کالمز

ہنزہ کی سیاست: آئینہ ایام میں

ہنزہ کی سیاست کا اگر گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی سیاست اور سیاسی قیادت مختلف مرحلوں سے گزری، کبھی اسے حالات کی سازگاری میسر ہوئی تو کبھی نامساعد اور ناسازگارحالات بھی درپیش ہوئے ۔ کیونکہ ہنزہ پر شخصی و موروثی حکومت تھی اور شخصی حکومتوں کے اپنے مفادات اور اہداف ہوتے تھے جس کے حصول کے لئے جائز و ناجائز حربے استعمال کئے جاتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اہالیان ہنزہ شجاعت و شہامت اور جنگجوئی میں پورے گلگت ۔ بلتستان میں شہرت رکھتے ہیں۔

     بہر حال، ہنزہ کی سیاست کو سمجھنے کے لئے اس کی جغرافیائی، لسانی اور انتظامی ہیئت و ساخت کو جاننا ضروری ہے تاکہ اس کے سیاسی خد و خال واضح ہو سکیں۔ بنیادی طور پر، ہنزہ تین اکائیوں میں منقسم ہے: 1۔ پائیں ہنزہ، جسے شیناکی بھی کہا جاتا ہے جہاں شینا زبان بولی جاتی ہے؛ 2۔ مرکزی ہنزہ جسے بروشال کہنا چایئے جہاں بروشسکی زبان بولی جاتی ہے؛ 3۔ بالائی ہنزہ، جسے گوجال بھی کہا جاتا ہے،جہاں کی اکثریتی زبان وخی ہے۔ پھر ان تینوں اکائیوں میں الگ الگ نسلی و قبائلی پس منظر رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر پورے ہنزہ میں اور اس کی تینوں حصوں میں لسانی،  نسلی ، قبائلی، سیاسی اور ثقافتی گوناگونی پائی جاتی ہے جس کے باعث باہمی  اختلافات بھی ابھرتے رہے ہیں۔ یہی اختلافات اور تعصبات مجموعی سیاسی پیشرفت اور مؤثر مرکزی سیاسی قیادت کو پیدا کرنے میں حائل رہے ہیں۔  اگرچہ ان اختلافات کو تکثیریت اور گوناگونی (Pluralism and Diversity) پر مبنی معاشرے میں زحمت کی بجائے رحمت سمجھنا چاہئے کیونکہ اختلاف میں طاقت ہے۔ لیکن جب ہم ہنزہ کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گوناگونی اور اختلاف کی یہ طاقت اکثر ہماری کمزوری اور ضعف و اضمحلال کا باعث بنتی رہی ہے۔ ہم مجموعی قومی اتحاد کی خاطر نہ شیناکی، وخی اور بروشو لسانی و علاقائی تعصبات کے خول سے باہر آسکے اور نہ نسلی و قبائلی (روم) تعصب و ووٹنگ نظری کو خیر باد کہہ سکے۔ بلکہ سچ پوچھو تو ہم قومیت و علاقائیت کے بت پوجتے رہے اور اسے باعث فخر و مباہات سمجھتے رہے۔

     اگرچہ ہنزہ کی سیاسی تاریخ صدیوں بلکہ ہزاریے پر مشتمل ہے لیکن اس کی واضح سیاسی تاریخ میر غضنفر علی خان (متوفی۔ 1865ء) کے دور سے شروع ہوتی ہے کیونکہ ماخذ کی واضح دست یابی اور تاریخ کی روشنی میں اسے اور بعد کے واقعات کو زیر مطالعہ لایا جا سکتا ہے۔ غضنفر کا دور  سیاسی اور عسکری لحاظ سے ہنزہ کی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا ہے اور ان کے مصاحبین و مشیران بھی سیاسی بصیرت اور عسکری مہارت رکھتے تھے۔ لیکن غضنفر موصوف کی وفات کے بعد ہنزہ کا سیاسی عروج و ارتقاء شکست و زوال کے راستے پر گامزن ہوا۔

     بہر کیف، اس شکست و زوال کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے ربع آخر کے اوائل میں اس وقت ہوا جب 1877ء میں ہمارا مغربی حصہ یعنی شین بر (چھلت، چھپروٹ، بر اور بڈلس)، جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، ہاتھ سے نکل گیا.

