اصحاب رسول ”معیار وحدت” ہیں
آج کی جامعہ عروۃ الوثقی لاہور اور تحریک بیداری کے زیر انتظام آغا سید جواد نقوی صاحب کی صدارت میں اس عظیم الشان محفل میں ایک بابرکت اور بے مثال عنوان ”وحدت امت میں اصحاب رسولﷺ اللہ کا کردار” سے وحدت ملت کے لیے اصحاب علم و دانش، صاحبان بست وکشاد اور ہر مکتہ فکر کے دانشوران، علماء و فضلاء کرام، شیوخ، الواعظین، پروفیسر، اصحاب علم و قلم، ملک بھر سےجمع ہیں۔بہت کچھ کہنے کو دل کررہا ہے لیکن قلت وقت کا سامنا ہے۔شاعر کی زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے۔
حقانی! جمع ہیں احباب، درد دل کہہ لے
پھر الفات دل دوستاں رہے نہ رہے.
سامعین ذی وقار
سات ارب کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی دو ارب سے زیادہ ہے۔مسلمانوں میں اتحادو اتفاق اور وحدت امت میں فقدان کی وجہ سے دو ارب کی آبادی سیاست، معیشت، جدید علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی اورعالمی سیاست و حکمرانی سے بےدخل کردیےگئے ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں یہ صورت حال بالکل مختلف تھی۔تعداد بہت کم تھی لیکن وحدت امت اور اتحاد و اتفاق اور تمسک بالقرآن و السنہ کی وجہ سے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کررہے تھے۔اور اسلام کا سکہ چہار دانگ عالم بیٹھ رہا تھا۔
آج دنیا مسلمانوں کے حوالے سے بدگمانی اور دین اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے۔اس کا اصل سبب ہم مسلمان خود ہیں۔ ہم نے عقائد سے عبادات تک، سیاست سے معیشت، سیاحت سے سیادت تک غرض ہر چیز میں بے جا مخالفت ، غلو اور دشمنی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ہماری وحدت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ہے۔ ملحدانہ تلبیسات نے فکر ونظر اور عقائد کی دیوار کو ڈگمگا دیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دشمنی، عدوات، بے مخالفت، غلو، تضحیک و تنقیص اورسب و شتم کا ماحول، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مقدس میں بھی تھا؟
یقینا جواب نفی میں ملے گا۔ جب جواب نفی میں ہے تو یقینی طور پر اصحاب رسول میں محبت و اتحاد کی فضاء قائم تھی اور باہمی احترام موجود تھا،وحدت امت کی لڑئی میں پروئے ہوئے تھے، اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ دین اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بدگمانی کا شکار نہیں تھا بلکہ دین اصحاب رسول ﷺ کی تبلیغ، کردار کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیل رہا تھا اور اصحاب رسول کے باہمی محبت و احترام اور اتحادو اتفاق کی وجہ سے مسلمانوں پوری دنیا پر امن عالم اور احترام انسانیت و ادیان کے علمبردار بنے ہوئے تھے۔
اللہ رب العزت نے اصحاب رسول ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ” ورضیت لکم الاسلام دینا(المائدہ 3).
اللہ رب العزت نے اصحاب رسول کے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے اور اصحاب رسول نے اس دین کو مکمل تھامے رکھا اوراس دین میں کسی قسم کی تحریف یا تفرقہ سے مکمل پرہیز کیا۔
کائنات میں تنوع اور فطری اختلاف کا ہونا باعث خیر ہے، اور اہل علم و تحقیق کے لیے اس فطری اختلاف میں بہت بڑی نشانیاں اور اسباق ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ نظری و فکری اختلافات نہ مُضر ہیں اور نہ ہی ان کو ختم کرنی کی ضرورت ہے اور نہ ختم کیے جاسکتے ہیں۔یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ اختلاف رائے وحدت امت کے لیے منافی نہیں بلکہ یہ عین فطری چیز ہے۔
اس فطری اختلاف کے باوجود بھی رب العالمین نے تفرقہ سے بچنے کا حکم فرمایا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی تلقین کی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ال عمران میں ارشاد فرمایا:
”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ،وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَا،ءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ”
اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ، اور اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی ، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔(ال عمران 103)
اہل علم جانتے ہیں کہ اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام ہے۔اور اقامت دین کے لیے کوشش ہے۔
اب ہم سب جانتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ اور اہل بیت عظام نے دین کو کس مضبوطی سے تھاما اورآخری دن تک اس رسی سے جڑے رہے اور پھر اقامت دین کے لیے ان کی مال جان اور سب کچھ صرف ہوا۔
اللہ کے رسول نے اپنے اہل بیت عظاماور اصحاب رضی اللہ عنہ کی تربیت اس شاندار انداز میں کی کہ انہوں نے دین اسلام کی اساسی تعلیمات اور اقامت دین کے اعلی نصب العین میں کسی قسم کا تفرقہ نہیں ڈالا۔ لیکن بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ انہیں اصحاب رسول کو تقسیم کرکے ان کے ماننے والوں نےاساسیات دین کو چھوڑ کر جزئیات و فروعات کو اپنا ہدف اور مقصد بنا لیا جس کا لازمی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔
