کالمز

حسن شگری کی موت کس خطرے کا اشارہ ہے؟

عمران حیدر تھہیم

پاکستان میں کوہ پیمائی کی تاریخ میں سال 1954 کی K2 کی پہلی سمٹ سے زندہ بچ کر آ جانے والے امیر مہدی سے لیکر گزشتہ برس ایمان کریم اور شریف سدپارہ کی موت تک ایسے آشوبناک واقعات کا سلسلہ جاری ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب اس سلسلے کی تازہ کڑی نوجوان پورٹر حسن شگری کی K2 کے خطرناک ڈیتھ زون میں ہونے والی ہلاکت کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس خطّہء زمین نے کیسے کیسے انمول سپوت ان پہاڑوں میں گنوا دیے اگر اُن کی تفصیل پڑھیں تو دل دہل جاتا ہے

مَیں سال 2009 سے پاکستان میں ہونے والی تقریباً ہر سال کی مُہم جُوئی کو دیکھتا، پڑھتا اور پرکھتا آ رہا ہوں جبکہ اس سے قبل کی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کی جانی والی کوہ پیمائی کی 1895 سے نانگا پربت سے شروع ہونے والی تاریخ کو بھی تفصیل سے پڑھنے کی مُشقّت سے گُزر چُکا ہوں۔ اس ضمن میں اپنے گُزشتہ کئی آرٹیکلز میں بہت تفصیل سے لکھ بھی چُکا ہوں کہ کس طرح غیرمحسوس طریقے سے پاکستان میں نیپالیوں نے کوہ پیمائی کا ایک نیا بزنس ماڈل متعارف کروا کر اس صنعت پر اپنے غلبے کا آغاز کر رکھا ہے۔ مُختصراً دوبارہ بیان کرتا چلوں کے سال 2008 کے K2 حادثے کا اثر عالمی کوہ پیما برادری پر اتنا شدید تھا کہ اُس کے بعد اگلے تین سال یعنی 2011 تک پاکستانی پہاڑوں پر کسی کو پھٹکنے کی ہمّت تک نہ ہوئی۔ سال 2012 میں نیپالیوں نے اپنے شرپاؤں کی نئی تربیت یافتہ کھیپ میدان میں اُتاری اور K2 پر تاریخ کی سب سے بڑی تعداد یعنی 28 کوہ پیماؤں نے کامیاب سمٹ کی۔ یُوں پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کمرشل کلائمبنگ کا آغاز ہوا۔ اس کمرشل کلائمبنگ کے نئے ماڈل کے بُنیادی مقاصد ذیل تھے

1. پہاڑوں کو سر کرنے کے ایسے شوقین افراد کو تلاش کرکے ٹارگٹ کیا جائے جو شُہرت کے متلاشی ہوں۔

2. ایسے امیر افراد جو دولت کے بل بوتے پر کچھ انوکھا کارنامہ سرانجام دینا چاہتے ہیں اُنہیں لُبھایا جائے کہ آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر ایک مُنفرد انسان بن جائیں گے اور دُنیا آپ کو بہادر اور مضبوط انسان سمجھنا شروع ہو جائے گی۔ آپ کو بھی اپنی خرچ کی گئی رقم کا ریٹرن باقی عُمر قومی ہیرو اور موٹیویشنل سپیکر بن کر کمانے کی صُورت میں ملے گا۔

3. پہاڑوں پر چڑھنے کےلیے تربیت کی اتنی خاص ضرورت نہیں بس آپ اپنی صحت اور فِٹنس بہتر کرکے پیسہ خرچ کریں آپ کے حصّے کی مُشقّت ہمارے تربیت یافتہ پورٹرز یا شرپاز کریں گے۔ وہ آپ کو اپنے کندھوں پر بِٹھا کر بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ بس پیسہ پانی کی طرح بہائیں باقی کام ہم کمرشل کمپنیوں پر چھوڑ دیں۔

4. نیپالی شرپاؤں کو ایسی تربیت دی جائے گی کہ وہ نہ صرف اپنے پہاڑوں پر کوہ پیمائی کے چیمپیئن بن کر قیمتی زرِ مُبادلہ کمائیں گے بلکہ پاکستان کی کوہ پیمائی کی صنعت پر بھی اجارہ داری قائم کرلیں گے۔ اور مُستقبل میں یہ صنعت بھی نیپالیوں کی مرضی سے چلے گی۔