     ہنزہ کو سیاسی و معاشی لحاظ سے نقصان اس صورت میں بھی ہوا کہ میر غضنفر( م۔ 1865ء) اور میر غزن خان  اول(م۔ 1886ء) کے ادوار میں ہنزہ نے خوشوقت حکمران راجہ سلیمان شاہ اور گوہر امان کی بے جا اور بے مقصد حمایت کی جس کے سبب کشمیر کی ڈوگرہ راج ہنزہ سے متنفر ہوئی۔ اس کی پاداش میں اس نے شین بر ہنزہ سے چھین کر نگر کے حوالے کیا اور ہنزہ والے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کا خمیازہ ہنزہ والوں کو نہ صرف شین بر سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑا بلکہ وہ بعد کے ڈیڑھ سو سالہ دور میں گلگت۔ بلتستان کی سیاست و ثقافت سے الگ تھلگ رہے بلکہ ارض شمال کے مجموعی قومی مزاج سے بھی وہ نا آشنا رہے۔ یہ حقیقت تو سب پر عیاں ہے کہ کسی قوم یا وطن کی تاریخ میں تنہائی (Isolation) کتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔

   

      بات ہنزہ کی سیاسی تاریخ کی ہو رہی تھی۔ انیسویں صدی عیسوی کے اخری عشروں میں گلگت بلتستان  سمیت جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے میں برق رفتاری سے سیاسی و عسکری تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور برطانوی سلطنت اور روس کی زار شاہی حکومت  کے درمیان کھچا تانی عروج پر تھی۔ چنانجہ اس دورانیے میں روسی اور برطانوی نمائندوں کی ہنزہ میں آمد شروع ہوئی۔ چنانچہ، میر غزن خان اول  اور میر صفدر خان ( دور حکومت۔ 1886 تا 1891ء) کےعہد حکومت میں روسی آفیسر اعلٰی کیپٹن گرام چسکی، انگریز آفیسرز، بالخصوص کرنل جون بڈلف اور کرنل الجیرنن ڈیورینڈ کے ساتھ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور پر  مذاکرات میں ان میروں اور ان کے مشیروں کی پست ذہنیت،  بے بصیرتی، خود غرضی، عاقبت نا اندیشی اور خاص طور پر خطے اور پوری دنیا کے سیاسی، معاشی اور عسکری تبدیلئوں اور نشیب و فراز سے مجرمانہ حد تک لا علمی کا مظاہرہ مایوس کن تھا۔ ان کی ان کوتاہیوں اور نا اہلیتوں کے سبب کئی زرین مواقع ضائع ہوئے۔ ورنہ وہ ہنزائیوں کی شجاعت و بہادری، ریاستی طاقت اور خاص طور پر ہنزہ کے جغرافیائی و تزویراتی محل وقوع  کی بنیاد پر انگریزوں اور ڈوگروں سے اپنے جائز مطالبات منوا سکتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور ہنزہ کو پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

     1947ء کی ازادی گلگت کی جنگ میں ہنزہ کا بنیادی اور مرکزی کردار تھا۔ کیونکہ میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان جنگ آزادی کے ہیروز کے سرگروہ تھے، انہوں نے سب سے پہلے اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا تھا اور ہنزہ ہی سے تعلق رکھنے والے میر زادہ کیپٹن شاہ خان ، جو میر کے قریبی رشتے دار تھے، جنگ آزادی کے ہیروز میں سے ایک تھے۔ نیز  صوبیدار صفی اللہ بیگ اور صوبیدار رستم سمیت اسکاوٹس کے کئی جوانوں نے شجاعت و شہامت کے کارہائے نمایاں انجام دیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جنگ میں شہیدوں کی سب سے زیادہ تعداد ہنزہ کی ہے جبکہ نگر کا دوسرا اور یاسین کا تیسرا نمبر آتا ہے ۔ لیکن جب ڈوگرہ فوج کو علاقے سے نکال باہر کرنے کے بعد گلگت میں حکومت سازی کا مرحلہ آیا اور مراعات لینے کی بات آ گئی تو ہنزہ ، نیز یاسین کو بے دخل کیا گیا اور انہیں کچھ بھی صلہ نہیں دیا گیا۔ اس فارسی شعر کے مصداق کہ:

         بے ستون را عشق کند و شہرتش فرہاد برد

          زحمتش بلبل کشید و برگ گل را باز برد

اگرچہ اس ضمن میں علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصبات کار فرما تھیں اور یہ اسی کا نتیخہ تھا کہ گلگت کی عبوری حکومت جلد ہی تحلیل ہوگئی اور  گلگت کا جھنڈا بھی فضا میں لہرائے بغیر ہی بے نام و نشان ہوا۔ بہر صورت، ہنزہ کی اس محرومی کے ذمے دار ہنزہ کی قیادت ہی تھی کہ اس نے اس معاملے میں کمزوری، بے بضاعتی، معاملہ فہمی کے فقدان اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے سبب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور ہنزہ بہت عرصے تک اس مرکزی سیاسی، سماجی اور معاشی دھارے سے الگ تھلگ (passive) رہا جس کے مضر اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