اہل علم موجود ہیں۔اللہ کیا فرماتے ہیں ذرا موضوع مجوزہ کے حوالے سے اس آیت کے مفہوم کو دیکھ لیجیے۔ارشاد الہی ہے۔
وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَا،ءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا
اللہ تعالیٰ وحدت امت اور بھائی چارگی کو نعمت عظیم قرار دے رہے ہیں۔ اللہ نے اصحاب رسول کے کردار وحدت امت اور اتفاق و اتحاد پر خود مہر ثبت کردیا ہے اور انہیں بھائی بھائی قرار دیا ہے۔
اب ہم ایمانداری سے بغیر کسی جانبداری کے رسول اللہ کی حیات کا دور، خلفاء اربع رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دور مبارک کا جائزہ لیتے ہیں تو بخدا انہوں نے وحدت امت کے لیے جتنی بڑی کاوشیں کی ہیں اور معمولی سطح پر بھی وحدت، اتفاق اور اتحاد کی رسی کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔
ہمارے ہاں تعصب اتنا پھیلا چکا ہے کہ اصحاب محمد اور اہل بیت کی ان عظیم کاوشوں کو بیان نہیں کیا جاتا یا جان بوجھ کر ان سے کنارہ کشی کی جاتی ہے۔
ورنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ عرب کی قبائلی عدواتیں،شب و روز کے کشت و خون اور فخریہ لڑائیاں کس لیول کی ہوا کرتی تھی۔ لیکن دین اسلام اور منہج نبوی کو ملحوظ خاطر رکھ کر اصحاب رسول اللہ نے اتفاق، اتحاد، حسن سلوک، بھائی چارگی، سماجی، معاشرتی ، سیاسی اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں وحدت امت کے لیے جو کردار ادا کیا اس کی مثال لانے سے دنیا نالاں ہے۔
سامعین محترم
یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ انتظامی اور تجرباتی امور میں خود رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں اختلاف رونما ہوا اور پھر باہمی مشاورت سے اس کا حل نکالا گیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین ، اہل بیت اور عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوار میں بھی انتظامی امور کے علاوہ جب نئے حوادث نے سر اٹھالیے اور نئےمسائل سامنے آئے تو ان میں علمی اختلاف ہوا اور اس اختلاف کا حل بھی قرآن و حدیث میں غور کرکے نکالا گیا۔یہ انتہائی مستحسن امر ہے۔
اصحاب رسول اور اہل بیت نے وحدت امت کے لیے جو کردار ادا کیا ہے اس کو اس مختصر مجلس میں بیان کرنا محال ہے۔صرف چند اشارات عرض کیے دیتا ہوں۔خلفاء اربع کی آپس کی محبتیں ، فیملی ٹرمز اوراہل بیت عظام اور دیگر صحابہ کی ذاتی و انفرادی، وہ کاوشیں جو وحدت اور اقامت دین کے لیے ہوئی پر تحقیق کیا جائے تو انہیں کے نام پر تفرقہ اور غارت گری کرنے والوں سکہ بیٹھ جائے گا۔
اصحاب رسول کا علمی اختلاف اور اس کادرجہ کے متعلق
امام قرطبی نے اپنی کتاب جامع بیان العلم میں علماء سلف کے علمی اختلاف کےبارے لکھا ہے:
” یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اہل فتویٰ فتوے دیتے رہے۔ ایک شخص غیر منصوص احکام میں ایک چیز کو حلال قرار دیتا ہے دوسرا حرام کہتا ہے۔مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا وہ ہلاک اور گمراہ ہوگیا ہے اور نہ حلال کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ حرام کا فتویٰ دینے والا ہلاک یا گمراہ ہوگیا ہے۔اسی کتاب میں نقل کیا ہے:
”حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فقیہ مدینہ جناب قاسم بن محمد ؒ ایک مختلف فیہ مسئلہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں آراء میں سے آپ جس پر عمل کرلیں کافی ہے،کیونکہ دونوں طرف سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا اسوہ موجود ہے”۔(جامع بیان العلم بحوالہ وحدت امت، مفتی شفیع عثمانی ص 28)۔
سامعین محترم ذرا غور کیجئے،
ابھی رسول اللہ کا وصال ہوا۔تو اصحاب رسول اکرم میں آپ کی آخری آرام گاہ پر اختلاف ہوا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کا پیغام سنایا ” پیغمبر کی وفات جائے مدفن پر ہی ہوتی ہے”(موطا امام مالک)۔ صدیق اکبررضی اللہ کی بات سن کر تمام صحابہ خاموش ہوئے اور انہوں نے سرخم تسلیم کیا۔یہی لمحے سے ہی اصحاب رسول نے وحدت امت میں کردار ادا کیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ کی نرم دلی اور مصلحت پسندی ،وحدت امت کے لیے عظیم مثال ہے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے نرغے میں تھے مگران باغیوں کے متعلق ان کا ارشاد ملاحظہ کیجیے: یعنی جب وہ لوگ کوئی نیک کام کریں اس میں ان کیساتھ تعاون کرو اور جب برا اور غلط کام کریں اس سے اجتناب کرو”(وحدت امت 64)
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ احترام کا رشتہ وحدت امت کے لیے لازوال ہے۔جنگ صفین کا اختتام اس پر دال ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ نے کس احترام کیساتھ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کیا.
