرز پر عملدرآمد کے لئے اسمبلی کا سکریٹریٹ ، سٹاف اور سیکورٹی کا عملہ موجود تھا۔ اسمبلی کی عمارت میں صرف اسمبلی ہال واقع نہیں ہے بلکہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اپوزیشن لیڈر کے چیمبرز کے علاوہ سکریٹری، ڈپٹی سکریٹریز سمیت سینکڑوں کی تعداد میں عملہ اور ان کے دفاتر بھی ہیں۔
ویڈیو کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمدجب کورٹ آرڈرز لے کر واپس اسمبلی کی طرف آگئے تو ان کو اسمبلی کے گیٹ پر روکا گیا اور ان کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئ۔ جس پر وہ وہاں موجود پولیس عملہ پر برہم بھی ہوگئے اور واپس لوٹے۔ اس کے علاوہ، معزیز رکن اسمبلی انجنئر محمد انور، معزیز خاتون رکن اسمبلی رانی صنم فریاد سمیت دیگر کئ اراکین اسمبلی کو اسمبلی کے گیٹ پر روکا گیا اور ان کو اندر داخل ہونے سے روکا گیا۔ یہاں تک کہ ان کو پارکنگ ایریا میں اپنی گاڑی تک جانے کی اجازت نہیں دی گئ۔ سٹاف کو بے دخل کرنے کے علاوہ منظر شگری سمیت سنئر صحافیوں کے ساتھ بد تمیزی کی گئ اور دھکے مارے گئے۔ جبکہ دن بھر اسمبلی عمارت پر پولیس قابض رہی۔ حیران کن معاملہ ہے کہ اسمبلی کی پوری عمارت کس قانون اور کس رول کے تحت پولیس کی تحویل میں دی گئ تھی؟ کیا اس کے لئے سپیکر یا اسمبلی سکریٹری کی طرف سے کوئی درخواست دی گئ تھی یا یہ پولیس کا اپنا فیصلہ تھا؟ ابتدائی طور پر پولیس نے یہ موقف اپنا یا تھا کہ اسمبلی کے اندر دہشت گردی کی اطلاع ہے لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ تو محض ایک بہانہ تھا ۔
لولی لنگڑی اور آئین کی چھتری سے محروم ہی سہی لیکن گلگت بلتستان کے منتخب نمائمندوں کا واحد فورم گلگت بلتستان اسمبلی ہے۔ منتخب نمائندوں کو وقتی عہدوں کی بجائے جمہوری اداروں کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کشمکش میں سیاسی جماعتیں اس معزیز ایوان کے تقدس کا دفاع کرنے میں یکسر ناکام رہیں۔ دنیا بھر میں منتخب نمائندوں کے ایوان کے تقدس اور احترام کو خصوصی طور پر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ منتخب نمائندوں کا ایوان کسی بھی خطے میں بسنے والے تمام لوگوں کے ووٹ جیسی اہم امانت کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے۔ وزیر اعلی کی نا اہلی کے بعد قانون کے تحت نئے قائد ایوان کا انتخاب ممبران اسمبلی کا استحقاق ہے۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق اس تسلسل کو پرامن اور احسن طریقے سے آگے بڑھانا تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آپس میں گتھم گتھا ہوکر مقدس ایوان کی تضحیک کا باعث بننے کی بجائے بات چیت اور افہام و تفہیم سے اسمبلی کی کارروائی کو روبہ عمل لانے کی ضرورت تھی۔ کورٹ آرڈرز کے مطابق اب نئے طے شدہ شیڈول کے مطابق یہ عمل احسن اور پرامن طریقے سے پائہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔
دوسری طرف توڑ جوڑ پاکستان کی سیاست میں نئ بات نہیں ہے اور گلگت بلتستان میں بھی ہر دفعہ انتخابات کے دوران یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ اس دفعہ یہ عمل پچھلے انتخابات کے بعد دو سال کے عرصے کے بعد دوبارہ دہرایا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل سے گلگت بلتستان کے ایک عام اور محنت کش فرد کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ سارا کھیل سیاسی جماعتوں کی دلچسپی کا ہے۔
پانج جولائی سے گلگت بلتستان میں جاری سیاسی کچھڑی میں کسی کا فائدہ ہوا ہے یا نہیں اس کا ہمیں علم نہیں ہے لیکن گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کا منتخب ایوان اور عوامی نمائندے اپنی تضحیک کا باعث بنے ہیں۔ جس سے موجودہ جمہوری نظام پہلے سے زیادہ کمزور ہوا ہے ۔ اس کے دور رس منفی اثرات مستقبل میں گلگت بلتستان کی سیاست اور جمہوری عمل پر بھی پڑیں گے۔ آنے والے دنوں میں ان غلط روایات کی بھینٹ تمام سیاسی جماعتیں چڑھیں گی۔ اسمبلی کا تالا لگانے کے واقع کی تمام جماعتوں اور منتخب نمائمدوں کو مل کر مذمت کرنا چاہئے اور ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کے بعد کارروائی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ عوام کے اس منتخب فورم کی تذلیل و توہین کا کوئی ایسا واقع رونما نہ ہوسکے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو یہ طے ہے کہ اصولی سیاست پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح یہاں بھی دفن ہوچکی ہے۔ بس مفادات کے لئے ووٹ اور ضمیر کا سودا کرنا معمول کی بات تصور کی جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں سیاست اور جمہوریت دونوں کا خدا حافظ ہے۔