کالمز

گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات: چیلنجز اور مواقع

گلگت بلتستان جہاں اپنی قدرتی حُسن، شاندار مناظر، بلند و بالا چوٹیوں اور وسیع گلیشئرز کا مرکز ہے، وہی یہ خطہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب وقوع پذیر ہونے والی قدرتی آفات کا محوربھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے نہ صرف خطے کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے  بلکہ یہاں پر بسنے والے لوگوں کی زندگیاں، ذریعہ معاش اور دیگر املاک کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

 پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں پر سالانہ بارشوں اور ندی نالوں میں سیلاب اور طغیانی سے کروڑوں لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔ سال 2022 میں پاکستان بھر میں قدرتی آفات سے  1700 افراد جاں بحق اور 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ۔  اس آفت کے دوران لوگوں کے ذریعہ معاش اوردیگر املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا جو ایک کمزور معیشت اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے لئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔

موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات  سے  گلگت بلتستان جیسے پہاڑی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ،  جہاں پر درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئرز کا پگھلاؤ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کا عمل سالہا سال شدت اختیار کررہا ہے۔ گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سال 2020 کے دوران خطہ بھر میں مجموعی طور پر پانچ گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (گلاف) ایونٹس رپورٹ ہوئے، 2021 میں 23 جبکہ 2022 میں 84 گلاف ایونٹس رپورٹ ہوئے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق کوہ ہندو کش ہمالیہ میں کل سات ہزار گلیشئرز اور3044 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں، جن میں سے 33 جھیلیں پھٹنے کےخطرے سے دوچار ہیں۔ تاہم یو این ڈی پی اور اٹلین تنظیم ای وی کے ٹو سی این آر کی ایک حالیہ رپورٹ میں ان گلیشئرز کی تعداد 13000 بتائی گئی۔ ماہرین کے مطابق نئی صدی کے آغاز سے ہمالیائی گلیشئرز کے پگھلنے کی رفتار دوگنی ہو گئی ہے جس سے خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں جنوبی ایشیائی ممالک میں کروڑوں افراد کو پانی کی کمی کا  بھی سامنا ہو سکتا ہے۔  

موسمیاتی تبدیلی  یا درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گلیشئرز کے پگھلنے اورگلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے عمل میں اضافے سے جس قدر سائنسدانوں کو تشویش ہے، اس قدران گلیشئرز کے دامن میں بسنے والے لوگوں کو بھی پریشانی لاحق ہے۔   گلگت بلتستان کے باسیوں کو پہاڑ سرکنے، برفانی تودے گرنے یا  زلزلے کے جھٹکوں سے  اتنا خوف نہیں  جتنا  انہیں گلیشئرزکا پگھلاؤ اورگلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کی صورت میں ہونے والی تباہ کاریوں کا خدشہ ہے۔

جولائی 2018 میں ضلع غذر کے گاؤں بدصوات   میں آنے والا خوفناک سیلاب  مقامی لوگوں کے لئے ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ اس واقعے میں   گاؤں کے اوپر واقع  گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کے نتیجے میں دریائے قرمبر پرایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی تھی ۔ جھیل نے بدصوات کا آدھا گاؤں ڈبوئے رکھا جس میں لوگوں کے گھربار، مویشی،فصیلیں، کھیت، درخت وغیرہ سب  کچھ صفِ ہستی سے مٹ گیا تھا۔

نازک بی بی بدصوات گاؤں کی ایک عمرریسدہ عورت ہے  جس نے بدصوات میں گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کے خوفناک مناظر  کا براہ راست مشاہد کیا تھا۔ وہ کہتی  ہیں کہ اس آفت کے نتیجے میں ان کا گھر ، مویشی خانے،دکان، فصیلیں، درخت سب کچھ ایک خواب کی مانند جھیل کی نذر  ہوگئے جو لاکھ کوششوں کے باوجود اب واپس نہیں آسکتے۔

 اسی طرح کے ہی خیالات گاؤں درکوت یاسین  کے بہادر خان کے ہیں جن کا پورا گاؤں سال 2010 میں گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کے سبب پھوٹنے والے سیلاب کی نذر ہوچکاتھا۔ بہادرخان بتاتے ہیں کہ درکوت گاؤں میں گرمیوں میں سیلاب کا یہ سلسلہ اگرچہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن 2010 کے طوفانی سیلاب نے تو علاقے کا نقشہ ہی بدل دیا۔  بہادر خان کہتے ہیں کہ درکوت نالے کے آس پاس 2010 سے قبل بڑے بڑے کھیت ، درخت ،جنگل ، لوگوں کے گھروغیرہ تھے جو اب ایک سیاہ بنجر کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

