کالمز

شادی سے جڑےمعاشرتی مسائل

 ملکی اور شرعی قوانین کے مطابق کم عمری کی شادی، چاہے پسند کی ہو یا والدین کی رضا مندی سے ہو، دونوں صورتوں میں غیر قانونی اور غیر شرعی ہے، اور  بچوں سے متعلق عالمی حقوق اور قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں شادی کا انعقاد کرنے والے تمام افراد بشمول نکاح خواں، گواہ سمیت ہر فرد کو قانونی خلاف ورزی کا مرتکب ٹہرایا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروا ئی اور سزا ہوگی۔ کم عمری کی شادی وہ واحد سماجی عمل ہے، جس کا اختیار ریاست نے والدین کو نہیں دیا ہے، اس لئے ملکی قوانین کے زریعے والدین سمیت تمام شہریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ  کم عمری کی شادی کا کسی صورت انعقاد نہیں کرسکتے۔ کم عمری میں شادی کی ممانعت کیوں ہے، اس کے پیچھے سماجی یا معاشرتی، معاشی، طبی اور قانونی وجوہات شامل ہیں۔

شادی سے جڑا ایک اور بڑا مسلہ ہے جسے مکمل طور پر عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے، کیونکہ معاشرتی اقدار ، خاندان کی عزت اور جدید طبی سہولتوں اورمعلومات کی کمی کی وجہ سے یہ مسئلہ کبھی زیر بحث نہیں آتا، اور بہت سےخاندان اور جوان لڑکیاں دوسروں کی غلطی کی بھینٹ چڑ جاتی ہیں۔

مسئلہ یوں ہے کہ کچھ مرد حضرات جینیاتی، طبی یا نفسیاتی وجوہات کی وجہ سے انتہائی جنسی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، اور کسی بھی طرح شادی کے قابل نہیں ہوتے۔ معاشرتی اقدار، خاندان کی عزت اور جدید طبی سہولیات اور معلومات کی کمی کی وجہ سے یہ مسئلہ کبھی زیر بحث نہیں آتا اور دھوم دھام سے کی گئی شادی کچھ دنوں یا مہینوں میں دکھ اور لڑکی اور اس کے خاندان کے لئے زندگی بھر کا روگ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سارے معاملے میں لڑکی اور اس کے خاندان کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، لیکن سب سے زیادہ بےتکی اور فضول باتیں انہی کو سننی پڑتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق کے سلسلے میں اس موضوع پر میری ماہر نفسیات اور یورولوجسٹ سے عیلحیدہ عیلحیدہ بات چیت ہوئی، انٹرویو کے دوران دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے میں موجود ہے، اور روزمرہ کلینک میں عموماً ایسے مریض آتے رہتے ہیں، جس میں سے بہت ساروں کا علاج طبی طور پر ممکن ہے اور معمولی اخراجات سے ان کا علاج کیا جا سکتا ہے اور وہ پہلے سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، اور ان کی شادی ٹوٹنے سے بچ سکتی ہے۔ لیکن سب سے بہتر یہی ہے کہ یہ مسئلہ شادی کرنے سے پہلے حل کیا جائے، تاکہ شادی جیسا مقدس رسم اور مذہبی فریضہ کسی کی زندگی کا روگ نہ بن جائے۔

ہماری ذاتی، خاندانی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ شادی کرنے سے پہلےسوچے اور اپنا مکمل میڈیکل چیک اپ کروا لیا کریں، تاکہ لڑکی اور اس کے خاندان والے جن کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور نہیں ہوتا، اور وہ ان سارے معاملات سے بے خبر ہوتے ہیں، ان کے لئے مسائل اور بد نامی کا سبب نہ بنے، اور ان کی عزت کو کسی طرح ٹھیس نا پہنچے۔ شادی سے پہلے میڈیکل چیک اپ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر موروثی یا موزی مرض مثلاً ایڈز، تھلیسمیا، ڈاؤن سنڈروم جیسے بیماریاں، جن کا اثر شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہے، ان سے بھی ممکنہ طور پر بچا جا سکیں، جو عموماً  چچا زاد اور ماموں زاد رشتوں کے مابین شادی سے بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

شادی سے جڑا تیسرا مسئلہ جو آج کل عام ہوتا جا رہا ہے، کہ جہاں دور دراز شہروں یا پھر دوسرے ملکوں میں شادیوں کا رواج وقت کے ساتھ ساتھ برھتا جا رہا ہے۔ خاندانی روایات، صحیح عمر میں رشتوں کا نہ آنا اور شادی کا نہ ہونا، اور اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے تعلقات کی وجہ سے دیگر شہروں اور ملکوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی شادیوں کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بظاہر تو کو ئی مسئلہ نہیں، لیکن بہت ضروری ہے کہ وہ شخص، جس سے رشتہ طے ہونے جارہا ہے، اس کے اور اس کے خاندان کے بارے میں مکمل اور درست معلومات ہوں۔ دور دراز،  خاندان سے باہر یا سوشل میڈیا کے ذریعے یا تو معلومات کی کمی ہوتی ہے، یا پھر درست معلومات اور ان تک رسا ئی ایک معمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس معاملے میں عموماً سامنے والا شخص، اس کے خاندان والے یا رشتہ کروانے والے دوسرے افراد  اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے جھوٹ کھسوٹ سے کام لیتے ہیں، اور سامنے والے کے شخص سے متعلق غلط معلومات دیتے ہیں، یا تو وہ خود سامنے والے کی بے وقوفی کا شکار بن جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے شادیوں کا نتیجہ بھی وقت کے ساتھ غلط تجربے کی شکل میں نکلتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاملوں میں شادی کے بعد یا تو پھر لڑکی مجبوراً حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہے، یا پھر دوسری شادی کی طرف بات چلی جاتی ہے۔ اس طرح کی شادی کرنے کے کچھ مشاہدات ایسے موجود ہیں، جس میں شادی کے بعد لڑکیوں کو جنسی یا جسم فروشی کے لیے بھی استعمال کیا گیا، اور ایک واقع ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ جہاں لڑکی نے اپنے شوہر کو طلاق دئیے بغیر اس کے گھر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں جاکر چھپ کے سےکسی اور فرد کے ساتھ دوسری شادی رچا کر جان چڑانے میں عافیت سمجھی۔ کچھ مثالیں ایسے بھی ہیں، کہ شادی کے بعد بیٹی کا اپنے والدین سے رابطہ ہی ختم ہوگیا، جو والدین کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں، والدین کو پتہ ہی نہیں، کہ ان کی بیٹی آج کل کس حال میں ہے۔

