ہماری اجتماعی بربادی اور اس کا سر چشمہ
ہماری اجتماعی جہالت اور کمزوری کا یہ عالم ہے کہ ہم نئے ادارے تو کیا، پہلے سے موجود اداروں کو بھی ٹھیک سے نہیں چلا سکے۔ جیسے پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان انٹرنیشنل ا ئر لاین وغیرہ، وغیرہ۔
75 سالوں میں اگر پاکستان میں ترقی کرنے والوں کا جایزہ لیں، تو ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں، جو سیاست سے وابستہ ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کے ذریعے کیسے ترقی ممکن ہے؟ اگر اسے سمجھنے کی کوشش کرے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست کے ذریعے ایک خاص طاقت اور حمایت حاصل کی جاتی ہے، اور پھر اس طاقت اور حمایت کے ذریعے کرپشن کی جاتی ہے، اور کرپشن، دھوکہ دہی اور ضمیر فروشی ہی میں اس ترقی کا راز چھپا ہوا ہوتاہے، ظاہر ہے اور تو کچھ ہو نہیں سکتا، سیاست میں۔ ۔ ۔
اب اس کو دیکھا دیکھی ہر کسی نے ترقی کا راز یہی سمجھا کہ جو جتنا طاقتور ہوگا، وہ اتنا ہی زیادہ کرپشن کرنے کے قابل ہو گا، اور پھر ترقی کی رفتار اتنی ہی تیز اور آسان ہوگی۔ ۔ ۔ اب پھر ایک سوال یوں پیدا ہوا کہ پھر یہ طاقت کیسے حاصل کی جا ئے ، ظاہر ہے ہر کو ئی سیاست کے ذریعے طاقت حاصل نہیں کر سکتا، لہذا لوگوں نے طاقت حاصل کرنے کے مختلف طریقوں کو اپنانا شروع کیا، مثلاً کچھ لوگوں نے مذہب کا انتخاب کیا، کچھ لوگوں نے سرکاری نوکری کے ذریعے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی، کچھ لوگوں نے جادوٹونہ، تعویز اور دم درود کا سلسلہ شروع کیا، جگہ جگہ حکیموں کی دکانیں کھلنی شروع ہو گئی ، اور کچھ لوگوں نے برادری اور نسلی بنیادوں پر یہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی، اس طاقت کو حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے، جنہوں نے سیاسی طاقتور لوگوں کے ساتھ دوستی یا رشتہ داری کے ذریعے سے اس طاقت کو حاصل کیا، کچھ لوگ مختلف گینگ میں شامل ہو گئے ، اور منشیات کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ جیسے مکروہ کام کرنا بھی شروع کیا ، کسی نے اس طاقت کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھا لئے ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے یہ کام پولیس کی ملی بگھت کے بغیر ممکن نہ تھا، اس لئے سیاسی لوگوں نے اپنے مضموم مقاصد کے حصول کے لئے پولیس کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا گیا، حتی کہ اعلی عدالتوں کے ججز کو بھی سیاسی بنیادوں پر لگوایا گیا، تاکہ اس گناؤنے کام میں کو ئی دشواری پیش نہ آ سکے۔ یعنی اس سارے کھیل کا مقصد صرف یہی تھا کہ کیسے مختلف طاقتوں کو حاصل کیا جا ئے اور پھر ان طاقتوں کے بل بوتے کیسے کرپشن کی جا ئے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ اور کم وقت میں اور آسان طریقے سے دولت کمایا جا سکے، یعنی ترقی کر سکے۔
ذرا سوچئے کہ جس معاشرے میں ترقی اور دولت کمانےکا راز ناجا ئز طاقت کےحصول اور پھر اس کے ذریعے کرپشن میں چھپی ہو، اس معاشرے کی مجموعی شکل کیا ہو گی؟
ایسے معاشرے میں رہنے والےعام لوگوں کا ذہن اور رویہ کیسا ہوگا؟
یہ طاقت اور ترقی کتنی دیرپا اور پا ئیدار ہو گی؟
اس ترقی کے ذریعے ہم کیسے جدید معاشروں یا ملکوں کا مقابلہ کر سکیں گے؟
ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟
ان 75 سالوں میں ما سوائے کچھ لوگوں کے ایک بھی کو ئی ایسا فرد شامل نہیں، جس نے تعلیم یا اپنی ذہانت اور محنت کے ذریعے ترقی کی ہو۔ ہاں البتہ وہ لوگ ضرور شامل ہیں، جنہوں نے فلم ، ٹی وی یا پھر مختلف کھیلوں کے ذریعے دولت اور شہرت حاصل کی ہو۔
