فیڈرل بورڈ کلاس دہم کی نسبت کلاس نہم کے خراب نتائج …… ذمہ دار کون۔۔؟
تحریر صادق حسین
فیڈرل بورڈ میں گلگت بلتستان کے کلاس نہم کے طلباء کا امتحانات2024 میں نتائج خراب آنے کے بعد تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں طالب علموں کی ناکامی کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر حیرانگی یہ ہے میٹرک کے طلباء کا رزلٹ اچھا ہے اور کلاس نہم کا رزلٹ خراب ہے اس پر آگے جاکر بات کریں گے سب سے پہلے بات کرتے ہیں، گلگت بلتستان کا دسویں جماعت کے مجموعی نتائج کے اعدادو شمار کی۔۔
ضلع غذر 86 فیصد، ضلع دیامر86 فیصد، ضلع گھانچے 84 فیصد، ضلع سکردو 83 فیصد،ضلع ہنزہ 81 فیصد ضلع استور 81 فیصد،ضلع نگر 80 فیصد ، ضلع شگر 80 فیصد ،ضلع گلگت 79 فیصد جبکہ ضلع کھرمنگ کا 55 فیصد رہا۔۔۔
کلاس نہم کامجموعی نتائج میں کل دس اضلاع کے 253 اسکول میں سے 40 اسکولوں کا رزلٹ 100 فیصد، 79 اسکول کا رزلٹ 80 فیصد سے99 فیصد کے درمیان ، 42 اسکول کے نتائج 60 سے 79 فیصد، 25 اسکول کا رزلٹ 40 سے 59 فیصد اور 18 اسکولز ایسے ہیں جن کے نتائج 40 فیصد سے بھی کم ہے۔۔۔
۔۔ اگر دس اضلاع میں ایک ضلع کو نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں ضلع غذر میں میٹرک کلاس میں کل 1292طلباء نے امتحان دیے اور 1152 کامیاب ہوئے، 177 ناکام ہوئے۔۔ مجموعی طور ضلع غذر میں میٹرک کا رزلٹ 86 فیصد رہا جو کہ خوش آئند ہے، مگر کلاس نہم 1394 طلبا امتحان میں شامل ہوئے ان میں 196 کامیاب ہوئے اور 1198 ناکام ہوئے، یہاں رزلٹ کلاس نہم اور دہم کا الٹ ہے۔ اگر نمونے کے طور غذر ہاتون اسکول کا رزلٹ دیکھا جائے تو کلاس نہم میں 88 طلبا نے امتحان دیے اور صرف ایک طالب علم ناکام ہوا باقی 87 طلبا پاس ہیں جبکہ اسی اسکول میں کلاس نہم کے 48 طلبا نے امتحان دیے اور 7 کامیاب ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ اسکول میں اساتذہ ایک، کلاس روم ایک سہولیات سب کے لیے یکساں مگر رزلٹ مختلف ۔ ان سمیت صوبے کے درجنوں سرکاری سکولوں کے نہم کے نتائج 25 فیصد سے کم ہیں۔
بات کریں گلگت بلتستان کے سرکاری اسکول میں پڑھنے والے طلبا کی، گلگت بلتستان میں سرکاری اسکولوں میں عموماً مختلف معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں، جن میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ سرکاری اسکول کم فیس یا بغیر فیس کے تعلیمی سہولیات فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان خاندانوں کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی اور سہولیات کا معیار مختلف ہو سکتا ہے، لیکن یہ بچوں کے لئے بنیادی تعلیم فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے گلگت بلتستان کی آبادی 20 لاکھ ہے اس میں سرکاری سکولوں کی تعداد کل 1732 اسکول ہیں جہاں 2لاکھ 47ہزار 83 طلبا زیر تعلیم ہیں اور ان کو پڑھانے کے لیے 8 ہزار 3 سو 64 اساتذہ تعینات ہیں۔اگر دیکھا جائے تو چند اسکول کے علاوہ باقی تعلیمی ادارے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں کہیں ٹائلٹس نہیں کہیں آئی ٹی رومزنہیں ہیں تو کہیں کلاس رومز کی کمی اور پانی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پرگورنمنٹ کی جانب سے اساتذہ کی غیر تدریسی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں کئی کئی دن اساتذہ ان ڈیوٹیوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس دوران طالب علموں کا حرج ہوتا رہتا ہے اساتذہ کی ڈیوٹیوں کو سکول تک ہی محدود رکھا جائے لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے۔