کالمز

ضلع ہنزہ کے لئے جی بی اسمبلی میں تین سیٹیں

ضلع ہنزہ گلگت بلتستان کے دس ضلعوں سے ایک اہم ضلع ہے۔یہ وادی ہنزہ بھی کہلاتا ہے اور قدیم ایام میں اسے کنجوت بھی کہا جاتا تھا۔ اس کی سرحدیں جنوب میں گلگت، مشرق میں ضلع / وادی نگر ، شمال مشرق میں سنکیانگ ، چین اور شمال مغرب میں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اس کی تاریخ صدیوں بلکہ ہزاریوں پر مشتمل ہے۔
        ضلع ہنزہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور جغرافیائی محل وقوع اور تزویراتی اعتبار سب سے اہم ضلع شمار ہوتا ہے۔ کیونک یہ چین اور پاکستان کے درمیان زمینی رابطے کا اہم ذریعہ ہے اور چین سے اس کے صدیوں پرانے تعلقات رہے ہیں۔ نیز یہ کہ ہنزہ آبادی کے اعتبار سے بھی ایک بڑا ضلع شمار ہوتا ہے۔ شاہراہ قراقرم (KKH)، چائینا پاکستان ایکنامک کوریڈور (CPEC) اور کسٹم کی موجودگی، نیز چین پاکستان تجارتی سرگرمیوں کے اہم مرکز ہونے کے ناطے سے ضلع ہنزہ دوسرے تمام ضلعوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے ہنزہ کے لئے جی بی اسمبلی میں تین سیٹوں کا مطالبہ اہل ہنزہ کا آئینی و قانونی اور انتظامی و اخلاقی حق ہے۔ کیونکہ قدیم زمانے سے عہد حاضر تک ہنزہ جغرافیائی، انتظامی اور ثقافتی لحاظ سے تین اکائیوں پر مشتمل رہا ہے جو اس مطابق ہیں:
1۔ زیرین ہنزہ/شیناکی،
2۔ مرکزی ہنزہ / بروشال،
3۔ بالائی ہنزہ / گوجال
 زیرین ہنزہ، جسے شیناکی ہنزہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں بنیادی طور پر شینا زبان بولنے والے لوگ آباد ہیں جو زیادہ تر گلگت، چلاس اور ان کے گرد و نواح سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ تاہم، بیسویں صدی کے اوائل میں مرکزی ہنزہ کے بروشسکی بولنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں یہاں، خاص طور پر خانہ آباد اور حسین آباد میں، آباد ہوئے ہیں۔ نیز یہ کہ شیناکی کا حلقہ / اکائی تاریخی اعتبار سے مچو شر (خضر آباد کے مغرب کی جانب ایک چھوٹا سا نالہ) سے لے کر مشرق کی جانب حسن آباد نالے تک محیط ہے۔ اس طرح حسن آباد اور  مرتضٰی آباد( بالا و پائین) کی پوری آبادی بھی شیناکی حلقے میں شامل ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق علی آباد کا مغربی حصہ، جسے پہلے زمانے میں کھوٹوکل اور اب آغاخان آباد کہا جاتا ہے، شیناکی کا حصہ تھا۔ یہ علاقہ میر سلیم خان (متوفی۔1823ء) اور میر غضنفر علی خان( 1865ء) دور میں شیناکی کے لئے مختص کیا ہوا تھا ایک وقت تک وہاں وہ وہاں آباد بھی رہے۔ تاہم، کچھ عرصے بعد بوجوہ شیناکی والوں نے اسے خیر باد کہہ کر دوبارہ ہنی / ہندی (موجودہ ناصر آباد) میں آ بسے۔
2۔ مرکزی ہنزہ، جسے بروشال کہنا چاہیے،  آبادی کے اعتبار سے ہنزہ کا سب سے بڑا حلقہ / اکائی ہے۔ نیز یہ کہ ماضی میں ریاست ہنزہ کا سیاسی و انتظامی مرکز بھی یہاں پر تھا اور بلتت / کریم آباد اس کا صدر مقام تھا۔ یہ حلقہ مغرب میں علی آباد سے لے کر مشرق میں عطا آباد / غرئے اٹ تک پھیلا ہوا تھا۔ یہاں بروشسکی زبان بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ اگرچہ مختلف ادوار میں چلاس، گلگت، بلتستان اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ آکر یہاں آباد ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اپنی سابقہ زبان و ثقافت کو ترک کے بروشسکی زبان و ثقافت اختیار کیا ہے۔ گویا یہ حلقہ گوناگوں نسلوں کا حامل تکثیریت والا خطہ زمین ہے۔
3۔ بالائی ہنزہ، جسے گوجال بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حلقہ/ اکائی غوش بن اور ششکٹ سے خنجراب تک پھیلا ہوا ہے۔ بالائ ہنزہ / گوجال کی اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ حلقہ / وادی  چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندرے11 ہزار فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ گوجال کے سرحدی گاؤں، مسگر، بھی چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن  واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے،  واخان، سے لگتی ہیں۔ واخان کا علاقہ 2 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہو تی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے سیاحتی مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔ اپنی جغرافیائی خصوصیات کی بنیاد پر وادی گوجال تزویراتی اور کاروباری اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں بنیادی طور پر واخی زبان بولنے والے لوگ آباد ہیں جو تاریخ کے مختف ادوار میں واخان سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں۔ تاہم انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں بہت سے لوگ مرکزی ہنزہ اور چھپروٹ ( نگر) سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں جن کی یہاں قابل ذکر تعداد موجود ہے۔
      ان مذکورہ بالا تاریخی و جغرافیائی، سیاسی و انتظامی اور ثقافتی و لسانی حقائق کے پیش نظر گلگت بلتستان اسمبلی میں ضلع ہنزہ کے لئے تین (3) سیٹیں مختص کرنا آئینی و قانونی تقاضا بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ امید ہے کہ گلگت ۔ بلتستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت انصاب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ضلع ہنزہ کے لئے تین سیٹیں مختص کریں گی اور ہنزہ کی محنت کش، غیور، پر امن اور ترقی پسند عوام، جو ملک اور علاقے کی ترقی و سلامتی کے حوالے سے ہر اول دستے کی حیثیت رکھتی ہے، کے ارمانوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے اپنی مخلصانہ کوششوں کو رو بہ عمل لائیں گی۔ انشاءاللہ
نوٹ: یہاں قارئین کی معلومات کے لئے 1909 ء میں مرتبہ گلگت گزیٹئر سے ہنزہ کے تین حلقوں کے متعلق اہم اقتباس درج کیا جاتا ہے۔

Three Parts  of Hunza
Hunza consists of three parts.
a)  Hunza Proper.
b)  Herber or  Little Gojhal.
c)  Shinaki.
      Hunza proper extends from the Bulchidas spur on the east to the Tashot spur on the west, nearly opposite the Tashot bridge.
       Herbar or little Gojhal includes the main Valley and all the lateral  valleys  north of the Bulchidas  spur.
       Shinaki  comprises that portion of the valley on the right  bank of the Hunza river, extending  from the Tashot  spur as far as the spur separating Hunza territory  from the Karumbar  and Garmasai Valley. It contains the two villages of Maiun and Hini.
(Gazetteer of Gilgit, Simla, Government of India Press, 1928, 1st Edition 1909, P p. 9-10)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button