جو لوگ دوسرے اسلامی فرقوں میں شادیاں رچاتے ہیں، مذہبی لحاظ سےان کے اولاد  کی تربیت میں بہت کمی رہ جاتی ہے، کیونکہ ماں باپ کا تعلق الگ الگ فرقوں سے ہونے کی وجہ سے بچے تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ ماں کے ساتھ مذہبی رشتہ جوڑا جائے یا پھر والد کے فرقے کو فوقیت دی جائے، عقیدہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، اس میں کسی قسم کی شکوک و شبہات نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ اﷲ اور ان کے رسول اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزاد ذہنیت اور بغیر کسی کے زیر اثر اپنی زندگی کو کسی بھی ایک اسلامی فرقے کے اندر رہتے ہو ئے  گزارنا چاہیے۔

شادی بیاہ سے جڑا چوتھا مسئلہ  کچھ الگ ہے/ لڑکے اور خصوصاً لڑکیوں میں گزرتے وقت کے ساتھ اس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، وہ یہ کہ آج کل آزاد زندگی گزارنے کی غرض سے نوجوان نسل شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ شادی کرنے کے بعد ان کی آزادی اور مرضی نہیں رہے گی اور وہ آزاد یا اپنی مرضی سے اپنی زندگی،  تعلیم یا اپنی نوکری کو جاری نہیں رکھ سکیں گے۔اس لئےوہ شادی کرنے سے کتراتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ شادی کے بعد گھر داری اور بچے سنبھالنے پڑے گے، جسے وہ ایک بہت بڑی ذمہ داری سجھتے ہیں اور وہ یہ ذمہ داری کسی بھی طور قبول کرنے کو تیار نہیں۔کچھ لڑکے لڑکیاں اپنی پسند کی جوڑی سے شادی کرنے کے چکر میں ان کی عمر نکل جاتی ہے، اور وہ پھر کبھی شادی نہیں کر پاتی۔ الغرض شادی نا کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ ایسا کرنے والے افراد اپنی زندگی کے آخری حصے میں بہت مایوسی اور تنہائی  کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ جب انسان کی جوانی اور عمر نکل جاتی ہے تو پھر انسان کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں ہوتا۔ زندگی کے اس حصے میں بظاہر انکے پاس بہت کچھ ہوتا ہے، مال دولت، گاڑی اور گھر، لیکن انسان کے بڑھاپے میں یہ چیزیں کوئیمعنی نہیں رکھتے، بلکہ زندگی کے اس حصے میں ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے جسمانی تحفظ کے ساتھ جذباتی تحفظ بھی دے سکے۔ کیونکہ اس عمر میں اکثر لوگوں کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں، اور والدین کے جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد دنیا میں ان کا کوئی سہارا نہیں بچتا، اور پھر بلکل اکیلے اور تنہا اپنی زندگی گذارنا بہت ہی کٹھن ہوتا ہے۔ اورپھر اگر کوئی بیماری یا حادثہ پیش آ ئے تو نہ اپنے پیشے کو جاری رکھ پاتے، بلکہ ساری جمع پنجی بھی باقی نہیں رہتی۔ اور پھر غم، تنہائیاور بے چارگی ہی ان کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے علاوہ شادی نا کرنے سے معاشرہ غیر متوازن ہو جاتا ہے، کیونکہ شادی انسانی نسل کو آگے بڑھانے کا نام بھی ہے اور بہت سے معاشرتی برائیوںسے نجات بھی دلاتا ہے۔

شادی ایک مقدس روایت اور مذہبی فریضہ ہے، اسےصرف جنسی آسودگی،  کسی کی خواہش، انا یا شوق پورا کرنے کے لیے اپنے پیاروں کی زندگی کو داؤ پر نا لگا دیں، کیونکہ شادی صرف دو افراد کے مابین بندھن کا نام نہیں، بلکہ دو خاندانوں کے بیج ایک خوبصورت رشتے کا نام ہے، اس لئے اپنے پیاروں کا رشتہ مکمل چان بین، اور انتہائی دانشمندی سے طے کریں۔ جلد بازی اور اندھیرے میں طے کیے گئیے رشتوں کے ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی، نہ صرف یہ بلکہ اس طرح سے کی گئیشادیاں ذاتی یا خاندانی دشمنی کے علاوہ دیگر معاشرتی برائیوںمیں اضافے کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو،  زندگی وبال نہ ہو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button