کالمز

سرکاری سکولوں کے خراب نتائج ۔۔۔

سوشل میڈیا پر ان دنوں فیڈرل بورڈ کے تحت میٹرک کے سالانہ امتحانات میں سرکاری سکولوں کے طلباء کے نتائج زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کا ایک گروپ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو ان خراب نتائج کا زمہ دار قرار دیکر خوب تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ دوسرا گروپ معاون خصوصی برائے اطلاعات کی سربراہی میں اچھی کارکردگی کے حامل سکولوں کے نتائج ڈھونڈ ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے اسے حکومتی کارکردگی سے جوڑنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ سکردو سے خبر آرہی ہے کہ وزیر تعلیم شہزاد آغا صاحب نے خراب نتائج کے حامل سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے، جوکہ انتہائی اہم اور زمہ دارانہ اقدام ہے۔

 ایک وقت تھا جب سرکاری سکولوں کی حالت انتظامی اور تدریسی اعتبار سے انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ سکولوں میں  ماہر اساتذہ، کلاس رومز، واش رومز، فرنیچر، کتابیں، پینے کا پانی، تعلیمی ماحول وغیرہ کا یکسر فقدان تھا۔ باوجود اس کے درجنوں میں سے ایک آدھ خوش قسمت پہلے اٹیمپٹ میں ہی میٹرک پاس کرجاتے تھے اور ہم جیسے کام چور سپلیاں کھا کھا کر رہ جاتے تھے۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ اس وقت آن لائن نتائج اور سوشل میڈیا کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تو پورے کے پورے مضامین میں فیل ہونے والے بھی پاس ہونے کا دعویٰ کرکے خوشبو لگا کے پھر رہے ہوتے تھے۔ اخبار میں نتائج شائع ہوئے تو بھی ہر ایک کے رولنمبر کا پتہ لگانا آسان کام نہیں تھا۔

 آج صورتحال بہت مختلف ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران پرائیویٹ سیکٹر میں پڑھانے والے قابل اساتذہ ایف پی ایس سی کے ذریعے چن چن کر سرکار نے بھرتی کر لیے ہیں۔ ہیڈماسٹرز کی سینکڑوں آسامیوں پر آغا خان یونیورسٹی جیسے ادارے سے فارغ التحصیل ماہرین تعلیم بھرتی ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ہی اثر و رسوخ رکھنے والوں کو اٹھا کر انتظامی عہدوں پر فائز کیا گیا ہے۔ان افسران کا سینیارٹی اور دیگر عہدوں کے حصول کے لئے آئے روز کورٹ کچہری کے چکر لگانا ایک الگ ہی داستان ہے۔

سابق چیف سکریٹری محی الدین وانی کے دور میں خطہ بھر کے ہائی سکولوں کا تعلیمی نظام بدل دیا گیا، کھنڈر نما کلاسوں کو عالیشان عمارتوں میں تبدیل کیا گیا، بلیک بورڈ اور چاک کی جگہ وائٹ بورڈ اور ایل ای ڈی متعارف کروائے گئے۔ لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کی جگہ باس کمپنی کے فرنیچر، لائبریری، کمپیوٹر لیب، انٹرنیٹ سمیت تمام ممکنہ سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔

 اساتذہ کی تربیت کے لئے آغا خان یونیورسٹی کے زیلی ادارے پی ڈی سی این کی خدمات حاصل کرنے کے علاوہ سرکاری سطح پر ایک خصوصی ادارہ قائم کیا گیا۔ ڈی ڈی اوز کے انتظامی و مالیاتی اختیارات بڑھا دئیے گئے، بچوں کے لئے ایجوکیشنل فیسٹ منعقد ہوئے، چھٹیوں میں بھی خصوصی کلاسیں چلائی گئیں وغیرہ وغیرہ۔

 ان تمام تر اقدامات کے باوجود اگر طلبا کے نتائج حوصلہ افزا نہیں تو یقیناً استاد سے لیکر ہیڈ ماسٹرز، ڈائریکٹرز اور سکریٹری تعلیم تک سب کے سب اس کے زمہ دار ہیں اور اس حوالے سے ان سے باز پرس وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔

 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button