کالمز

یاسین کی سیاست, گندم سبسڈی اور اسلم انقلابی

علی احمد جان

یاسین کے زیادہ تر عوام صرف الیکشن اور ووٹ کاسٹ کرنے کو سیاست سمجھتے ہیں. ان کے نزدیک یاسین میں "سیاست” کا منبہ غلام محمد, محمد ایوب اور جہانزیب ہیں. یاسین کے عوام کے نزدیک کامیاب سیاست دان وہ ہے جس کے پاس بڑی گاڑی ہو, تھانے میں تعلقات ہوں, کلف والے سفید کپڑے اور بنا سلوٹ کے بلیک واسکٹ ہو.

یہ بھی حقیقت ہے کہ یاسین میں جتنی نفرتیں الیکشنز کی وجہ پھیلی ہیں اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی. سیاسی اختلاف رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاست کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنا, ووٹ حاصل کرنے کے لیے دو بھائیوں کو آپس میں لڑانا اور نفرتوں کی بیچ بونا غیر اخلاقی عمل ہے. یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس علاقے میں کوئی سیاسی نظریہ اور سیاسی پارٹی موجود نہیں. شخصیت پرست, فیملی ممبران, رشتہ دار, اٹھارہ سال سے کم عمر کچھ جزباتی لونڈے, ٹھیکوں کے لالچی اور سرکاری نوکری کے محبان الیکشن کے دنوں میں نعرے جھنڈے لگاتے ہیں.

گزشتہ چند سالوں میں دو تین نوجوانوں نے یاسین میں حقیقی معنوں میں سیاست کرنے اور عوام میں سیاسی و سماجی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ان میں اسلم انقلابی کا نام سرفہرست ہے.

اسلم انقلابی کو زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں. سیاست کی الف ب سے اچھی طرح واقف ہے. بات کرنا جانتا ہے, اپنے بساط کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتا ہے اور نوجوانوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرتا رہا ہے.

گزشتہ ایک ماہ سے گندم سبسڈی کے خاتمے اور نرخوں میں اضافے کے خلاف یاسین میں درجنوں کارنر میٹنگ اور چھوٹے جلسے ہوتے رہے ہیں. جس کا سارا کریڈٹ شیرنادر شاہی اور اسلم انقلابی کو ملتا ہے. شدید سرد موسم میں یہ دونوں گاؤں گاؤں جاتے رہے, میٹنگ کرتے رہے اور عوام کو متحرک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے.

اس دوران ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا گیا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوششیں بھی کی گئی لیکن یہ اپنے موقف پہ ڈٹے رہے جس کا میں دل سے احترام کرتا ہوں.

یاسین کے تینوں سینئیر سیاسی "رہنما” اس منظر نامے میں کہیں نظر نہیں آئے. غلام محمد صاحب چونکہ خود حکومت کا حصہ ہیں تو اس سے کوئی شکوہ/توقع نہیں کر سکتے البتہ جہانزیب صاحب اور محمد ایوب صاحب تو اس عمل کا حصہ بن سکتے تھے لیکن افسوس وہ کہیں نظر نہیں آئے. وہی روایتی "سیاست” اس دور میں بھی کر رہے ہیں مثلا جنازے میں شرکت کرنا, چھوٹی موٹی تقریبات میں بھاشن کے بعد پانچ دس ہزار روپے کا اعلان کرنا, شادی کی تقریبات میں پہنچ کر احسان جتانا اور گاڑی میں لفٹ دینا وغیرہ وغیرہ…

ان دنوں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے عوام گندم سبسڈی کی کٹوتی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں. جب نگر سے عوام گلگت کی طرف مارچ کرنے لگے اور گلگت دھرنے میں عوام کی تعداد بڑھنے لگی تو یاسین کے دیگر سیاسی افراد بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش میں ہائبرنیشن سے نکل کر منظر عام پر آگئے.

یہ خوش آئند بات ہے کہ شیرنادر شاہی اور اسلم انقلابی کے بعد باقی سیاسی افراد بھی اس عمل کا حصہ بن رہے ہیں لیکن انہیں اس تحریک کو ہائی جیک یا سبوتاژ کرنے کی بجائے آگے بڑھانا چاہئیے. اب تک اس کی قیادت شاہی اور اسلم کر رہے ہیں باقی لوگ بھی ان کے کاندھے سے کاندھا ملائے اور اس کو کامیاب بنائیں.

چند سال قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا. محنت کرکے عوام کو متحرک والے افراد اور تھے اور آخر میں جہانزیب صاحب سیاسی اسکور کرنے میں کامیاب رہے تھے جس کا فائدہ انہیں الیکشن میں بھی ہوا تھا.

ان تمام سیاسی افراد کو چاہئیے کہ اس مسئلے کو الیکشن اور ووٹنگ سے جوڑنے کی بجائے منظم تحریک بنانے میں اپنا کردار ادا کریں. ان سیاسی افراد کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اس بنیادی عوامی مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں. یہ بات ہمیں بھی معلوم ہے کہ وہ نام نہاد اسمبلی کے اندر ہوں یا باہر, حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں … فیصلہ سازی نہیں کرسکتے لیکن عوام کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں.

الیکشن کے موسم میں جو درجن بھر امیدوار برساتی مینڈکوں کی طرح یاسین آتے ہیں, دعوے کرتے ہیں, نعرے اور جھنڈے لگاتے ہیں وہ اس بنیادی مسئلے کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کر رہے ہیں؟؟ یہ سوال عوام کو ان امیدواروں سے پوچھنا چاہئے.

اب وقت کا تقاضہ ہے کہ یاسین کے تمام سیاسی رہنما اور امیدواران سامنے آئیں, آگے بڑھیں, ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملائیں اور تحریک کو کامیاب بنائیں.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button