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا کردار، وحدت امت،اتفاق و اتحاد اوراقامت دین کے لیے مشعل راہ ہے۔انہوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا، باوجود سو فیصد مستحق ہونے کے حق حکمرانی سے دستبردار ہوئے. کیا وحدت امت کے لئے اس سے بھی بڑی قربانی ممکن ہے؟.
وحدت امت کے لیے مہاجر اور انصار صحابہ کا عمل مواخاۃ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
سیدالشہداء سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا کبار اصحاب رسول سے تعلق، محبت اور احترام کاتعلق اور نواسے رسول کا، اقامت دین کے لیے گرنے والا خون بھی تمہیں وحدت میں پرونے کے لیے ناکافی ہے تو پھر میں برملا یہی کہوں گا کہ ہم اتحاد امت اور وحدت امت جیسے عظیم موضوعات پر بات کرنے کے اہل نہیں اور اللہ اور رسول سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
اصحاب رسول ﷺ کے اُس خیرالقرون دور میں ایک بھی واقعہ ایسا رونما نہیں ہوا ہے کہ انہوں نےایک دوسروں کو گمراہ اور فاسق قرار دیا ہو اورگروہ بناکر ایک دوسروں کی تضحیک و تشنیع کی ہو۔ طنز کیا ہو اور باہمی نزاع پیدا کیا ہو۔ان کی علمی و فکری اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر کبھی بھی کفر و فسق، ضال مضل اور طعن تشنیع کا رواج پیدا نہیں ہوا ، خیرالقرون کے اس مقدس دور میں ایسی خرافات کی قطعا گنجائش نہیں تھی۔ بعد کے ادوار میں یہ قبیح چیزیں رواج پکڑ گئی اور ہم نے ان قباحتوں کو لے لیا.
اللہ تعالیٰ نے وحدت امت بلکہ وحدت انسانیت کا درس دیا ہے۔وحدت انسانیت کے لیے ” خلقکم من نفس واحدۃ” (اعراف 189) اور وحدت امت کے لیے ” انما المومنون اخوۃ”(حجرات 10) فرمایا ہے۔ اگر ہم نے اس پر بھی عمل کیا تو ہم ” بنیان مرصوص” کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔
عصر حاضر میں اتحاد کی ضرورت ہے. آج پوری دنیا ، بالخصوص امت مسلمہ کی حالت زار اس بات کا تقاضی کررہی ہے کہ قرآن کریم، سیرت البنیﷺ اور اصحاب رسول و اہل بیت کے کردار کی روشنی میں وحدت امت کے لیے کام کیا جائے۔علمی و تحقیقی کام کے ساتھ عملی اقدامات بھی ہونی چاہیے۔ اس عظیم کام کے لیے اس تصورکا مدنظر رکھنا ہوگا ” اعتصام بحبل اللہ والتمسک بالکتاب والسنہ” یعنی اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں اور فرقہ بندیوں کو ختم کرکے قرآن و سنت کو اپنا منشور بنائے اور اصحاب محمد ﷺ کے وحدت امت کی کاوشوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوبارہ عروج حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ (انعام 159)
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں
اس آیت کی روشنی میں اصحاب محمد ﷺ میں کسی ایک یا چند ایک کے نام پر بغض و مخالفت کا بازار گرم کرنا،عقیدت میں غلو کرنا،فرقہ بناکر وحدت امت کو پارہ پارہ کرنا،اپنے اپنے متخاصم گروہ بنانا اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنا دین دشمنی ہے۔دین کے اصل پیروکاروں کے لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے لاتعلقی کا اعلان کریں ایسا کرنے والوں سے اپنا منہج جدا کرلیں۔