باہر کے ممالک میں اساتذہ کی ڈیوٹیاں سکول تک ہی رکھی جاتی ہیں ان کو بالکل بھی غیر تدریسی چیزوں میں نہیں الجھایا جاتاتاکہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔ہمارے ہاں حساب بالکل الٹ ہے گلگت بلتستان میں اگر کوئی مسئلہ ہوجائے تو سرکاری ملازمین کی شامت آجاتی ہے ان کی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں کبھی ان کی الیکشن ،کبھی مردم شماری ،کبھی خانہ شماری کی وجہ سے تعلیمی ادارے sufferکر رہے ہیں۔گلگت بلتستان میں ڈائریکٹوریٹ سٹاف ڈویلپمنٹ جو کہ اساتذہ کی تربیت کرنے کیلئے ٹریننگ کا اہتمام کرتا ہے وہ بھی ناکام دکھائی دیتا ہے امتحانات کی صحیح تیاری نہ کروانے کی وجہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ تر طالب علم فیل ہوجاتے ہیں۔ایک طرف تو ڈائریکٹوریٹ سٹاف ڈویلپمنٹ یہ دعوی کرتا ہے ہم سالانہ ہزاروں اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اساتذہ نتائج دینے سے قاصر ہیں۔درحقیقت ان کی ٹریننگ ہو بھی رہی ہے یا نہیں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ ایگزیمینشن کا امتحانی طریقہ کار کا بھی سمجھ میں نہیں آرہا، نہم کے طالب علم زیادہ تر فیل ہیں اور دہم کے طلباء اسی فیصد سے زیادہ پاس ہیں۔ حالانکہ اسکول ایک، اساتذہ ایک، کلااس روم ایک اگر اساتذہ کی کارکردگی خراب ہوتی تو ، پھر تو میٹرک کا رزلٹ بھی خراب آنا چاہیے فیڈرل بورڈ کے اس طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں یوں فیڈرل بورڈ کا یہ سسٹم بھی پائیدار نہیں دکھائی دیتا۔
باہر کے ملکوں میں جب بچے کو سکول میں داخلے کیلئے لیجایا جاتا ہے تو وہاں سب سے پہلے اس کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے جبکہ ہمارے گورنمنٹ کے اداروں میں ایسا کچھ نہیں ہے گورنمنٹ پالیسی کے مطابق تمام بچوں کو داخلہ دینا ضروری ہوتا ہے،سرکاری اسکولوں میں ماس فیکٹر ہے مطلب کوئی بھی بچہ سال کے آخر میں بھی سرکاری اسکول میں داخلہ لینا چاہے تو سرکاری اسکول انتظامیہ پابند ہے کہ بچے کو داخلہ دیں ۔۔بے شک اکیڈمک سیشن اختتام کے قریب کیوں نہ ہو۔۔ دوسری جانب وہ بچے جو اسکول سے باہر ہیں انہیں بھی اسکول لاکر داخلہ دے دینا ہے اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تیسرا فکٹر گلگت بلتستان میں ٹیکسٹ بک بورڈ کا انتخاب ہے یہاں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے نیا اکیڈمک سیشن2024 شروع ہوکر آدھا سال گزر گیا حکومت کی جانب سے طلبا کو مفت کتابیں نہیں ملیں، ابھی تک پبلشر کی جانب سے کتابیں نہیں چھپی ہیں۔ اندازہ لگائیں ایک طالب علم کیسے امتحان کی تیاری کریں۔۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم میں بھی کچھ خامیاں ہیں شروع سے یہ روایت رہی کہ انتظامیہ میں سینارٹی کی بنیاد پر اگلے عہدوں پر ترقی پاتے ہیں جہاں اسکولوں کا کیریکولم بنایا جاتا ہے، وہ اساتذہ جنہوں نے ضیاالحق کے زمانے میں بی اے بی ایڈ کیے ہیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق طلبا کے لیے کیری کولم کیسے ترتیب دیں گے۔ لیکن چند سال پہلے محکمہ تعلیم میں 18 گریڈ میں براہ راست تقرریاں کرنے کا عمل شروع ہوا جو کہ خوش آئیند ہے۔۔۔