کالمز

گلگت بلتستان کی سول سوسائٹی

عنایت بیگ

یہ مضمون تلخ ہے، حقیقت بھی تو تلخ ہوتی ہے۔ اگر آپ سستی اور بے بُنیاد قسم کی قوم پرستی کا شکار ہیں یا آپ کا شمار تحریکوں سے منافع کمانے والوں میں سے ہیں یا پھر آپ وہ ہیں جنہیں تحریک کے مقصد اور تحریکیوں کے کردار سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ صرف ایک تحریک سے ہی غرض ہے تو یہ مضمون آپ کے لئے ہر گز نہیں ہے۔

اس حقیقت سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ مظفر برچہ کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ مظفر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع تک نہیں دینا اور طاقت ور طبقے کے احکام بجا لانے کی خاطر کمزور طبقے کے ایک سرکاری ملازم کیساتھ امتیازی سلوک برتنا کہاں کا انصاف ہے؟ اگرمظفر کی جگہ کوئی طبقہء بالا سے تعلق رکھنے والا شخص ہوتاتو کیا انصاف کے اداروں کو اتنی دیر لگتی؟ تو کیا یہ سرمایہ دار میڈیا ایسی بے حسی بلکہ بے غیرتی کا مظاہرہ کرتا؟ المختصر، مظفر کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، اس کی شنوائی ہونی چاہئیے اور اسے انصاف ملنا چاہیئے۔ انصاف تو ان سب کو ملنا چاہیئے جن کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور یہ شاید مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ گلگت بلتستان میں نا انصافیوں کی لسٹ کتنی طویل ہے۔

کچھ عرصے قبل گلگت میں ننھے حسنین پر بہیمانہ جنسی تشدد اور قتل کے خلاف کراچی میں سول سوسائٹی گلگت بلتستان کے نام سے پریس کلب میں ایک مظاہرہ رکھا گیا۔تلاوتِ کلام پاک سے مظاہرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور فضا میں آخر تک بس یہی نعرہ بلند رہا کہ "حسنین کو …انصاف دو” ، کسی نے بھی یہ نہیں بتایا یا سمجھایا کہ یہ انصاف کی طلب کس سے تھی؟ اور جس سے انصاف کی طلب کی جانی چاہیئے تھی ان پر تنقید مظاہرے سے چند روز قبل ہی سختی سے منع کی گئی تھی۔ بہر کیف، عین اُسی ہفتے بلتستان میں ایک معصوم بچی کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی کیس سامنے آیا تھا مگر سول سوسائٹی خاموش رہی، معلوم نہیں کیوں، مگر سول سوسائٹی نے اس وقت دوغلا کردار ادا کیا۔کیا وہ معصوم بچی ہمارے لئے حسنین سے کم اہم تھی؟ نہیں! ایسا نہیں تھا بلکہ یہ ہمارا مُشترکہ دوغلا پن تھا۔ یہی عمل مظفر برچہ کیس میں بھی سول سوسائٹی دہرا رہی ہے۔ سول سوسائٹی انصاف مانگ رہی ہے مگر کس سے ؟ مظاہرے کے بینرز میں لکھوایا گیا تھا کہ ” جنرل راحیل شریف ہماری آخری امید ہیں” ، میں سوال پوچھتا ہوں کہ آپ کی جدو جہد کن کن مر حلوں سے ہو کر گزری ہے جو آپ یہ "آخری اُمید” کے گُن گا رہے ہیں؟ کیا آپ نے اپنی حکومت سے رابطہ کیا؟ کیاآپ کی حکومت نے تعاون کی یقین دہانی کرائی؟ اگر ہاں توبتاتے کیوں نہیں اور اگر نہیں تو کھل کراس حکومتی موقف پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟

سول سوسائٹی کوئی لابی نہیں ہوتی، سول سوسائٹی عام لوگوں کی آواز ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی میں کسی فرد ، تنظیم یا مسلک کی اجاری داری نہیں ہوتی بلکہ سول سوسائٹی ان سب تعصبات سے بالاتر ہو کر عوام کی آواز بنتی ہے۔ موجودہ سول سوسائٹی خونی سرمایہ داری کی ہی ایجاد ہے، جب سرمایہ داری زوال کا شکار تھی تو اپنے اپنی بقاء کے لئے این جی اوز متعارف کرائے تھے جن کی مرہونِ منت سے منافع کے اس خونی نظام کا عروج واپس آیا، موجودہ سول سوسائٹی بھی دراصل سرمایہ داری کی نا جائز حاکمیت کو طول دینے کے لئے ایک ٹوٹکاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سول سوسائٹی دراصل جابر ریاستوں کا” پیارا چہرہ "ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی کامیابی ریاست کی کامیابی ہوتی ہے اور ریاست کی بقاء ہی در اصل منافع کی بقاء کی ضامن ہے۔

میں گلگت بلتستان سول سوسائٹی کے علمبرداروں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ گندم کی سبسڈی ختم کرنا، ہُنزہ میں نہتے باپ بیٹے کو دن دہاڑے قتل کر دینا، چنددہشت گردوں کے نام پر دیامر بھر میں آپریشن کرنا، داریل کی کئی ہزاروں کی آبادی میں ایک بھی معیاری سکول کا قیام نہ کیا جانا اور پھر یہ کہنا کہ داریل انتہا پسندوں کا مرکز ہے، مسافروں کو بسوں سے اُتار کر ماتمی نشان دیکھ کر قتل کر دینا، گاوں گاوں اور گلی گلی سستا چرس، شراب اور ہتھیار پہنچانا، بنا کسی کو اعتماد میں لئے راہداریوں اور ڈیموں کے پراجیکٹ سائن کرنا، سوست ڈرائی پورٹ کو حویلیاں منتقل کر دینا، مہینے میں کم سے کم اوسط 5 خواتین کا خود کشی کرنا اور حقوق کی بات کرنے والوں کو پابندِ سلاسل کر دینا کیا یہ سب نا انصافی کے ضمرے میں نہیں آتا؟ تو کیا ان مسائل پر بھی یہ سول سوسائٹی کبھی مظاہرہ کرے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اس سول سوسائٹی کی سوچ "اپنی” اور ” آزاد” ہے؟

قصہ المختصر، میں سول سوسائٹی کے خلاف نہیں لاشعور سول سوسائٹی کے خلاف ہوں، خود غرض سول سوسائٹی کے خلاف ہوں۔ گلگت بلتستان سول سوسائٹی کے نام سے ہونے والے یہ جلسے نہ سوچ میں خود مختار ہیں اور نہ ہی عمل میں۔ با شعور اقوام کا مسائل پر ردِ عمل سائنسی ہوتا ہے نہ کہ جذباتی۔نوجوانوں اور اس سول سوسائٹی سے جڑے حضرات کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کی ہمارے تمام مسائل سیاسی نوعیت کے ہیں اور سیاسی نوعیت کے مسائل سیاسی جدوجہد سے ہی حل ہونگے نہ کہ ڈونیشن سے!

قلم رکھنے سے پہلے میں ایک بار پھر مظفر برچہ کو سلام پیش کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے ظلم ، نا انصافی اور ناجائز حاکمیت کے خلاف آواز اُٹھا کر ہماری سوتی روحوں کو توانائی بخشی ہے۔ والسلام!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button