کالمز

وادی یاسین ۔ قدرتی حسن سے مالا مال، سیاحتی ذہن سے خالی

مہمان نوازی میں وادی یاسین بلکہ پورا گلگت بلتستان ہی مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں کاروباری اور سیاحتی ذہنیت پروان نہیں چڑھ سکی۔ یہاں کے لوگ عموماً اپنے گھریلو اور علاقائی چیزیں بیچنے میں اکثر شرم محسوس کرتے ہیں، اور یہی چیزیں مفت پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس میں خامی تو کچھ بھی نہیں، اور قصور بھی کسی کا نہیں، کیونکہ ثقافتی طور پر معاشرے میں اپنائی گئی یہ عمل اور رویہ تو فطری تھا، جو ایک نسل سے دوسری نسل منتقل ہوتی چلی گئیں، اور ہماری روزمرہ زندگیوں کا حصہ بنتی گئیں۔

اگر کچھ لمحوں کے لئےیہ سوچیں کہ یہی صحیح ہے، اور یہی ہمارے خوبصورت ثقافت کا حصہ ہے، تو پھر ہمیں اپنی زندگیوں میں وہ سادگی بھی پھر سے اپنانی پڑی گی، جو کبھی ہماری ثقافت اور معاشرے کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ پھر ہمیں وہ رسم و رواج اور اقدار بھی پھر سے اپنانے پڑیں گے، جس کے تحت ہم بغیر معاوضے کے ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور مشکل سے مشکل کام بھی مل جل کر اپنی مدد آپ کے تحت حل کیا کرتے تھے، خواہ وہ کسی کا گھر تعمیر کرنا ہو یا کو ئی اور گھریلو کام کاج، حتی کہ حکومتی سطح کے کام بھی مثلاً روڈ، بجلی، اسکول وغیرہ کی تعمیر بھی اپنی مدد آپ کے تحت مفت کی جاتی تھی، اور حکومت کو ان کاموں کے لئے اپنی ذاتی زمین تک مفت فراہم کی جاتی تھی۔

سچ بات تو یہ ہے کہ سادگی اب ہمارے معاشرے، ہماری ثقافت اور ہماری زندگی کا حصہ نہیں رہی ہے۔ مادیت پرستی تیزی سے پروان چڑھنے لگی ہے۔ یعنی ثقافت کا مادی حصہ تیزی سے ترقی کرنے لگا اور غیر مادی ثقافت یعنی ہماری سوچ بہت پیچھے رہ گئی۔ خط و کتابت کی جگہ جدید موبائل فون، سواری کے لئے موٹر سائیکل اور ذاتی کار اب ہمارے زندگیوں کا لازمی حصہ بن کر رہ گئے۔ آہستہ آہستہ ہمارے اخراجات ہمارے کنٹرول سے باہر نکلتے گئےاور بہت سارے لوگ قرضوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ ملکی سطح پر بے روزگاری اور معاشی بد حالی تو ہے ہی، اور علاقائی سطح پر ایک مثبت کاروباری اور سیاحتی ذہنیت کے فقدان نے اس میں مذید اضافہ کر دیا۔

گلگت بلتستان میں کارخانے نہیں ہیں، پیسے کمانے کا اول طریقہ تو کھیتی باڑی، اس کے علاوہ چھوٹے موٹے کاروبار یا سرکاری اور پرائیویٹ ملازمتیں ہی ہیں، ایسے میں سیاحت کا بڑھتا ہوا رجحان کسی نعمت سے کم نہیں ۔ ہمیں اپنے سوچ کو بدل کر اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانی چاہیے۔

وادی یاسین اور اس سے منسلک نالوں کی جغرافیائی اہمیت، محل وقوع اور شہر کے شوروغل سے دوری جنگلی حیات کے پرورش کے لیے ایک انتہائی پر سکون ماحول فراہم کرتا ہے۔ آسمان کو چھوتے اونچے پہاڑ، بہتے ندیوں، قدرتی چشموں، خوبصورت جھیلوں، سفید برف اور گلیشیرز کی موجودگی اور سرسبزوشاداب کھلے میدان وائلڈ لائف کنزرویشن کے لیے ایک جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔ تاریخ کا جایزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وادی مارخور، چکور، رام چکور، بطخ، فاختہ اور مچھلیوں کا مسکن رہا ہے۔ علاقے کے لوگوں کو مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف خیبر گوجال اور وادی چترال کی طرح ٹرافی ہنٹنگ کے ذریعے پیسے کمایا جاسکے، بلکہ علاقے کی مجموعی سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکے۔

خوش آ ئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ، جس میں فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام وغیرہ کے ذریعے علاقے کی ملکی اور بین القوامی سطح پر تشہیر اور پذیرا ئی مل رہی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف موسم گرما بلکہ سرمائی یعنی ونٹر ٹورزم میں بھی وقت کے ساتھ  آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کی قیادت میں سرمائی کھیلوں اور فیسٹولز  کے اہتمام اور انعقاد کا سلسلہ پچھلے کچھ سالوں سے جاری ہے، جس میں معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور نوجوانوں کا جوش قابل دید ہے۔

ان مواقعوں کا فا ئد ہ اٹھاتے ہو ئے ہوٹل اور ریسٹورنٹس کے ساتھ ساتھ ہمارے لوکل پروڈکٹس جس میں سبزیاں، پھل، گائے بیل، بھیڑ بکریاں، دودھ، مرغی اور انڈے، شہد کے مکھیوں کی پرورش اور اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں، جس میں لیڈیز پرس، بنیان، جیکٹس،مفلرز، بلٹ، مردانہ اور زنانہ ٹوپی، چوغہ، دریاں وغیرہ کی مارکیٹنگ کریں، اور سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی فروغ دینے پر کام کریں، تو اس سے نا صرف آہستہ آہستہ ہماری سوچ بدلے گی، بلکہ ایک معقول منافع بھی ملے گا۔ حالیہ دنوں میں یاسین کے حسین وادی درکوت کے تین مختلف جگہوں میں ماربل کے پتھر کی دریافت اور جڑی بوٹیوں کی موجودگی علاقے میں ایک نئےترقی کی طرف اشارہ کر رہی ہے، وہ دن دور نہیں جہاں ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان چھوٹے چھوٹے صنعتوں پرکام کریں گے، اور معاشی طور پر خودمختار معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

سوچ بدلو گے، تو معاشرہ اپنے آپ بدل جا ئے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button