درکوت گاؤں میں 2010 کے طوفانی سیلاب سے دو سو سے زائد گھرانے بےگھر ہوئے تھے جن میں سے کچھ تو  علاقہ چھوڑ کر گلگت، گاہکوچ اور آپس پاس کے علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ باقی ماندہ گھرانے گاؤں میں دوبارہ آباد ہوئے مگرذریعہ معاش کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔  

گلگت بلتستان کی تاریخ میں 2010 کا سیلاب ایک تباہ کن آفت تھی،جس نے پورے خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی۔ اس آفت نے جہاں لوگوں کے لئے مصیبتیں پیدا کیں، وہی پر حکومت اور امدادی اداروں کو گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈز کے اس نئے فونومینیا سے نمٹنے کی حکمت عملی سے متعلق غوروفکر پر مجبور کردیا۔ چنانچہ 2011 میں یو این ڈی پی نے گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے دو مقامات پر گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈزسے نمٹنے کے حوالے سے گلاف ون نامی ایک تجرباتی  منصوبہ شروع کیا۔

گلاف ون منصوبے سے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں یو این ڈی پی اور حکومت پاکستان نے گرین کلائمٹ فنڈکے مالی تعاون سے "اسکیلنگ اپ گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈز رسک ریڈکشن ان ناردرن پاکستان” یعنی گلاف ٹو پراجیکٹ کا اجراء کیا۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرے سے دوچار علاقوں کے باسیوں کی قدرتی آفات سے نمٹنے کی استعدادکار میں اضافہ تھا۔

 گلاف ٹو پراجیکٹ کے لئے گلگت بلتستان کی سولہ اور خیبرپختونخوا کی آٹھ وادیوں کا انتخاب کیا گیا ۔ منصوبے کے تحت ان وادیوں میں سیلابی نالوں کے دہانے حفاظتی پشتوں کی تعمیر، واٹرچینلز کی تعمیر ومرمت، ناگہانی آفت کی صورت میں مقامی آبادی کے لئے محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ، بنجر اراضی پر شجرکاری، دریائی کٹاؤ کی روک تھام اور ممکنہ آفات سے متعلق پیشگی اطلاعی نظام (ارلی وارننگ سسٹم) کی تنصیب جیسی سرگرمیاں   جاری وساری ہیں۔

 علاوہ ازیں، مقامی کمیونٹی اور امداد اداروں وکارکنوں کی ممکنہ آفات سے نمٹنے کی استعدادکار بڑھانے کے حوالے سے تربیتی پروگرام ، گلیشئرز کی پیوندکاری ، مصنوعی طریقوں سے پانی کی پیداواری اور یونیورسٹی سطح پر تحقیق وتفحص کے منصوبے بھی پراجیکٹ کاحصہ ہیں۔ ان تمام منصوبوں پرعملدرآمد سرکاری محکموں اور مقامی کمیونٹی کے اشتراک سے کیا جاتا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔

 بہادرخان گلاف پراجیکٹ کی سرگرمیوں سے بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "ایک عرصے تک ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سالہال آنے والا یہ بے رحم سیلاب خدا کا قہر ہے یا کوئی اور وجہ، تاہم گلاف ٹو پراجیکٹ کی وساطت سے اگاہی حاصل ہوئی کہ یہ سب کچھ گلیشئرز کا پگھلاؤ اورگلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے  کا نتیجہ ہے” ۔ وہ کہتے ہیں کہ گلاف ٹو پراجیکٹ کے تحت انہیں قدرتی آفات کی صورت میں اپنی جان ومال کی حفاظت کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کئی سالوں سے بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لئے چینل  اور سیلابی نالے کے دہانے حفاظتی بند تعمیر کئے جا رہے ہیں۔

یہی تاثرات بدصوات کی نازک بی بی  کے بھی ہیں۔ وہ اپنے گھر کے سامنے اینٹوں سے بنی ایک پختہ عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ  یہ عمارت گلاف والوں نے ان کے لئے کمیونٹی سنٹر کے طور پر بنایا ہے۔ وہ اس کمیونٹی سنٹر کوکسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں ایک محفوظ پناہ گاہ کے علاوہ،ایک تربیت گاہ اور سماجی اجتماع گاہ کے طور پر بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات نے یہاں کے باسیوں کو بے یقینی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے، مگر امید کی کرن اب بھی موجود ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور امدادی ادارے موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے نمٹنے کے لئے اس طرح کی حکمت عملی اپنائے  جس میں   موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اورقدرتی آفات سے بچاؤ سے متعلق عوامی آگاہی، خطرات سے دوچار علاقوں میں تخفیف کےمنصوبے ، تحقیقی سرگرمیاں  اور پالیسی سازی کے اقدامات کو فروغ مل سکے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button