نبی مشفق ﷺ
اللہ رب العزت کا انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ رب ذوالجلال نے رسول مشفق صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے لیے ایک کامل نمونہ اور مکمل رول ماڈل بنا کر، دنیا میں مبعوث کیا۔آپ ﷺ قیامت تک ہر انسان کے لیے معیار ہے۔ رسول مشفق ﷺ کا ہر گوشہ، ہر لمحہ، آپ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو اور ہر چیز تابناک ہے اور انسانیت کے لیے روشن ہے۔انسانیت کے لیے اس سے بڑی کیا نیک بختی ہوسکتی ہے کہ رسول مشفق ﷺ کی ولادت عظیم سے لے کررحلت مبارکہ تک کا ہر ہر لمحہ اللہ رب العزت کے امر و منشاء سے آپ ﷺ کے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محفوظ کیا ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں شفقت نبی ﷺ
اللہ رب العزت کا اس امت پر ہزاروں احسانوں کے ساتھ ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس امت کو رسول مشفق ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا۔ جناب محمدﷺ کو اللہ رب العزت نے انتہائی مشفق، نرم مزاج و دل اور مہربان بنایا ہے۔ رسول مشفق ﷺ اپنی امت کے ہر فرد کے لیے سراپا رحمت ، سراپا شفقت اور کرم ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں رسول اللہ کی شفقت و رحمت کے متعلق ارشاد فرمایا: ”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ” ترجمہ:”یہ اللہ پاک کی خاص رحمت ہے کہ آپ ﷺ ان کے لئے نرم دل ہیں“۔( آل عمران 159)
دوسرے مقام پر سورہ توبہ میں اللہ نے ارشاد فرمایا: بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ، رسول اللہ،مومنوں پر بہت ہی شفیق اور نہایت مہربان ہیں“۔(التوبہ: 128) اسی طرح سورۃ الحجر میں ہے وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ یعنی ’’اور مسلمانوں پر شفقت رکھئے۔‘‘۔( سورۃ الحجر88)۔اسی طرح قرآن کریم کے کئی مقامات میں آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کا ذکر ملتا ہے۔
رسول مشفق ﷺ کے سینہ طہر میں پیدا کردہ اسی رحمت و شفقت کا اثر تھا کہ آپ صرف نیک،متقی اور اچھے لوگوں کو پیش نظر نہ رکھتےتھے بلکہ اپنے قریبی احباب سے بھی بڑھ کر گناہ گاروں، نادارووں،غریبوں،کمزورں،فقراء، مسکینوں، خواتین، معصوم اور نو عمر بچوں، بیواؤں، یتیموں،غلاموں، لونڈیوں اور خادموں،بیماروں اور فوت شدگان ،منافقین، کفار، مشرکین اور دشمنوں،ذمیوں اور معاہدین، جانوروں اور پرندوں، نباتات اور جمادات پر رحیم و شفیق تھے۔ غرض رسول اللہ پوری امت محمدیہ اور تمام جہانوں اور جملہ مخلوقات الہی پر شفیق اور مہربان تھے۔
آپ ﷺ کی شفقت و مہربانی کا ذکر سیرت اور احادیث کی کتب میں بے تحاشا ہے۔آپ ﷺ کی شفقت کی کہانیاں سینکڑوں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی محبت و شفقت ، رحمت و کرم، نرمی و پیار میں گزری ہے۔یہی وجہ تھی کہ کائنات کا کوئی ذرہ، کوئی مخلوق اورکوئی انسان رسول مشفق ﷺ کی رحمت و شفقت سے محروم نہ رہا۔
ہم آئندہ کے سطور میں سیرت البنی ﷺ کے چند پہلوں بیان کریں گے جن میں آپ نے شفقت و رحمت کا معاملہ فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کے واقعات اور فرمودات بہت زیادہ ہیں۔ تنگی داماں اتنی ہے کہ ان سب کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ چیدہ چیدہ واقعات اور ارشادات سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
آپ ﷺ کی گناہ گاروں پر شفقت
رسول مشفق ﷺ صرف اچھے ، سمجھدار اور متقی لوگوں پر شفقت نہیں فرمایا کرتے، بلکہ گناہ گار انسانوں سے بھی محبت کرتے اور شفقت کا معاملہ فرماتے۔ بڑی سی بڑی غلطی پر بھی آپ ﷺ شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ” ہم مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نےکہا: کیا کر رہے ہو ؟ کیاکر رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے ( درمیان میں ) مت روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام نےاسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایااور فرمایا:’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔ ‘‘ پھر آپ ﷺنے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا ، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا ۔ (ؔصحیح مسلم، ح،661)۔
