کالمز

گل جی  کی پُراسرار کہانی, چترار سے اُس پار تک – پہلی قسط

میری ڈائری کے اوراق سے 

تحریر : شمس الحق قمر

سب سے دلچسب بات یہ ہے کہ    گل امان (گل جی) صاحب  اور میں ایک دن دنیا میں آئے ۱۲ دسمبر   سنہ ۱۹۶۲  آپ  کی پیدائش اور ۱۲ دسمبر  سنہ ۱۹۶۷ میری پیدائش ۔ چرون اویر مغلاندہ  کی مشہور شخصیت صوبیدار (  مرحوم ) عبداللہ شاہ کے یہاں آنکھ کھولی ۔ چار بہنوں اور چار بھائیوں میں  آپ اپنے ماں باپ کے دوسرے چشم و چراغ ہیں ۔ ابتدائی تعلیم چرون اویر کے پرائمری سکول سے حاصل ۔ گل جی کے سکول ریکارڈ کے مطابق آپ کا نام گل امان لکھا ہوا ہے جبکہ گل جی  خود کہتے ہیں کہ ماں جی  نے گل جی کو ایک وقت یہ کہا تھا  کہ میری آنکھوں کے نور میں نے تمہارا نام تو بلبل امان رکھا تھا ۔  بہرحال بلبل امان  سکول میں داخلے کے بعد گل امان بن گیے پھر دوستوں میں گل جی کے نام سے شہرت پائی  یوں  اسی نام سے زبان زد خاص و عام  ہوئے۔

             گل جی صاحب  کی شخصیت اتنی سحر انگیز ہے کہ   ایک مرتبہ ملنے کے بعد  اُن کی مقناطیسی  شخصیت  ملنے والے کو بار بار  اپنی طرف کھینچتی ہے  ۔ بہت بڑے نہیں     یہی کوئی پانچ فٹ چھ انچ قد کاٹھ، آج تک   قریب قریب   زندگی کی  ۶۱ باریں      اور ۲ ہفتے  دیکھ چکے ہیں ۔  آج  ۲۰۲۴ کے سال کا پہلا دن ہے   اور میں   اُن کی جملہ  خاندان  کی  درازی عمر کےلیے   بدست دُعا ہوں ۔ ۶۱ سال کی  عمر  مگر  زندگی کے ہر لمحے کو  قدرت کے اختیار پر محمول کرتے ہوئے  ہر صورت  حال پر  اپنے  پروردگار  کا شکر  ادا  کرکے   ہشاش رہنے سے   چہرے پر  بشاشت اتنی شاندار  کہ  اُن پر    ۴۰ سال کے نوجوان کا گمان گزرتا ہے ۔ ہمیشہ کھل کے مسکرانے کی عادت نے   آپ کے رخساروں پر بلا کی طمانیت بخشی ہے ۔ آپ کی بے شمار خصوصیات میں سے  ایک میں نے جو نوٹ  کی  وہ یہ کہ   بات چیت کے دوران  سامنے والے  کو   مکمل توجہ  سے سنتے ہیں  اور   سوال پوچھنے  پر         نپتے  تلے جواب پر اکتفا  کرتے ہی ۔ گفتگو میں اختصار کی   ایک معتبر وجہ جو مجھے  نظر آتی ہے  وہ یہ کہ اُنہوں   پاکستان کے ایک قابل بھروسہ   اور دنیا کے مشہور  خفیہ  ادارے میں   انفارمیشن افیسر کے طور پر کام کیا تھا     یوں آج بھی ہر لفظ  ناپ تول کے ساتھ بولتے ہیں  ۔  اس ملازمت  میں شمولیت اور  کنارہ کشی  کی کہانی    اگلے صفحات میں آپ کو بتائیں گے ۔موصوف گزشتہ  تین عشروں سے کنیڈا میں آباد ہیں      لیکن ملنے میں گرم جوشی  اپنائیت ، گفتگو میں  شرینی  اور زبان  میں ملائمت  و متانت اور     کھوار زبان کی  ضرب  المثل  و محاوات کا بر محل استعما ل  اور  ہلکے پھلے  مزاح کے ساتھ بزلہ سنجی   اُن کی اپنی  مادری زبان سے محبت  کا  منہ  بولتا  ثبوت  ہیں  ۔  البتہ  بولتے ہوئے  بعض  الفاظ  کے  استعمال میں  ایک فطری  تغیر  کا  اثر ضرور نظر  آتا ہے  جیسے       کھوار  کا ’’ ایل‘‘   کنیڈین یا امریکن  انگریزی کے رنگ سے    غیری مرئی انداز سے ’’ اڑ‘‘ میں بدل چکا ہے   یوں اپنا نام  ’’گڑ امان‘‘   یا  مختصر کرکے ’’ گُڑ جی ‘‘ بتاتے  ہیں جو  کہ اُن کی زبان سے بے حد  میٹھا  معلوم ہوتا ہے ۔ ’’ڑ‘‘ بولنے میں اس میٹھاس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ   امریکن  روزمرہ   لہجہ  میں  ’’ ڑ‘‘ کھوار  اہل زبان کے روز مرہ کے انداز میں،  زبان کو اوپر کے دانتوں کے ساتھ چپکا کے  تھوڑاسے موٹا کر کے ، بولا جاتا ہے۔

