کالمز
معذور بچوں سے زیادتی کے واقعات اور روک تھام
یاسین میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی دلخراش ہے. اس واقعے کے تقریبا سات ماہ بعد ان کے پیٹ میں درد اور ہسپتال لے جانے پر معلوم ہوا کہ کے پیٹ میں بچہ ہے. مردہ بچہ نکال لیا گیا اور اس دوران معذور لڑکی بھی جانبر نہ ہو سکی. پولیس نے ماں کی نشاندہی پر مشتبہ شخص کو گرفتار اور اس کے سیمپل لاہور لیپ بجھوا دئیے ہیں.
معذور بچوں کے جنسی استحصال کا شکار ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہےبہرے بچے خاص طور پر زیادہ خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ ایسے بچے جنسی تشدد کا شکار ہوں تو انھیں فوری مدد کی ضرورت ہے. اگر کسی بھی وجہ سے انھیں مدد فراہم نہ کی جائے تو یہ بچے طویل مدتی اثرات کا شکار ہوتے ہیں، جس میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، اضطراب اور ڈپریشن، نیز جوانی میں مزید ایسے واقعات سے دوچار رہنے کا خطرہ رہتا ہے۔
کچھ اداروں نے "معذور بچے” کی تعریف ایک ایسے بچے کے طور پر کی ہے جس کی تشخیص ذہنی معذوری، سماعت کی خرابی (بشمول بہرا پن)، گویائی یا زبان کی خرابی، بصارت کی خرابی (بشمول اندھا پن)، شدید جذباتی خلل، آرتھوپیڈک خرابیاں، آٹزم، دماغی تکلیف دہ چوٹ، دیگر صحت کی خرابیاں، یا مخصوص سیکھنے کی معذوری جس کی وجہ سے انہیں خصوصی تعلیم اور متعلقہ وسائل کی ضرورت ہو ۔
یاسین کے اس معذور بچی کے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا میں بہت سارے صارفین سوال اٹھا رہے ہیں اس واقعے کو چھپا کر کیوں رکھا گیا. انھیں یہ نہیں معلوم کہ جو بچے آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈرکا شکار ہوتے ہیں ان میں جنسی تعلیم اور صحت مند جنسیت کے بارے میں معلومات کی کمی ہوتی ہےجس کی وجہ سے ان کے لیے جنسی زیادتی کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ایسے بچوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے. اور ایسے اکثر بچے قدرتی طور ایسے واقعات کے اظہار کے قابل نہیں ہوتے.
بہت سے معذور بچے جنسی تشدد کو سمجھ نہیں سکتے ہیں اور اسے بیان کرنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں. بعض اوقات والدین اپنے معذور بچوں کو دیکھ بھال کرنے والوں کے حوالے کر دیتے ہیں ایسے میں بچوں کی نگہداشت یا دیکھ بھال کرنے والے لوگ بچوں کا اعتماد حاصل کر لیتے ہیں اور کوئی موقع پا کر وہ ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات بہت کم رپورٹ ہو جاتے ہیں. ایسے صورتحال میں جب معذور بچے جنسی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے رویے میں ہونے والی تبدیلیوں کو جنسی استحصال کی علامات کے بجائے بچے کی معذوری کی تشخیص سے ہی منسوب کیا جا تا ہے۔ جس سے ان معذور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت مزید متاثر ہو جاتی ہے.
معذور بچوں کو جو جنسی زیادتی کا سامنا کرتے ہیں ان کے علاج اور انصاف کے حصول کے لیے درکار خدمات اور مدد کا حصول بری حد تک پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔بد قسمتی سے اکثر والدین ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کے بجائے گھر کی چار دیواری میں ہی دبا دیتے ہیں. لیکن کچھ واقعات میں جب بچے کو فوری علاج کی ضرورت ہو تو صرف ایسے واقعات ہی سامنے آجاتے ہیں.
ایسے معذور بچے جو ذہنی طور پر کسی حد تک یا مکمل صحت مند ہوتے ہیں انھیں جنسی تشدد سے بچاؤ، گڈ ٹچ بیڈٹچ اور مدد حاصل کرنے کے طریقوں سے آگہی دینے کی انتہائی ضرورت ہے. ایسے بچوں سے جنسی طور پر مناسب اور نامناسب تاثرات کو پہچاننے اور ان پر تبادلہ خیال کرنا اہم ہوتا ہے . اگر گنجائش ہو تو بچوں کی دیکھ بھال والی جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں.
والدین اور گھر کے دیگر افراد کو چاہئے کہ معذور بچوں میں جنسی رویوں کو پہچاننے اور جنسی زیادتی کے بارے میں آگاہی بڑھائیں۔ لالچ سے دور رہنےاور کسی قابل اعتماد گھر کے کے فرد کو بدسلوکی کی اطلاع دینے کے حوالے سے تربیت دینا بہت مدد گار ثابت ہو سکتا ہے.
بچوں کے لیے ہمدردانہ رویہ رکھیں فوری سخت ردعمل ہرگز نہ دیں. ان طریقوں کو فروغ دیں جو صحت مند تعلقات کو فروغ دیتے ہوں ۔ حدود سے صحیح آگاہی دے کر خطرات کو کم کریں۔ایسے بچوں کو ابتدائی بچپن میں ہی تحفظ کے بارے میں تعلیم دینا شروع کریں تاکہ ایسے واقعات سے روک تھام کی مہارتیں ابتداء میں ہی سیکھ سکیں. والدین کو چاہئے کہ بچوں کے ساتھ صحت مند جنسی نشوونما پر بات چیت کریں۔
معذوری سے لڑنے والے بچے سب کی توجہ اور بہتر دیکھ بھال کے مستحق ہوتے ہیں. یہ عام بچوں کے مقابلے میں خطرات کا زیادہ سامنا کر سکتے ہیں. ایسے میں عوامی سطح پر شعور کی اشد ضرورت ہے. قوانین میں معذور بچوں کو ترجیح پر رکھنے اور من و عن مل درآمد کی ضرورت ہے.
اگر کسی بھی گھر میں معذور بچے ہیں تو یاد رکھیں وہ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں. والدین اور گھر کے دیگر افراد کی کوئی بھی غلطی بارے پچھتاوے کا سبب بن سکتی ہے. رب کریم تمام بچوں کے بچپن کو ظالموں کے شر سے محفوظ رکھے.