’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا کہ شفاعت اور آدھی امت کے جنت میں داخل ہونے میں سے ایک چیز چن لوں، تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ وہ عام ہو گی اور کافی ہو گی، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت متقیوں کے لیے ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایسے گناہگاروں کے لیے ہے جو غلطی کرنے والے اور گناہوں سے آلودہ ہوں گے ۔‘‘ ( ابن ماجہ، ح، 4311)
آپ ﷺ کا نادارووں،غریبوں،کمزورں،فقراء اور مساکین پر شفقت
رسول مشفق ﷺ نے فقراء اور مساکین کے ساتھ محبت، ہمدردی، مجالست اور انہیں کھلانے پلانے اور ان کی خدمت کا درس دیا ہے۔ رسول اللہ نے فریاما۔ ” أَحِبُّوْا الْفُقَرَاءَ وَجَالِسُوْهُمْ۔”
’’ فقراء سے محبت کرو اور اُن کی مجلس اختیار کرو۔‘‘ ( المستدرک، ح، 7947)
بخاری شریف کی ایک اور حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس دعوت ولیمہ کا کھانا بہت برا ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے ۔‘‘(بخاری: ح، 5177)
آپ ﷺ کی خواتین پر شفقت
رسول مشفق ﷺ نے خواتین کے حقوق خوب بیان کیے۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی اپنی زوجات یعنی امہات المومنین سے محبت و شفقت کی مثال ہے۔امام ترمذی نے نقل کیا ہے۔
حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا” ”سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔(ترمذی، ح،1163)
آپ ﷺ حالت جنگ میں بھی خواتین کا احترام اور انہیں قتل نہ کرنے اور نقصان نہ پہنچانے کی ہدایات جاری فرمایا کرتے تھے۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی (سختی سے) ممانعت فرما دی۔‘‘( صحیح مسلم،ح، 4548)
آپ ﷺ نے سات تباہ کن گناہوں سے بچنے کا حکم صادر کیا جن میں ایک پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا بھی شامل ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:
وَقَذْفُ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ،یعنی عورتوں پر الزام تراشی کرنا تباہ کن گناہ ہے۔(صحیح مسلم، ح 262)
آپ ﷺ کی معصوم اور نو عمر بچوں پر شفقت
آپ ﷺ نے ہر حال میں بچوں پر شفقت و محبت اور رحم کرنے کا درس دیا اور خود عملی مظاہرہ بھی کیا۔ آپ کی بچوں سے محبت اور ان پر شفقت فطری ہوتی تھی۔ نبی مشفق ﷺ نے فرمایا
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا
’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے‘‘۔ (ترمذی 1920)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لے جاتے، اُن کے بچوں کو سلام کرتے، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے اور اُن کے لئے دعا فرماتے۔‘‘ (نسائی)
رسول مشفق ﷺ اپنے بچوں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے جتنی محبت و شفقت کرتے تھے اس سے سیرت اور حدیث کی کتب بھری پٖڑی ہیں ۔
آپ ﷺ کا بیواؤں اور یتیموں پر شفقت
آپ ﷺ علیہ وسلم بیورہ خواتین اور یتیموں پر شفقت کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لئے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے” (صحیح مسلم، ح، 7468)
یتیموں کی کفالت کے متعلق ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے:’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔‘‘ (ترمذی ، ح، 1918)
آپ ﷺ کا غلاموں، لونڈیوں اور خادموں پر شفقت
’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اُن کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو ۔‘‘(بخاری 190)
آپ ﷺ کی بیماروں اور فوت شدگان پر شفقت
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےرسول اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کسی مریض کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا فرماتے’’اے لوگوں کے ربّ! تکلیف کو دور فرما دے اور شفاء عطا فرما، بے شک شفاء دینے والا تو ہے۔ شفاء نہیں مگر تیری شفاء، ایسی شفاء مرحمت فرما جو بیماری کا نشان تک نہ چھوڑے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، ح، 3520)