اب جو پرائیویٹ سکولوں میں پانچویں اور چھٹی جماعت کے طالب علم اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے ان کو سکولوں سے نکال دیا جاتا ہے اب ایسے طالب علموں کے داخلے کیلئے گورنمنٹ سکولوں کا رخ کیا جاتا ہے گورنمنٹ سکول بچے کے داخلے کے لئے پابند ہوتے ہیں اب جب ان بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کر لیا جاتا ہے تو وہ بورڈ کے امتحانات میں اچھے نتائج دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر ہر کلاس 25سے 35طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے یوں اساتذہ تمام طالب علموں پر یکسوئی سے توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں 40سے50 طالب علموں پر کلاس روم مشتمل ہوتا ہے اب اتنی تعداد میں جب طالب علم ہوں تو 30منٹ کے پریڈ میں استاد کتنے بچوں پر توجہ دے سکتا ہے؟۔اہم بات یہ ہے کہ پرائمری سطح پر آج بھی سکول ایسے ہیں جہاں سنگل ٹیچر پانچ پانچ کلاسوں کو پڑھا رہا ہوتا ہے اب جہاں ایسی صورتحال ہوگی وہاں امتحانی نتائج کیسے اچھے برآمد ہوسکتے ہیں؟ دوسری جانب سرکاری اسکول میں اساتذہ اور والدین کے درمیان ایک خلاء ہے، والدین اور اساتذہ کے درمیان میٹنگ بچوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میٹنگز کے ذریعے والدین اور اساتذہ بچوں کی کارکردگی، رویے اور مشکلات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، جس سے مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ باہمی اعتماد اور احترام کو فروغ ملتا ہے، جس سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن ایسا سرکاری اسکولوں میں کم ہی پایا جاتا ہے۔ جن اسکولوں نے یہ روایت شروع کی ہے وہاں والدین نمائندگی نہیں کرتے۔۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے اس دفعہ گلگت بلتستان میں کلاس نہم کے نتائج خراب آنے کی وجہ ایس ایل او کی بنیاد پر امتحانات کے لیے او ایم آر شیٹس کا پہلا تجربہ تھا ، ایک اور وجہ کلاس نہم میں نئے عملی نظام کا تعارف کرانا،نجی سکول نظام کی طرح 9ویں جماعت سے پہلے کی کلاسز کا تعارف کروانے کی ضرورت تھی ایسا نہیں ہوا۔ایلیمنٹری بورڈ کو 8ویں جماعت کی سطح پر کم از کم ایف بی آئی ایس ای اسلام آباد کے پیٹرن کی پیروی کرنی چاہیے تھی تاکہ طلباء کو ایف بی آئی ایس ای پیٹرن کے ساتھ واقف کرایا جا سکے ایسا نہیں ہوا۔۔ اساتذہ کی پوسٹنگ نتائج کی بنیاد پر ہونی چاہیے تھی، جن اساتذہ کے نتائج خراب ہوں انہیں نتائج کے اہداف کے ساتھ تعینات کیا جانا چاہیے تھا اور بہتر نتائج والے اساتذہ کو منتقلی سے بچایا جائے تاکہ بہتر نتائج کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے ایسا نہیں ہوا ۔ایلیمنٹری سے سیکنڈری نصاب کی طرف منتقلی بھی ایک اہم وجہ بتائی جارہی ہے۔۔
اب یہ سار کام تھا محکمہ تعلیم میں اہم پوسٹوں پر تعینات سینئر افسران کا اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اورگلگت بلتستان حکومت کو کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنا پڑے گا کہ جس کے مطابق تعلیمی اداروں کے سربراہان کو اس بات کیلئے پابند کیا جائے کہ وہ اپنے سکول کے نتائج 100فیصد دینے کیلئے ہر طریقہ آزمائیں ،خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے گلگت بلتستان حکومت تھوڑی سی توجہ اس محکمہ پر بھی دیں۔