     پھر قیام پاکستان کے بہت بعد ہنزہ کی لیڈرشپ کی بے بضاعتی و عدم دلچسپی اور پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلیت،  عاقبت نااندیشی اور چین کو خوش رکھنے کی نیت اور اقدام کے سبب خنجراب، جو معاشی اور تزویراتی لحاظ سے بے حد اہمیت رکھتا تھا، ہنزہ کے ہاتھ سے نکل کر چین کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے عوض ہنزہ کو شمشال میں بے فائدہ اور بے ثمر زمین کا خطہ دیا گیا۔

    بہر حال، ہنزہ کی ریاستی سیاست کا یہ تاریخی سفر اس وقت اختتام کو پہنچا جب 1974ء میں اس وقت کی حکومت پاکستان نے ریاست ہنزہ کو تحلیل کیا اور اس طرح صدیوں پر مشتمل ہنزہ کے میری نظام کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اگرچہ، اس میں شک نہیں کہ دوسرے موروثی خاندانی نظاموں کی طرح ہنزہ کے میری نظام میں بھی خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ تاہم، تاریخ کے بغور مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ میری نظام میں لیڈرشپ کےانتخاب میں بہت حد تک اہلیت و قابلیت (maritocracy) کے ساتھ سمجھوتہ (compromise) نہیں کیا جاتا تھا۔ وزارت ہو یا سفارت، نمبرداری ہو یا یرفہ گی (شاہی زمینوں کی رکھوالی) یا کوئی اور منصب، غرض ہر منصب کے لئے قابل، باصلاحیت اور بہتر اور مؤثر خاندانی پس منظر کے حامل نمایاں افراد کو چنا جاتا تھا تاکہ ریاستی کام خوش اسلوبی سے انجام پا سکیں۔

      میری نظام کے خاتمے کے ساتھ ہنزہ میں لیڈرشپ کے حوالے سے دو قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہوا: ایک سیاسی لحاظ سے اور دوسرے دینی و سماجی ادارتی اعتبار سے۔ بہر حال، موخر الذکر  حصے کا تذکرہ کسی اور موقعے پر کیا جائے گا۔ جہاں تک ہنزہ کی سیاست کا تعلق ہے تو اس کا سلسلہ گفتگو اس طرح ترتیب پاتا ہے کہ ریاست کے خاتمے کے بعد ہنزہ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا تاکہ اسے جلد ہی مکمل ڈسٹرکٹ ک درجہ دیا جا سکے۔ لیکن اس وقت کی لیڈرشپ کی کم ظرفی،  سیاسی بصیرت کی کمی، عوامی فلاح و بہبود سے لاتعلقی اور عدم دلچسپی کے باعث بعد میں اسے گھٹا کر سب ڈویژن بنایا گیا۔

     1970 ء کے عشرے کے وسط میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذولفقار علی بھٹو ، جو شروع میں ملک کے صدر اور پھر وزیر اعظم بنے، اور پارٹی کے دوسرے ارکان کی زبردست کوششوں کے نتیجے میں ہنزہ میں سیاسی بیدار کی ایک طاقتور لہر دوڑی تھی، پرانی رسم زبان بندی ختم ہونے لگی، جمود ٹوٹنے لگا اور ہر شخص سیاست کی خوبیوں اور خامیوں پر بلا جھجک گفتگو کر نے لگا۔ لیکن بد قسمتی سے ہنزہ اور خاص طور پر مرکزی ہنزہ میں آبادی کی اکثریت کو یہ پٹی پڑھائی گئی تھی کہ یہ سیاسی بیداری و آزادی کا عمل خیر نہیں بلکہ یہ در اصل شیطانی کام ہیں، بروشسکی میں اسے ” شیطانے شرو” (شیطان کی روٹی) کہا جاتا تھا اور بڑی کوشش اور چالاکی سے اس برخود غلط نظریے کی وسیع پیمانے پر پبلسٹی کی گئی۔ اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ عوم ہنزہ سیاست اور جمہوریت کے ثمرات سے مستفید نہ ہو سکی اور عرصے تک قومی و علاقائی سیاسی و جمہوری سرگرمیوں سے لا تعلق رہی جس کا خمیازہ اب تک ہنزہ کی لیڈر شپ اور عوام بھگت رہی ہے۔ اس سیاسی و جمہوری عمل کو ضیاءالحق کے مارشل لا نے مزید نقصان پہنچایا اور اس پر جمود طاری ہوا۔

     بہر حال، ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد ہنزہ میں انتخابی عمل کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ 1975ء میں ہنزہ میں انتخابات ہوئے جس میں میر کے چھوٹے بھائی (آنریری) کرنل عیاش خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے ایڈوکیٹ  محمد شفیع اور کچھ دیگر افراد نے بطور  امیدوار حصہ لیا۔ تاہم، عیاش خان نے انتخابات جیت لئے اور ناردن ایریاز کونسل کے ممبر بن گئے۔ ان کے بعد کئی مرتبہ میر محمد جمال خان کے بڑے بیٹے میر غضنفر علی خان نے ہنزہ سے یہ انتخابات جیت لیے۔ البتہ درمیان میں پی پی پی کے امیدوار نذیر صابر اور وزیر بیگ نے اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کرنل (ریٹائرڈ ) عبید اللہ بیگ نے بھی انتخابات جیت لیے۔

