کالمز

سالانہ یوم انگور

کالم۔ قطرہ قطرہ

مئی ٢٠٢٣ کو دنیور گلگت میں محترم استاد غلام عباس نسیم کے دولت کدے میں سجنے والی چیری ڈے کی محفل مشاعرہ کی مٹھاس ابھی دل وماغ سے اتری نہیں تھی ایسے میں گذشتہ جمعہ کی شام محترم غلام عباس نسیم صاحب کی اچانک فون کال موصول ہو ئی اور اپنے منفرد انداز میں حکم صادر فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ ہفتے کے روز گلگت کے مضافاتی گاوں نومل میں پروفیسر ڈاکٹر انصار مدنی کے ہاں حسب سابق سالانہ یوم انگور کی محفل سجنے والی ہے اس میں اپ نے اپنی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ استاد محترم کی دعوت کو ٹھکرنا کسی بھی ذی شعور کے لئے ناممکن اس لئے ہوتا ہے کیونکہ بندہ سوچتا ہے کہ دعوت نامے میں اتنی میٹھاس ہے تو دعوت میں کتنا لطف ہوگا۔ چنانچہ اگلے روز ہم نومل کی طرف عازم سفر ہوئے جہاں ڈاکٹر انصار مدنی نے عروج سخن کے زہر اہتمام ا نگور ڈے کی نسبت سے محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا۔ گذشتہ تقریبا ایک عشرے سے ڈاکٹر صاحب خومر گلگت میں اپنے دولت کدے میں ہر سال باقاعدگی سے اس محفل کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ اس سال انہوں نے گلگت بلتستان کا خوبصورت نومل میں اپنے نانا کے گھر میں یہ محفل سجائی تھی کیونکہ انصار مدنی صاحب کا نومل میں اپنا گھر زیر تعمیر ہے، ان کا ارادہ ہے کہ ان کے مکان کی تعمیر کے بعد اگلے سال یوم انگوار وہاں منعقد ہوگی۔

ڈاکٹر صاحب کے نانا کا دیسی گھر صدیوں پرانے فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس گھر میں داخل ہوئے تو بڑے سے روایتی تھال میں انگور نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے انگور کے سامنے تعظیم بجا لایا اور اپنی نشست سنھبال لی۔ میرے ہمراہ میرے برخوردار وجہہ الدین بھی تھے جن کی کسی ادبی محفل میں پہلی شرکت تھی۔ محفل میں گلگت بلتستان کے معروف شعراء خوشی محمد طارق، بشیر احمد بشر،غلام عباس نسیم، اشتیاق احمد یاد، فاروق احمد، آصف علی آصف، نزیر احمد نذہر، شاہ رائیس شافی اور معروف لکھاری احمد سلیم سلیمی سمیت دیگر احباب موجود تھے۔ انگور سے لطف اندوز ہونے کے بعد استاد محترم غلام عباس نسیم کی نظامت میں محفل مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ شعراء کے کلام حسب سابق معیاری تھے ۔ کئ اشعار دل میں اترے۔ شام تک محفل مشاعرہ جاری رہی۔ محفل مشاعرہ کے بعد جناب احمد سلیم سلیمی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور شعراء کو معاشرے کی اصلاح میں بہترین کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا اور محفل کے انعقاد پر ڈاکٹر انصار مدنی کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر راقم کو بھی اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ راقم نے شعراء کی انقلابی شاعری کو سراہا اور اس کو گلگت بلتستان کے گٹھن زدہ ماحول میں روشنی کی کرن قرار دیا۔ راقم نے علاقے میں قیام امن اور زبان و ادب کی ترویج میں مقامی شعراء اور حلقہ ارباب ذوق کے کردار کو سہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاشرتی برائیوں کے خلاف لڑتے ہوئے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دنیا میں ہم سے زیادہ ابتلاوں کے شکار معاشرے اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے ہیں اور آج مہذب معاشرے کہلاتے ہیں۔ راقم نے مقامی شعراء کی شاعری کو نوجوانوں کے علاقے کی تعمیر و ترقی میں کردار کے لئے ایک تحریک کا زریعہ قرار دیا۔ محفل میں ڈاکٹر انصار مدنی نے بھی اظہار خیال کیا اور اہل ادب کی طرف سے ان کی دعوت کو قبولیت بخش کر ان کے ہاں آمد پر فرط مسرط میں آبدیدہ ہوگئے اور اہل ادب اور شعراء کی خاطر مدارت کو اپنے لئے اعزاز قرار دیا۔ ڈاکٹر انصار مدنی کی بیگم صاحبہ بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور وہ اس محفل کے انعقاد میں ان کے شانہ بشانہ کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر انصار مدنی قراقرم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ساتھ میں ایک ڈیجٹل میڈیاپلیٹ فارم بیاک اور ادبی تنظیم عروج سخن کے روح رواں بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی اہلیہ دونوں متحرک اور ہم گیر شخصیات ہیں جو کہ گلگت بلتستان میں علم و ادب کے علاوہ فلاحی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں گلگت بلتستان، یہاں کی ثقافت، زبان، علم و ادب اور لوگوں کے لئے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

