کالمز

میرے صدارتی ایوارڈ یافتہ اُستاد، محمد رہبر

عافیت نظر

یہ غالباً ۲۰۱۰ کی بات ہے جب میں نے ڈائریکٹر پلاننگ محمد مظفرسے کہا کہ گورنمنٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا اُستاد محترم کو ایوارڈ کے لیے سفارش کرنا ایک بہت ہی اچھا فیصلہ تھا۔ جواباً مظفرنے کہا کہ انہیں کہاں ہوش اور فرصت کہ وہ ایسے کام کریں۔ یہ تو یونیسف آفشلزکی کارستانی ہے جنھوں نے اُستاد کے سکول کا معائینہ کرنے کے بعد سیکریٹری ایجوکیشن سے گورنمنٹ سسٹم میں موجود اس استاد کے کارناموں کا تذکرہ کیا۔ تب سیکریٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹراور دیگرعمّال نے سکول ہٰذا کا معائینہ کیا اور بلآخر وہ ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے۔

مجھے نیشنل لیول پر ایوارڈ حاصل کرنے والے چند ٹیچرز سے کراچی اور دوسرے علاقوں میں ملنے اور ان کے سکولوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور حیرت بھی ہوئی کہ ایسے ایسے عجوبوں کو بھی ایوارڈ دیا گیا ہے۔ 

بلاشبہ قوموں کی تربیت اور ترقی میں اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اساتذہ جس قدر جانفشانی سے کام کریں گے اسی قدر وہ قوم ترقی کی طرف گامزن ہوں گے۔

ہنزہ کی تاریخ میں بھی بہت سے اساتذہ کرام نے گراں قدر خدمات سر انجام دیے ہیں، اور دیتے آرہے ہیں۔ ان اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ لہذا ان سب کی خدمات کو ایک چھوٹے سے آرٹیکل میں سمونا ممکن نہیں۔ اس لے آج کے اس مضمون میں اپنے نہایت ہی قابل تحسین اور محنتی استاد محمد رہبر کے حوالے سے اپنی یاداشت قلم بند کر رہا ہوں۔

جب ہم ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے، تو اس وقت آپ گرامر اور کمپوزیشن "پک می اَپ” کے نام سے ایک مضمون  پڑھاتے تھے۔ ان کے تدریس میں سیکھنے سکھانے کا عمل ہنسی اورمذاق کی آمیزش کے ساتھ جاری رہتا تھا۔ اس لیے میرے ہم جماعت اور میں ان کے پڑھانے سے بہت محظوظ ہوتے تھے۔ سبق یاد نہ کرنے پر یا ہوم ورک نہ کرنے کی صورت میں ہلکی پھلکی سی سرزنش کرتا تھا اور سزا بھی دیتا تھا۔ مگر مجموعی طور پر ان کے طریقہ تدریس کو میں نے مادرانہ شفقت کے ساتھ پایا۔ وہ خود درس و تدریس سے لطف اندوز ہوتا تھا اورادب، طنز ومزاح اورشعر وشاعری کی آمیزش سے کلاس روم کے ماحول کو گل وگلزار میں تبدیل کرتا تھا۔ فیض احمد فیض جیسے عظیم ترقی پسند شاعرکا کلام پہلی بار اُستاد کے منہ سے سنا جب انہوں نے "ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد ۔۔۔۔۔ پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد” ۔۔۔۔ گنگنا کرسنایا، اوراس کے سیاق کےبارے میں بھی ہمیں بتایا۔ استاد کی تخلیقی صلاحیت لاجواب ہے جسے انہوں نے نہ صرف خود استعمال کیے بلکہ اپنے سٹوڈنٹس میں بھی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔

یہ غالبا 1983  کی بات ہے۔ ہمارے اساتذہ ہمیں پکنک کے لیے ایک بس میں گلمت گوجال سےخانہ آباد زیرین ہنزہ لے گئے تھے۔ اس دور میں بہت گاڑیاں نہیں تھیں۔ خان آباد کے لوگوں کی مہمان نوازی لاجواب تھی۔ انہوں نے ہمارے سکول کے اساتذہ اور طلبہ کی خدمت میں ایک بیل پیش کیا اور اس روز گاوں میں قیام کرنے اورمہمان بننے کے لیے کہا۔ ہمارے اساتذہ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور راستے اور کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹ کی مشکلات کی وجوہات پر وہاں سے واپسی کا فیصلہ کیے۔ واپسی پر موجودہ عطا آباد ٹنل کے قریب، مُلتن سار، کے مقام پر وقفے وقفے سے  سیلابی ریلے گزرنے  کی وجہ سے ہم راستے میں پھنس گئے۔ مخالف سمت سے آنے والی اےکے آرایس پی کی گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ ہمارے اساتذہ نے ان آفیشلز سے بچوں کو گاؤں پہنچانے کے لیے کہا۔ مگر بات نہیں بن پائی۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ گلگت واپس پہنچ جائیں۔  