   1994ء  میں گلگت بلتستان میں نئی حلقہ بندیاں ہوئیں اور سیٹوں کی تعداد 16 سے بھا کر 24  مقرر کی گئی جس میں بعض دیگر علاقوں کو اضافی سیٹیں ملیں جبکہ ہنزہ، جو رقبے، جغرافیائی، تزویراتی اور معاشی و تعلیمی اعتبار سے سب سے اہم علاقہ ہے، کو ہنزہ کی لیڈر شپ کی غفلت، نااہلیت، عدم دلچسپی کے باعث ہنزہ اضافی سیٹ سے محروم ہوگیا۔ ہنزہ کے ساتھ اس ناروا سلوک  سے عوام میں سخت بے چینی اور مایوسی پیدا ہوئی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ منتخب نمائندے نے اس ضمن  میں کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا اور نہ دوسرے سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے  کوئی مزاحمتی تحریک چلی۔ اس طرح کی مطلق خاموشی بلاشبہ ہنزہ کی سیاسی تاریخ کی بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ بہر حال، دوسری سیٹ حاصل نہ کر سکنے کا تاثر اس قدر شدید تھا کہ ہنزہ کی لیڈرشپ عوام کی جانب سے  شدید تنقید اور غیض و غضب کا نشانہ بنی اور اسی بنیاد پر  ہنزہ کو بعد میں سیاسی یتیم بھی کہا جانے لگا۔ نیز حالیہ سالوں میں ہنزہ میں حکومت کی جانب سے تسلی بخش ترقیاتی کام نہ ہونے اور خاص طور پر ہنزہ میں بجلی کی شدید قلت کے باعث بھی ہنزہ کی لیڈرشپ عوامی تنقید کا شکار ہوئی۔

      لیکن یہ کہنا کہ ہنزہ کی سیاسی لیڈرشپ کمزور رہی درست نہیں ہے۔کیونکہ ریاست کے انہدام کے بعد ہنزہ سے جو بھی لیڈر انتخابات جیت کر  جی بی اسمبلی میں پہنچا وہ کسی نہ کسی طرح کلیدی عہدے پر فائز ہوا۔ چنانچہ، میر غضنفر ضیاءالحق کے عہد حکومت میں تشکیل پانے والی مجلس شوری کے پہلے ممبر بنے، پھر چیف ایگزیکٹو اور 2015ء میں گلگت بلتستان اسمبلی میں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی طرح وزیر بیگ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں جی بی اسمبلی میں اسپیکر کا منصب ملا اور کرنل (ریٹائرڈ ) عبید اللہ بیگ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں سینئر وزیر و وزیر تجارت بنے۔ نیز نذیر صابر اور مطابقت شاہ نے ان مذکورہ اسمبلیوں میں مختلف شعبوں میں مشیران کی حیثیت سے کام کیا اور اب ایمان شاہ موجودہ حکومت میں مشیر اطلاعات کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

       تاہم، موجودہ انتخابی نظام کے تحت، جس میں اقلیت کو اکثریت کا خوف ہمہ وقت رہتا ہے،قابل، اعلٰی تعلیم یافتہ، وسیع المطالعہ اور مخلص و دیانتدار لیڈر  کا انتخاب خواب ہی رہے گا۔ کیونکہ تا حال نظریاتی سیاست اور پارٹی پولیٹکس کماحقہ رواج نہ پا سکی ہے۔ کیونکہ، باوجود اس کے کہ ہنزہ تعلیم کے لحاظ سے پورے گلگت بلتستان میں اولیت کے مقام پر فائز ہے، یہاں کی عوام کی تا حال درست سیاسی و جمہوری تربیت نہیں ہوئی ہے۔ نیز اب تک لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب و تنگ نظری علاقے سے ختم نہیں ہوئی ہے جس کا ماضی میں تلخ تجربہ ہوا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہنزہ میں سیاست کا قبلہ درست کرنے اور ایک کامیاب اور سب کے لئے قابل قبول لیڈر کے انتخاب کے معاملے میں تعصب و تنگ نظری،  ذاتی پسند و ناپسند اور خود غرضانہ رویے کو ترک کر کے محض قومی و ملی اور اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے ۔ وگرنہ ہنزہ والے من حیث القوم اپنے قومی اہداف کے حصول میں ہر گز کامیاب نہ ہو سکیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button