   آپ کی زندگی کے سفر کا  تجربہ  ہر موڑ پر دلچسپ  اور سبق آموز ہے  ۔ زندگی کے  ہر نیے راستے پر     کسی نہ کسی حلیے  میں  کسی نہ کسی نے  خضرعلیہ سلام کا کردار ادا کیا  ہے   اور  کام  سنوارتا رہا  ہے ۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل   کی  اساتذہ میں  سب سے پسندیدہ استاد گلاب پناہ ( مرحوم  ) تھے ۔  چرون اویر میں  پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد   گل جی  ہائی سکول  بونی پہنچے  ۔ اس سکول کے  ہم جماعتو  میں  آوی کے سید سعادت علی شاہ   ، سنئیر صحافی  ذولفقار علی چرون،  این جی اُوز کا گورو عزیز علی چرون ،   بونی    دوکاندہ کے  ایڈوکیٹ غلام علی شاہ اور     بونی راغوڈوک سے قمر  اُ ن کی یاد داشت کے  آئینے سے ٹکراتے ہیں ۔ قمر کے بارے میں بڑی دلچسپ  باتیں اُنہیں یا د  ہیں ۔ کہتے ہیں کہ   قمر صبح سویرے    سکول سے باہر بونی      نالے کی   دوسری جانب ہماری تاک میں رہتے ہم   جیسے ہی نالہ پار کرکے  اُن کی طرف نکلتے   تو  ہمارے بستوں کی تلاشی لیتے  اور  سکول کے  دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہمارے  بیگ میں موجود تمام  چپاتیاں   اُن کے پیٹ میں  چلی   گئی ہوتیں      اور  ہم     دامن جھاڑ کے     گھر کی راہ لیتے ۔

چھٹی جماعت کا ننھا    گل جی مختصر مدت کےلیے  اویر سے بونی کی  طویل مسافت پیدل چل کر  طے کرتے رہے ، جلد ہی   اُن کے  ماموں گل حیدر ( مرحوم)    جو اَن پڑھ ہونے کے ساتھ  علم  دوست  اور بے حد رحم دل اور مشفق  انسان تھے ، نے   اپنے بھانجے کی  بہتر تعلیم کے لیے مناسب سمجھا کہ  اُنہیں  بونی میں اپنے ساتھ  رکھ لیا جائے تاکہ  چرون اویر سے بونی اور بونی سے واپس چروں  اویر  پہنچنے میں جو قیمتی  وقت صرف ہوتا ہے وہ  گل جی کی  بہتر تعلیم میں  استعمال ہو ۔

گل جی    اور گل حیدر کا تعلق  ماموں اور بھانجے کا    تھا مگر محبت  مادرانہ  وپدارانہ   ۔ گل جی اس بات کا  معترف ہیں  کہ   اُن کی تعلیم میں ننھیال کا  کلیدی کردار  رہا ہے ۔ آپ   جب بھی   بونی ( ننھیال) اور اپنے ماموں گل حیدر کا نام   لیتے ہیں تو آبدیدہ ضرور  ہوتے ہیں  ۔  اپنے اس   پرخلوص  کیفیت  کی توجیہ  بیان کرتے ہوئے   کہتے ہیں کہ   بونی اس لیے  اُن کا سب سے پسندیدہ گاؤں ہے  کہ یہ اُن کی والدہ ماجدہ   کا  جنم بھومی ہے   اورماموں گل حیدر ( مرحوم ) کی یاد اسلیے  دل میں   سدا بہار  ہے کہ یہ فرد   ہر تعلیم حاصل کرنے والے بچے کی  دلجوئی کرتے جس   میں موصوف  صف اول میں تھا۔اپنی والدہ اور ماموں   کے ساتھ بیتے   زندگی کے سنہرے  لمحات اب بھی اُن کے دل میں اُسی طرح زندہ ہیں جیسے ۰  ۴ عشرہ قبل  تھے۔ گل جی  ننھیال میں سب کے آنکھوں کا تارہ تھا۔   سنہ1978کو ہائی سکو ل بونی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔  پڑھائی کے میدان  کا بہت اچھا شہسوار نہیں تھے ۔میٹرک میں نمبر اتنے کم تھے کہ   آگے  تعلیم  کا راستہ  نا ہموار  تھا۔

( میٹرک کے بعد تعلیم کا  دلچسپ سلسلہ ،  کالج میں داخلہ ، مستقبل  کو سنوارنے میں   قربان ، خواجہ نظام الدین اور خو ش محمد خان کی علمی معاونت اور پھر  آئی ایس آئی میں ملازمت ۔ گُرو حمید گل کو آخری انٹرویو ، بچوں  کو انگریزی سکھانے کا شوق ، اخبارات میں انگریزی اور  اردو  کالم لکھنے  کا شوق،  سمندر پار  جانے کا فیصلہ   اور بہت   کچھ دوسری قسط میں )

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button