بہرحال سیلابی ریلے کے بہاؤ میں وقفے کے دوران ہمارے سکول کے سٹوڈنٹس اور ٹیچر اس بہاو کے مقام پر پتھر ڈالتے تھے تاکہ کیچڑ کم ہو اور راستہ سخت۔ جس کے نتیجے میں گاڑیوں کا گزرنا ممکن ہو سکتاتھا۔ مگر شومئی قسمت کہ ایک یا دو گاڑیوں کے گزرنے کے بعد اے کے آٓرایس پی کی ایک گاڑی اس ریلے کے وسط میں پھنس گئی۔

قصہ مختصر، مذکورہ سیلابی ریلے میں  گاڑیوں کے پھنسنے کا منظر، اور اساتذہ اور سٹوڈنٹس کی اسے نکالنے کی کاوشوں کو میں نے اپنے ایک آرٹ ورک میں ظاہر کیا۔ شفیق استاد کی نظر کرم اس فن پارے پر پڑی تو وہ خوشی سے اُچھل پڑے۔ آرٹ ورک میرے ہاتھ میں تھما کر وہ مجھے سٹاف روم لے گئے جہاں انہوں نے دوسرے اساتذہ کو میرا کام دکھایا اور مجھے خوب داد و تحسین ملی۔ یہ ان کی شخصیت اور فن کے لئے ان کے دل میں عزت کی صرف ایک مثال تھی۔ 

 سکول کے پیشہ وارانہ  خدمات کے علاوہ وہ گوجال میں قائم ہونے والے پہلی کمیونٹی لائبریری کے نہ صرف روح رواں اور بانیوں میں سے تھے، بلکہ اس کے ذریعے سے بہت ساری سرگرمیاں نہ صرف سٹوڈنٹس کے لیے بلکہ پورے گاؤں کے لوگوں کے لیے منعقد کراتے رہے۔

۱۹۸۲ میں گلمت میں آپ نے پورے گاؤں کے لیے اس لائبریری میں ایک نمائش کا انعقاد کیا۔ جس کے ذریعے نہ صرف مختلف طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اپنے آرٹ کے نمونے اس نمائش میں پیش کریں، بلکہ ایسی گھریلو خواتین کو بھی اپنی دستکاریاں پیش کرنے کے لیے کہا گیا، جن کا سکولوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔

اس نمائش میں میں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کہ تصاویر ایک چارٹ پر بنائے تھے۔ اور چارٹ کیٹگری میں پہلی پوزشن لی تھی۔  یہ نمائش شاید  پورے ہنزہ یا گلگت بلتستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا نمائش تھا۔(یہ میرا قیاس ہے)

کچھ سالوں بعد دوسری دفعہ آپ نے ایک اور نمائش کا انعقادکیا۔ حسب سابق انہوں نے بہت سے طلبہ و طالبات اور گاؤں والوں کو اس میں شمولیت کے لیے کہا تو اس پروگرام میں پیش کرنے کے لیے میرے پاس کوئی مواد نہیں تھا۔ لہذا میں نے رہنمائی کے لیے جب استاد رہبر سے رجوع کیا اور اُن سے کہا کہ میں اس نمائش کے لیے کیا چیز بناؤں، تو انھوں نے مجھے کوئی ریڈی میڈ آئیڈیا دینے کی بجائے مجھے خود سے سوچ کرکوئی ایسی چیز بنانے کے لیے کہا جس کے بارے میں کسی اور نے نہ سوچا ہو۔