ہم روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوفٹ و ئیر جیسے اشیاء کی ایجادات کرنا تو کیا، ان کا صحیح استعمال بھی نہیں جان سکے۔لہذا ہم نے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کو خریدنا شروع کیا، ان چیزوں کی خریداری میں ہم اتنے مصروف ہو گئے کہ اکثر اوقات ان چیزوں کی خریداری کے لئے ہم نے خود کو بھی بیچا، ملک کو بھی بیچا، کبھی کبھی عزت بھی بیچی، غیرت کو بھی بیچنا پڑا، اپنی سالمیت بھی بیچی، عدالتوں میں انصاف بیچا، ضمیر بیچی، قلم بیچا ۔ ۔ ۔ حرس، لالچ، بغض، نفرت اور اقرباء پروری میں ہم نے قبر کے مردوں کو بھی نہیں بخشا ۔ ۔ ۔ یعنی ایک نشیء شخص کی طرح گھر کا سارا سامان ہی بیچ ڈالا ۔ ۔ ۔ اور اپنے نشے کا سامان خریدتے گئے ۔ جب گھر کے سامان ختم ہو گئے،تو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قرضے لینا شروع کیا، اور پھر ان قرضوں اور قرضوں کے سود تلےایسے پھنس کر رہ گئےجیسے کو ئی ڈیتھ ٹریپ (Deathtrap) میں پھنس جاتا ہے، حالات اور واقعات نے ہمیں ایسے موڈ پر لا کھڑا کر دیا جہاں ہم پروڈیوسرز (Producer) کے بجا ئے کنزیومرز (Consumer)بن کر رہ گئے ۔یوں ہم جدید ترقی کی دوڑ سے بہت دور چلے گئے ۔ ۔ ۔ رہی کسر مذہبی انتہا پسندوں نے پوری کر دی، جنہوں نے مذہب کا استعمال کرکے سا ئنس جیسے جدیدتعلیم سے ہمیں دور کر دیا، جس کے ذریعے دیرپا اور پا ئیدار ترقی کا راز چھپا تھا۔ مذہبی طاقت اور اثر رسوخ سے قومی نصاب میں مذہبی نوعیت کے مواد شامل کر کے سائنس کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا گیا، جس سے نوجوانوں میں تخلیقی سوچ پنپنے کے بجا ئے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی جیسی سوچ پروان چھڑنے لگی۔نہ صرف یہ، بلکہ ہم نے تاریخ کو مسخ کرکے، حقا ئق کو چھپا کر غلط اور من گھڑت اعداد و شمار نصاب میں شامل کئے، جس سے نوجوان نسل حقیقی سوچ کے ذریعے مسا ئل کے حل کے بجا ئے ، خوش فہمی اور احمقوں کی جنت میں رہنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بحیثیت مجموعی معاشی دیوالیہ پن کے ساتھ ساتھ اخلاقی دیوالیہ پن میں بھی سب سے آگے نکل گئے ۔
لہذا اگر کو ئی ترقی کی راہ پر چلنا چاہتا ہے اور جدید ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتا ہے، تو جدید سا ئنسیتعلیم ہی ہمارا سفر ،اور یہی ہماری منزل ہے، اس کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔ قومی تعلیمی نصاب کو جدید طرز تعلیم سے آراستہ کر کے تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔تاریخی حقیقتوں کو سچائی سے بیان کرنا پڑےگا، اور اعداد و شمار کو صحیح معنوں میں پیش کرنا پڑےگا، تاکہ ان کا صحیح ادراک ہو سکے اور مثبت حل کی طرف پیش رفت کرنے میں آسانی پیدا ہو سکے۔
معاشرے میں طاقت کے ذریعے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے کاٹ کر دور پھیکنا پڑے گا۔ مالی بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل مالیاتی نظم و نسق کے نظام کو لاگو کرکےمالیاتی ادائیگیوں کےعمل کو خود کار بنانا ہو گا، انسانی مداخلت کو کم کر کے، قوانین کےسخت نفاذ اور سزاؤں کے ساتھ انسداد بدعنوانی کے قوانین اور ضوابط کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اخلاقی رویوں کو فروغ اور انسداد بدعنوانی کی تربیت فراہم کر کے، اور مضبوط اندرونی کنٹرول کے طریقہ کار کو قائم کرکے دیانتداری کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا، اور کرپشن کی ہر سطح پرمکمل حوصلہ شکنی کرنی پڑے گی۔
اپنی قیمتی رایے سے آگاہ کیجیے گا ۔ شکریہ!