ایک اور حدیث میں فرمایا: ”بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت یعنی بیمار پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ”۔ (بخاری ح، 5549)
آپ ﷺ کی منافقین، کفار، مشرکین اور دشمنوں پر شفقت
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول رحمت ﷺ سےعرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بد دعا کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (السلسلہ، ح، 3449)
آپ ﷺ کا ذمیوں اور معاہدین پر شفقت
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی معاہد (جن غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو) کو (بغیر کسی جرم کے) قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (بخاری،ح، 3166)
آپ ﷺ کی جانوروں اورپرندوں پر شفقت
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔‘‘ (طبرانی، ح 885،)
آپ ﷺ کی نباتات اور جمادات پر شفقت
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون گریہ و زاری کرنے لگا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ خشک ستون چپ ہوا)۔‘‘ (بخاری 3390)
آپ ﷺ کی پوری امت پر شفقت
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: میں اپنی امت کی سفارش کروں گا اور اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا، یہاں تک کہ میرا رب ندا دے گا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تو اب راضی ہوگیا؟ میں عرض کروں گا: ہاں! میرے رب! میں راضی ہوگیا۔(مظہری، ج:۱۲، ص:۴۴۵)
آپ ﷺ ، تمام جہانوں اور جملہ مخلوقات الہی کے لیے شفقت ورحمت
’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ وَهُدًی لِلْعَالَمِيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (تمام جہانوں کے لئے رحمت) بنا کر بھیجا۔‘‘ (ابی دوود)
خلاصہ کلام
نبی مشفق ﷺ کا پیغام محبت و شفقت کا پیغام ہے۔انسانیت سے محبت رسول اکرم ﷺ کا پہلا قرینہ تھا۔آپ ﷺ انسانیت کو جوڑنے، انسانیت کی فلاح و بقا، امن و آشتی، دکھی لوگوں کے دلوں کا سہارا، پریشان حالوں کے لیے خوشی، ضرورت مندوں کے لیے اشیاء ضرورت بہم پہنچانے کے داعی تھے۔
رسول مشفق ﷺ انسانی سماج میں رہنے والے ہر ذی روح، چرند پرند پر، حیوانات و جمادات اور اپنوں غیروں غرض ہر ایک پر رحم و شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔غریبوں، مسکینوں، اور ضرورت مندوں سے حسن سلوک کو عبادت گردانا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول مشفق ﷺ کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بھی معاشرے میں عام کرنا ہے۔ مساجد و مکاتب اور نشریاتی اداروں میں اس کو وسیع پیمانے پر پڑھانے،سمجھانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔
عورت اور بچے ہماری سماج کا کمزور ترین حصہ بن کررہ گئے ہیں۔اسی طرح اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہری بھی انتہائی مظلوم بن گئے ہیں۔ ان کے حقوق کی پاسداری صرف اور صرف سیرت و فرمودات نبی میں پوشیدہ و ممکن ہے۔
امن اسلامی تعلیمات اور سیرت البنی ﷺکو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔بدآمنی، خوف، ناانصافی، حق تلفی، ظلم، دہشت و وحشت، قبضہ گردی،عدم استحکام،روایات کی پامالی،بڑوں کا احترام نہ ہونا،غرض ہر برائی اور گناہ کے پیچھے سیرت البنی ﷺ سے دوری، نہ سمجھنا، نہ تبلیغ کرنے جیسے عوام کارفرما ہیں۔
آیات و احادیث اور روایات و واقعات آپ نے سماعت فرمائی ہیں، بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ کی سیرت کی روشنی میں ہم سب امت محمدیہ پر لازم ہے کہ اپنے نبی رحمت و شفقت ﷺ کی روشنی میں آپس میں رحمت و شفقت کے ساتھ رہیں اور اپنی سیاسی، سماجی، معاشرتی ،قومی ، بین الاقوامی، اجتماعی اور ذاتی زندگی میں رحمت و شفقت کا مظاہرہ کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پرعزم ہوکر اسوہ رسول ﷺ پر عمل کریں۔انسانیت آج بھی نبی مشفق ﷺ کے عظیم اسوہ کی محتاج ہے۔کاش کہ اس ضرورت کو ہم سمجھ سکیں۔
یہ مقالہ ربیع الاول 1445 ہجری کے حوالے سے قومی نشریاتی رابطے کے خصوصی سیمینار کے لیے لکھا گیا ہے۔ریڈیو پاکستان گلگت میں پڑھ کر سنایا گیا۔9ربیع الاول میں اسلام آباد سے نشر کیا گیا ہے۔