ماہرین کی رائے میں ایک اچھے اُستاد کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کو سوچنے پر مجبور کریں۔ اس دوران کافی غور و خوص کے بعد ایک مجسمہ    (سکلپچر) بنانے کا آئیڈیا میرے  ذہن میں آگیا۔ اور میں نے بہت سے ردی کاغذوں کو جمع کر کے اس سے ایک بچے کا سکلپچر بنایا۔ جس دن میں نے وہ سکلپچر لائبریری کے حال میں پہنچایا۔ تو وہاں ایک مرد اور ایک خاتون کی سکلپچرز بھی موجود تھیں، جنہیں میرے ایک سنئیر اور اب وخی زبان کے مشہور شاعر اور آرٹسٹ نظیر احمد بلبل نے بنائے تھے۔

میرے بنائے ہوئے سکلپچر کو بلبل کے بنائے ہوئے مجسمے کے ہاتھوں میں اسطرح سے فکس کیا گیا کہ جیسے وہ ان کا بچہ ہو۔

اُستاد رہبربہت سے طلباء و طالبات کو لائبریری سے کتابیں گھر لے جانے کی بھی ترغیب دیتے تھے۔ اور سب سے زیادہ کتاب گھر لے جانے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی انعامات کے ذریعے کی جاتی تھی۔

مجھے مرحوم بھائی عبدلحمید کا انعام لینا یاد ہے جس کو اس بات کی داد ملی کہ مذکورہ لائبریری سے سب سے زیادہ کتابیں انھوں نے پڑھنے کے لیے مستعار لی تھیں۔ میں نے بھی داستان یوسف چھٹی جماعت میں اپنے سنئیر برادرم حبیب سلیمانی کی ترغیب پر اسی لائبریری سے لی۔

داستانِ یوسف کو جب میں روتے ہوئے پڑھ رہا تھا تو میری ماں کو حیرت ہوئی کہ ان کے بیٹے کو کیا ہوا ہے۔

اس داستان میں بھائیوں کے حسد کے باب میں ایک نظم تھا

عافیت چاہو خدا سے دوستو
اور بد حالی کو پاس آنے نہ دو
عافیت ہی عافیت دل میں ہے
عافیت ہی عافیت بس پھر رہے
کیا یہودہ اور کیا ہے کوئی شے

یہ نظم چونکہ مجھے یاد تھا اس لیے جب میں نے اسے اپنے ہم جماعت کے سامنے پڑھا تو اس پر انہوں نے میرا مذاق اُڑانا شروع کیا۔ میرے کچھ ہم جماعت اکثر اس جملے کا ورد کرکے مجھے تنگ کرتے تھے کہ "عافیت ہی عافیت بس میں ہے، عافیت ہی عافیت ٹرک میں ہے”۔

اس لائبریری نے گویا مجھے روایتی درسی کتابوں سے ہٹ کر قلیل انداز میں سہی مگر کچھ دوسری کتابوں کو پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ 

اس کے علاوہ استاد محمد رہبر ہرسال گیارہ جولائی (اسماعیلی جماعت کے موجودہ امام آغاخان چہارم کی تخت نشینی) کے لیے پروگرام پیش کرنے کے لیے سکول کے اوقات سے ہٹ کر رات کے وقت بچوں کو ڈرامے، مکالمے اور دوسرے لطیف اور سبق آموز خاکے پیشں کرنے کے لیے گلمت گوجال میں کمونیٹی کی جانب سے پہلے تعمیر ہونے والے ڈائمنڈ جوبلی اسکول کی عمارت میں ہرسال تیاری کراتے رہے۔

یہاں پیش کیے جانے والے اکثر ڈراموں اورخاکوں کے خالق اُستاد خود رہے، مگر آپ ان ڈراموں میں حصہ لینے والوں سے بھی موقع و محل سے متعلق بہتر آئیڈیازکو شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ مذکورہ ڈراموں اورخاکوں نے بہت سے سٹوڈنٹس کو سکول کے نصاب سے ہٹ کر سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔

انہی وجوہات کی بنا پر آج سے تقریباً چوبیس سال پہلے اور اُستاد رہبر کو نیشنل ایوارڈ ملنے سے سات سال پہلے سن ۲۰۰۰ کو میں نے استاد رہبر کو ایک خط لکھ کراس بات کا اعتراف کیا تھا کہ میری زندگی میں مجھے بہت سے بہترین اساتذہ ملے، لیکن آپ میرے لیے ان سب سے ممتازہیں۔

آپ کی رائے

comments

عافیت نظر

عافیت نظر تعلیم و تربیت اور پیشےکے لحاظ سے ماہر تعلیم ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button