کالمز

شاہراہ بلتستان موت کا کنواں کیسے بنی؟

کالم۔ قطرہ قطرہ

شاہراہ بلتستان کی تعمیر کے بعد ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ گلگت اور بلتستان کا فاصلہ کم ہوجائینگا اور بلتستان کی خوبصورت سرزمین جو پہلے سے سیاحت کے لئے زرخیز تھی اب اس کو چار چاند لگ جائینگے ۔ اس روڑ کی تعمیر کے لئے بلتستان کے عوام نے بڑی جدوجہد کی تھی اور وہاں کے منتخب نمائندوں نے بھی کئ سالوں تک اس کو مشترکہ ایجنڈا بنا رکھا تھا۔ اس روڑ کی تعمیر مقامی لوگوں کا دیرینہ خواب تھا۔ اس روڑ کی تکمیل تک مقامی لوگوں نے بہت ساری سفری تکلیفات اٹھائی تھیں۔
ان کوششوں کے نتیجے میں جب یہ شاہراہ تعمیر ہوگئ تو وہاں کے لوگوں نے خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ ہم نے بھی اس روڑ کی تعمیر کے بعد متعدد مرتبہ بلتستان میں سیر و تفریح کا شرف حاصل کیا ۔ مگر صد افسوس کہ اب یہ شاہراہ موت کا کنواں بن گئ ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے ۔ لینڈسلائڈنگ کے واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ ان حادثات میں کئ قیمتی جانیں ضائع ہوگئ ہیں. روزانہ روڑ کی بندش کی وجہ سے مقامی لوگوں اور سیاحوں کو ایک کربناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس روڑ میں حفاظتی جنگلے، حفاظتی دیواریں اور سلائڈنگ کی جہگوں پر ٹنلز کا نہ ہونا ان تمام حادثات کی اہم وجوہات بتائی جارہی ہیں۔ تیز رفتاری اور روڑ سے واقفیت نہ ہونا سیاحوں کے لئے ایک الگ خطرہ ہے مگرمقامی لوگ محض روڑ کی ناقص تعمیر کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس پر این ایچ اے اور حکومت کان دھرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ گذشتہ دنوں اس روڑ پر سلائڈنگ کی زد میں آنے والے ایک خاندان کی ویڈیو دیکھ کر کلیجہ پٹھنے کو آیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور اس روڑ میں انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کے لئے درکار حفاظتی اقدامات اٹھانے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ صرف ناقص تعمیر پر رونا اس کا حل نہیں ہے بلکہ ان تمام کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا ہے جن کی وجہ سے روڑ کی حالت نا گفتہ بہہ ہوگئ ہے۔ اس ضمن میں بلتستان کے منتخب نمائندوں اور گورنر گلگت بلتستان کو بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button