5. اپنے تربیت یافتہ شرپاز کی مدد سے نہ صرف ہمارا ہیروازم پروان چڑھے گا بلکہ رفتہ رفتہ پاکستان کے غیرتربیت یافتہ مقامی پورٹرز کو بھی کم اُجرت پر مزدوری پر رکھ کر اُنکی مسیحائی کا تاج بھی سر پر سجانے کا موقع مل جائے گا اور آئندہ کوہ پیمائی سے وابستہ پاکستانی کمیونٹی بھی اُن کے بزنس ماڈل کی تابع رہ کر کام کرے گی اور اپنی سرزمین پر اُنکے مفادات کا تحفّظ کرے گی۔

ان دُور رس مقاصد کو حاصل کرنے کےلیے نیپالیوں نے 2012 سے لیکر آج تک دن رات محنت کی اور بالآخر وہ اس قابل ہوگئے کہ PATO کے اعداد و شُمار کے مطابق اس سال پاکستان میں کوہ پیمائی سے حاصل ہونے والی آمدن کا تقریباً 90 فیصد ریونیو نیپالیوں نے حاصل کیا اور باقی 10 فیصد میں حکومتِ پاکستان سے لیکر حسن شگری تک کی مسیحائی کی گئی۔

ہم پاکستانی بَیک وقت ذہین اور کوتاہ فہم قوم ہیں۔ گلگت۔بلتستان کے عوام پاکستان کے میدانی علاقوں کے شُہرت پسند سیّاحوں سے دو ہاتھ آگے کی جہالت رکھتے ہیں لہٰذا یہ نہ سمجھ پائے کہ اُن کو باصلاحیت کوہ پیما کمیونٹی بنانے کی بجائے صرف بھکاری اور نیپالی کمپنیوں کے غلام بنایا جارہا ہے۔ سال 2012 سے قبل پاکستان میں گُزشتہ 60 سالوں میں K2 صرف 304 بار اور نانگا پربت و براڈ پِیک بالترتیب 324 اور 335 بار سر ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے بعد کے 10 سالوں میں K2 پر تو تقریباً کُل 1000 سمٹس ہو چُکی ہیں اور نانگا پربت پر بھی کسی ایک سال میں سمٹس کا 125 سالہ ریکارڈ اس سال 26 جون کو ٹُوٹ چُکا ہے جب ایک دن میں 30 سے زائد اور ایک سیزن میں 60 سے زائد سمٹس ہوئیں۔ نانگا پربت پر کوہ پیمائی کی 1895 سے شروع ہونے والی 127 سالہ تاریخ میں سال 2012 تک 117 سالوں میں صرف 18 نیپالی نانگا پربت سر کر پائے تھے لیکن 26 جون 2023 کو محض ایک دن میں 20 کے قریب کوہ پیماؤں نے نانگا پربت کو سر کیا۔ سال 2012 سے آج دن تک پاکستان میں کسی ایک بھی نیپالی شرپا کی کلائمبنگ یا نان کلائمبنگ فیٹیلیٹی نہیں ہوئی جبکہ پاکستان میں ہر سال ہاکستانی پورٹرز کی 2/3 اموات لازمی ہوتی ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستانی نوجوان حسن شگری 3 گھنٹے فکسڈ لائن کے ساتھ زندہ لٹکتا جُھولتا رہا تو کسی نے اُس کو بچایا کیوں نہیں، تکنیکی طور پر یہ غلط مطالبہ ہے، کیونکہ یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر آٹھ ہزاری پہاڑ کے ڈیتھ زون ( سطح سمندر سے 8000 میٹر سے زیادہ بُلند علاقہ جہاں میڈیکل سائنس کی رُو سے انسانی جسم کی ایکلائماٹائزیشن کی قُدرتی صلاحیت صفر ہو جاتی ہے) میں نہ تو قانونی طور پر اور نہ ہی اخلاقی طور پر کسی دوسرے انسان کی زندگی بچانے کی ذمّہ داری کسی پر بھی عائد کی جا سکتی۔ بہت کم لوگوں کو شاید یہ علم ہو کہ عالمی سطح پر یہ ایک S.O.P ہے کہ ایسے واقعہ پر کریمینل پروسیڈنگز نہیں ہو سکتیں اور ڈیتھ زون میں کسی کی موت کا کسی کو بھی ذمّہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اصل تشویشناک اور المناک صُورتحال تو یہ ہے کہ گُزشتہ 10 سال میں جب سے نیپالیوں کا بزنس ماڈل پنپ رہا تھا کوئی ایسی قانون سازی ہی نہیں ہوئی جس کے تحت سرٹیفائی کیا جا سکے کہ پہاڑوں پر کس درجے کا تربیت یافتہ پورٹر بھیجا جا سکتا ہے۔ دُنیا بھر میں LAP اور HAP کی تربیت کے الگ الگ معیارات اور پروسیجرز رائج ہیں۔ واحد ہمارا یہ خطّہء زمین دُنیا میں منفرد مقام کا حامل ہے کہ آپ جب چاہیں جسے مرضی چاہیں مول بھاؤ کرکے پورٹرز کے طور پر پہاڑوں میں لے جا سکتے ہیں۔ یہ سوچے، سمجھے، دیکھے اور پرکھے بغیر کہ اس مزدور کی صلاحیت کیا ہے۔ نتیجتاً گلگت۔بلتستان کے وہ قیمتی لوگ جو نسل در نسل ایک ایسی جنیٹک میوٹیشن کے وارث ہیں جن کے اندر پہاڑ پر چڑھنے کی قُدرتی صلاحیت اُن کے DNA میں درج اور محفوظ ہے۔ وہ ایک ایک کر کے دُنیا سے رُخصت ہو رہے ہیں۔ شاید آپکو معلوم ہو کہ دُنیائے کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ فنگر سپن بالرز میں سے اکثریت نے اپنی اُنگلیوں تک کی بھاری پریمیئم کے ساتھ انشورنس کروائی ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک سپن بالر کا جادو اُسکی اُنگلیوں میں ہی ہوتا ہے۔ بعینہِ گلگت۔بلتستان کی کوہ پیما کمیونٹی کی جادوگر اُنگلیاں دراصل ان کا پورٹر طبقہ ہے جس کا استحصال ہر سال، ہر مہینہ اور ہر دن جاری ہے۔ مَیں حسن شگری کی اس المناک موت پر ریکارڈ بنانے کے شوقین ٹورسٹس اور فیک ہیروز کو بالکل مُوردِ الزام نہیں ٹھہراؤں گا۔ اصل قصوروار ہم خُود ہیں جو اتنے پتھّر دل اور کوتاہ فہم ہیں کہ امیر مہدی سے لیکر حسن شگری تک مُسلسل غیر مُلکیوں کے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کو رُسوا کروا کر کھوتے جارہے ہیں۔ لیکن اصل مسئلے پر بالکل بھی توجّہ نہیں دے رہے اور وہ ہے اُس تربیت اور صلاحیت کا فُقدان کہ جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے ہی پورٹرز ڈیتھ زون میں entangled ہو کر گِرتے ہیں اور کبھی جہان بیگ کی طرح تو کبھی حسن شگری کی طرح سیلف ریسکیو تک نہیں کر پاتے۔ زندہ بچ جانے والے شمشالی، سدپاروی، ہُنزئی اور ہوشوی پورٹرز کو مَیں پیشگی خبردار کر دوں کہ اگر آپ بھی ان فیک ہیروز اور ان شُہرت پسند ٹُورسٹس کی طرح خُود کو گلوریفائی کرنے کے بےمقصد مشن پر چل نکلے ہیں تو جاتے جاتے اپنے بچوں کو بتاتے جایا کریں کہ ہم خُود کُشی پر جارہے ہیں تُم دُعا کرنا کہ موت ہی ہمیں چکمہ دے جائے اور ہمیں زندہ چھوڑ جائے ہم سے خیر کی توقّع نہ رکھنا۔ اور ہماری موت کے بعد اس پہلے سے بھکاری قوم سے تُم بھی بھیک مانگ لینا۔ یہ چند دن تُمہارے ساتھ واویلہ کرکے سوشل میڈیا ٹرینڈ بنا کر رو دھو لے گی لیکن تُمہاری قُدرتی صلاحیتوں کو تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کےلیے نہ ہی اپنی حکومت کو مجبور کرے گی اور نہ ہی خُود قدم اُٹھائے گی۔

یہ ناؤ ڈُوبنے کو ہے اور اِس پر مُشتعل لوگ
سُنہرے ساحلوں کے گِیت گائے جارہے ہیں

و ما علینا الا البلاغ ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button