نور کالونی گلگت میں ٹینٹ سکول میں گرمی کی شدت کے باعث مبینہ طور پر بچے کی ہلاکت کا واقع دلخراش اور افسوسناک ہے۔ واقع کی شفاف انکوائری کر کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
نظام تعلیم کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کے دارلحکومت گلگت میں ٹینٹ سکول میں بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ سکول کتنے عرصے چل رہا تھا۔ اس سکول کو چلانے کی اجازت کس نے دی ؟ اس شہر میں ایک طرف پانچ، دس اور اب بیس ہزار فیس والے سکولوں میں امیروں کے بچے صاف ستھرے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دوسری طرف سرکاری سکولوں کی خستہ حالی اور یہاں تک کہ اس شہر کے وسط میں ایک ٹینٹ سرکاری سکول قائم تھا جو کہ تمام زمہ دار اداروں اور تعلیم پسند چیف سکریٹری کی نظروں سے اوجھل رہا۔
اگر مجبوری کے عالم میں یہ سکول چلانے کی اجازت دی بھی گئ تو اس سکول کے اندر گرمی کی شدت اور اس سے بچوں پر پڑنے والے اثرات جیسے بنیادی معلومات سے اساتذہ کیوں محروم تھے؟
ہم ہمیشہ سکولوں میں بچوں کے لئے لائف سیکل بیسڈ ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ لائف سیکل بیسڈ ایجوکیشن بچوں سے زیادہ اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کو دینے کی ضرورت ہے۔ لائف سیکل بیسڈ ایجوکیشن بنیادی طور پر انہی امور پر مشتمل ہوتی ہے جن میں مہذب گفتگو کے طریقے، زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو سمجھنا اور ان کو حل کرنا، متشدد رویوں کی بجائے دلیل کا دامن تھامے رکھنا، ابتدائی صحت سے متعلق اگاہی رکھنا ، ٹریفک کے قوانین ، صفائی کے بنیادہ اصولوں اور زندگی کے دیگر روزمرہ کے معاملات کو احسن طریقے سے نبھانا کی تعلیم شامل ہے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ سکولوں میں بچوں کو سرگرمیوں کے نام پر دھوپ اور ٹھنڈ میں کھڑے رکھنا، پانی پینے کی اجازت نہ دینا، ان کے چہرے کو دیکھ کر صحت کا اندازہ نہ لگانا، بچوں کی عام پریشانیوں کو نظر انداز کرنا اور بلاوجہ بچوں سے سختی سے پیش آکر ان میں اتنا خوف پیدا کرنا کہ وہ اپنی ضروریات کا ذکر اساتذہ سے نہیں کر سکیں ، اسی طرح کے غیر انسانی رویے ہمارے ہاں سکولوں میں عام ہیں۔
اب وقت آیا ہے کہ اساتذہ کی تربیت میں ان امور کو شامل کیا جائے۔ ہر سکول یا کم از کم تحصیل لیول پر ایسے ماسٹر ٹرینرز تیار کئے جائیں جو ہر تین مہنے میں ہر سکول میں جاکر اساتذہ کی تربیت کر سکیں۔ کم از کم ان امور پر مشتمل لٹریچر بنا کر سکولوں کو فراہم کیا جائے اور اساتذہ پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ اس لٹریچر کا مطالعہ کر کے اس پر عمل کریں بلکہ ہر چھ میں اسا تذہ کا ٹسٹ لے کر ان کو اس کا جزا و سزا دی جائے – تعلیم کے نام پر بچوں پر بھاری بر کم بستوں کا بوجھ لاد کر ان کو ناسمجھ اساتذہ کے حوالے کرنا اور بنیادی سہولیات سے ناپید سکولوں میں زبردستی بچوں کو قید کر کے ان پر جبر کے پہاڑ توڑنا تعلیم کے نام پر تشدد ہے۔ ان رویوں کے سد باب کے لئے کردار ادا کرنا محکمہ تعلیم، حکومت گلگت بلتستان، اساتذہ کی تنظیم اور والدین اور اساتذہ کی کمیٹیوں سمیت معاشرے کے ہر ذی شعور فرد کی ذمہ داری ہے۔