افتراق امت کے اسباب بہت ہیں ان سے ہمیں غرض نہیں۔اس کے بجائے اصحاب محمد ﷺ کو معیار اتحاد، معیار حق، معیار وحدت مان کر ،اہل بیت عظام اور اصحاب رسول کرام کے کردار، راہ عمل اور منہج کی روشنی میں امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کردار ادا کریں۔فکری ،نظریاتی اور فقہی اختلاف کو تحقیق و تدقیق اور درس گاہ تک محدود رکھیں۔اشتہار، عوامی جلسوں،بیانات، سوشل میڈیا، اور دیگر ابلاغی فورمز میں دالخراش عنوانات، لعن و طعن ، مقدسات کی توہین اور دیگر نزاعی امور سے اجتناب کریں اور پیغمبرانہ اسلوب دعوت کو ملحوظ رکھیں۔
اور آخر میں
خصوصیت کیساتھ گلگت بلتستان کا روشن چہرہ پیش کیا. گلگت بلتستان میں امن و بھائی چارہ کے لئے کی جانے والی کوششوں بالخصوص 1988 سے 2023 تک کے امن معاہدات گلگت بلتستان پر مفصّل گفتگو کی. اور انہیں بتایا کہ گلگت بلتستان کے اہل سنت، اہل تشیع، اسماعیلی برادری اور نوربخشیوں اور غیرمقلدین کے علماء کرام، شیوخ، الواعظین،، سیاسی و سماجی راہنماؤں، جرگہ داران، عمائدین ، اساتذۂ کرام، جی بی اسمبلی، انتظامیہ اور افواج کرام نے اجتماعی کوششوں سے جب جب حالات خراب ہوئے، مذہبی تنازعات ہوئے اور اپنوں کی بے رعنائیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے علاقہ کشت و خون میں زرد ہونے لگا، لعن و طعن کی طوفانی بارشیں اور شب و شتم کا بازار گرم ہونے لگا تو انہی حضرات نے امن کا علم بلند کیا اور مشکل حالات کے باوجود، بیرونی اور یہودی و صیہونی سازشوں کے باوجود، کمال کے مثالی امن معاہدات کیے. یہ مثال موجودہ دنیا میں ملنا مشکل ہے. یہ گلگت بلتستان کا روشن چہرہ ہے. المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو متعصب، دہشت گرد اور ظالم اور فرقہ پرست قرار دینے کے لیے نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں مہم چلائی جاتی ہے اور گلگت بلتستان کا روشن چہرہ بدنما کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے. ہم گلگت بلتستان والے امن پسند اور محبت کرنے والے لوگ ہیں. پلیز ہمیں اپنی محبتوں سے جدا نہ کیجیے اور ہمارے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے سے گریز کیجئے. ہم وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو، ہم وہ ہیں جو امن معاہدات کی شکل میں باوجود تنوع کے محبت وا احترام سے رہتے ہیں. اور سماجی انصاف اور مذہبی رواداری کے لیے پوری دنیا کے لئے مثال ہیں.
آخر میں اس شعر کے ساتھ اجازت چاہی کہ محبت کا پیغام عام کیا جائے اور اللہ نے جملہ مخلوقات اور انسان کو صرف اور صرف جذبہ محبت کی وجہ سے ممیز فرمایا ہے.
حقانی کو نہ دے دو کچھ بھی لیکن
الگ اس کو محبت سے نہ کرلو
گلگت بلتستان سے بہت سارے اہل تشیع، اسماعیلی اور اہل سنت کے علماء کرام، طلبہ، پروفیسرز، اہل قلم اور دیگر احباب تشریف لائے تھے، جن میں جناب عنایت اللہ شمالی، مولانا مقصود احمد کشروٹی، ڈاکٹر عبدالعزیز دینار، مولانا آفاق احمد میر، استور کے شیخ ذیشان کونین، پروفیسر شمش الدین شگری اور بلتستان اور نگر سے بھی کوئی اہل تشیع شیوخ تشریف لائے تھے.
وحدت امت کانفرنس میں تمام مکاتب فکر ہے علماء و شیوخ اور سجادہ نشیں تھے جن میں اکثریت دیوبندی، جماعت اسلامی اور بریلوی مکتب فکر کے علماء، شیوخ، پیر وغیرہ نے خطبات دیے. انہیں زیادہ وقت دیا گیا. جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق مہمان خصوصی تھے.