انگور ڈے کی محفل میں گلگت بلتستان کے معروف شاعر مرحوم دکھی صاحب کو شدت سے یاد کیا گیا اور ان کے ایصال ثواب کے لئے درود شریف پڑھی گئ۔ محفل میں سنئر شعراء عبدلخالق تاج صاحب، امین ضیاء صاحب، عبدلحفیظ شاکر صاحب، نظیم دیا صاحب اور ظفر وقار تاج صاحب کی کمی محسوس کی گئ جو کہ مصروفیات کی وجہ سے محفل میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔

محفل کے اختتام پر محترم غلام عباس نسیم نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل خانہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

سرشام محفل جب بر خاست ہوئے تو ڈاکٹر انصار مدنی نے روایتی پکوانوں سے مہمانوں کی خاطر مدارت کی۔

یاد رہے گلگت بلتستان کے کئ علاقے انگوار کی انواع و اقسام کی پیداوار کے لئے مشہور ہیں جن میں پونیال غذر، نومل، شیناکی ہنزہ، بلتستان اور دیامر کے کئ علاقے شامل ہیں۔ یہاں سے تازہ انگور بازار میں آنے کے علاوہ انگور کے رس سے تیار کی گئ سوغات کیلاو وغیرہ بھی تیار کی جاتی ہیں جو کہ مشہور ہیں۔ انگور گلگت بلتستان کا ایک مشہور پھل ہے اس کی پیداوار بڑھانے اور مارکیٹنگ کے زریعہ علاقے میں غربت کو کم کیا جاسکتا ہے۔انگور گلگت بلتستان کی ثقافت کا بھی ایک بڑا اہم جز ہے۔ ماضی میں انگور گھروں میں محفوظ کر کے سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں پونیال اور دیگر علاقوں میں انگوراتارنے، اس کو محفوظ کرنے اور اس کے رس سے کیلاو، دیشوو اور دیگر سوغات بناتے وقت کئ تہوار بھی منعقد ہوتے تھے۔ اب وقت کے ساتھ یہ خوبصورت روایات ختم ہوگئ ہیں ۔ ڈاکٹر انصار مدنی کی طرف سے سالانہ انگور ڈے منانے کا مقصد بھی یہ ہے کہ ایک طرف اس کی پیداوار بڑھائی جائے اور دوسری طرف انگور کو گلگت بلتستان کی ثقافت و حسین روایات کے جز کےطور پر ثقافتی و ادبی محافل کے انعقاد کا زریعہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک دہائی سے جاری اس کاوش کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

انگور ڈے کی مناسبت سے ڈاکٹر انصار مدنی اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے منعقدہ اس محفل کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محفل مشاعرہ میں گو کہ ایک سے بڑھ کر ایک کلام سنایا گیا تھا جس کا اس کالم کی تنگ دامنی کے باعث مکمل احاطہ ممکن نہیں اس لئے محفل میں سنائے گئے نوجوان شاعر آصف علی آصف کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔

کئ سوال ہیں جن کے جواب میں آصف

خموش رہنا ہی بہتر جواب ہوتا ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button