عوامی مسائلفیچر

مصنوعی گلیشر نے حسین آباد گاوں میں پانی کا بحران حل کردیا

محمد رضا پیشے کے اعتبار سے ماہر زراعت ہے اور محکمہ زراعت میں ملازم بھی۔ ان کے گاؤں میں گزشتہ کئی سالوں سے پانی کا شدید بحران تھا۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ گاؤں میں پانی کی قلت کو کس طرح کم کیا جائے! زراعت میں اپنی دلچسپی کے باعث انہیں اس مسلے کو حل کرنے کی تڑپ تھی۔ وہ سوشل میڈیا پہ ہمیشہ ایسامواد دیکھتے تھے جس سے انہیں پانی کا بحران حل کرنے میں مدد مل سکے۔

ایک دفعہ جب وہ یوٹیوب دیکھ رہے تھے تو ان کی نظروں کے سامنے بھارتی لداخ کے ایک سائنس دان سونم وچونک کی ویڈیو آئی اور انہوں نے سونم وچونک کی اس وی لاگ کو دیکھا، جس میں سونم وچونک آئس سٹوپا بنا رہے تھے۔

محمد رضا، گلیشر گرافٹنگ کا ماہر

محمد رضا نے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد اپنی قریبی ساتھی ماسٹر شکور کو بتایا کہ اس طرح ایک ویڈیو دیکھی ہے جس پر ہم کام کرسکتے ہیں اور پانی کی قلت کو شاید کم کرسکتے ہیں۔

ماسٹر شکور نے ان سے اتفاق کیا اور محلے کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ مل کر محمد رضا نے پہلے سال  تین آئس سٹوپاز بنائے۔ ان سٹوپاز کی بدولت مارچ سے اپریل تک ان کے گاؤں میں پانی کا بحران نہیں ہوا۔ 

اس کامیاب تجربے سے مزید فائدہ اُٹھاتے ہوے انہوں نے اس سات (7) آئس ٹاورز بنائے جس کی بدولت ان کے گاوں کو مارچ سے اگست تک پانی ملتا رہا اور کسی کو بھی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر مصنوعی گلیشر کیسے اُگایا جاتا ہے؟

محمد رضا کہتے ہیں کہ مصنوعی گلیشرز اُگانے کے لیے سب سے پہلے مناسب جگے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً گاوں کی سطح سے تھوڑی اونچائی پر تاکہ کشش ثقل کے زیر اثر پگھلا ہوا پانی بہہ کر  نیچے گاوں تک پہنچ سکے۔

مصنوعی گلیشرز بنانے کے یوں تو بہت سارے طریقے ہیں لیکن ہم نے جو اپنایا ہے وہ پانی کے فواروں کے زریعے مخصوص درجہ حرارت پر پانی کو فوارے کی شکل میں کسی جھاڑی والی جگہے پر چھڑکانا ہے۔ پست درجہ حرارت کے باعث پانی جھاڑیوں کے درمیان جم جاتا ہے اور روزانہ تقریباً ایک فٹ برف بنتا ہے۔ سردیوں کے ماہ دسمبر ، جنوری ، فروری میں اس طرح پانی کو جما کر ایک سٹوپا یا ٹاور کی شکل میں ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ مارچ کے بعد درجہ حرارت بڑھنے پر برف کا یہ ٹاور یا سٹوپا پگھل جاتا ہے، جسے کھیتوں یا کیاریوں اور باغات تک پہنچا کر آبپاشی کی جاسکتی ہے۔

قربان علی، مقامی زمیندار

مقامی کسان قربان علی کے مطابق جب سے ان کے گاؤں میں محمد رضا نے مصنوعی گلیشرز لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے ان کے لیے پانی کے بحران میں واضح کمی ہوئی ہے۔

اس پہلے جب مصنوعی گلیشر نہیں لگے تھے تب ان کو مئی تک پانی کےبحران کا سامنا کرنا پڑتا تھا، پر ابھی مصنوعی گلیشرز لگنے کے بعد پورے گاؤں کے لوگوں کو زراعت کے لیے پانی کی کمی نہیں ہے۔

یو این ڈی پی کے بلتستان کے کوآرڈینیٹر راشید احمد کے مطابق بلتستان میں یو این ڈی پی کے تعاون سے گانچھے مچلو، چندہ، کواردو اور حسین آباد میں مصنوعی گلیشرز رافٹنگ کے حوالے سے کام ہر سال ہورہا ہے۔ اور بہترین نتائج آرہے ہیں۔ جس کی واضح مثال یہی ہے کہ جس جگے پر مصنوعی گلیشرز لگتے ہیں اس گاؤں کے لوگوں کو مزید پانی کا بحران نہیں ہوتا اور مصنوعی گلیشرز کے زریعے زراعت اور پینے کے لیے پانی کافی حد تک میسر ہوتاہے۔

مصنوعی گلیشرز لگانے کے لیے زمین میں مٹی، پتھر اور جھاڑیوں کی موجودگی  لازمی ہے۔ اس کے علاوہ وہ جگہ تھوڑی سی بلندی پر ہونا بھی ضروری ہے تاکہ درجہ حرارت لمبے عرصے تک کم رہے۔ 

محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے سب انجینئر کاچو زلفقار کے مطابق مصنوعی گلیشر لگنے سے پہلے حسین آباد گاؤں میں پانی کا بحران پندرہ فیصد تک کم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی مزید قلت کو بہتر انتظام کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مذید کہا کہ اس پروجیکٹ یعنی مصنوعی گلیشر کے لگنے سے پانی کی تقسم میں بھی آسانی ہوئی ہے۔ انہوں نے مذید یہ بھی کہا کہ حسین آباد نالے میں لگے اس مصنوعی گلیشر پروجیکٹ میں محکمہ پی ایچ آئی نے بھی بھرپور تعاؤن کی ہے، مقامی کمیونٹی کی درخواست پر ایک خطیر رقم بھی اس پروجیکٹ کے لیے دی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button