علی محمد جان محمد چنارہ: بیسویں صدی کا خوجہ اسماعیلی مورخ
دور جدید میں وہ کون اسماعیلی ہوگا جو اسماعیلی تاریخ و تعلیمات سے دلچسپی رکھتا ہو لیکن ‘ نور مبین’ نام کی کتاب سے آشنا نہ ہو۔ بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں لکھی ہوئی کتاب ‘نور مبین’ اسماعیلی تاریخ پر اولین مربوط اور ضخیم کتاب شمار ہوتی ہے جس نے گذشتہ پون صدی تک اسماعیلی تاریخ کی بنیادی ضرورت بڑی حد تک پوری کی ہے۔ اس کے مولف اے۔ جے۔ چنارہ ہیں جو ہمارے زیر بحث موضوع کا محور و مرکز ہیں۔
‘ نور مبین’ کے مولف کا پورا نام علی محمد جان محمد چنارہ ہے جو عام طور پر اے۔ جے۔ چنارہ (A. J. Chunara) کے نام سے معروف ہیں۔ ان کا تعلق بر صغیر ہند کے شہر کچھ کے موضع بھوج سے تھا۔ ان کے والد کا نام جان محمد تھا جبکہ ان کے پردادا دھامو (Dhamu)چنارہ کچھ کے موضع بھوج کے ممتاز لیڈر تھے۔ انہوں نے 1817ء کی ابتداء میں یزد، ایران جا کر حضرت امام خلیل اللہ سے ملاقات کی تھی۔ اس موقعے پر امام الوقت نے انہیں اپنے علاقے کی جماعت کا لیڈر مقرر کیا تھا۔
علی محمد چنارہ 1881ء میں پیدا ہوئے اور اپنے علاقے میں ہی اپنی رسمی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ کاروبار سے بھی وابستہ ہوئے اور مختلف حیثیتوں میں جماعتی خدمت بھی انجام دی۔ تاہم، ان کا زیادہ رجحان علم، ادب، صحافت اور تصنیف و تعلیم کی طرف تھا۔ انہوں نے شاعری بھی کی جس کو جماعت سراہا بھی لیکن ان کا زیادہ میلان صحافت اور تصنیف و تالیف کی جانب تھا۔ کئی رسالے ان کی ادارت میں طبع ہو کر شائع ہوئے۔ نیز ان کی اسماعیلی تاریخ پر گجراتی زبان میں کئی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
چنارہ مرحوم نے اپنی کوشش پیہم سے وہ استعداد حاصل کی کہ 1904ء میں حضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سوم کے سیکریٹری بن گئے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ چنارہ نے 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی تشکیل کے لئے جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں امام کے سیکریٹری کی حیثیت سے انہوں نے شرکت کی۔ نیز بہت سے تعلیمی اور صحافتی اور تصنیفی اداروں، جیسے پنجے بھائی کلب اور اسماعیلی ریکریشن کلب، بمبئی (RecreationClub, Bombay) کے سرگرم ممبر بھی رہے۔ انہوں نے 1929ء میں بحیثیت صحافی دہلی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت کی جس نے علی گڑھ یونیورسٹی کے دورے کا موقع فراہم کیا۔ نیز دیگر مسلم صحافتی تنظیموں کے فعال ممبر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
چنارہ موصوف اسلامی علوم سے بھی خوب آگاہی رکھتے تھے۔ چنانچہ، انہوں نے بمبئی، کراچی اور حیدر آباد میں ” اسلام اور شریعت” پر لیکچر دیئے اور اس ضمن میں انہوں نے ایسٹ افریقہ کا سفربھی کیا۔
اگرچہ، علی محمد چنارہ نے 1924ء میں اسماعیلی اماموں کی تاریخ پر ایک کتاب مرتب کرنا چاہا تھا لیکن دوسرے صحافتی اور ادارتی کاموں کی بہتات کے باعث اس پر توجہ نہ دے سکے۔ بہر حال، 1928ء میں انہوں نے بار دیگر اسماعیلی تاریخ کے مطالعے کا آغاز کیا۔
در اصل ریکریشن کلب، جسے امام سلطان محمد شاہ نے 1919ء میں اسماعیلی تاریخ پر تحقیق و تصنیف کے لئے قائم کیا تھا، کے صدر حضور وزیر علی محمد مکلائی نے چنارہ صاحب کو ساتویں صدی سے بیسویں صدی تک 48 اماموں کی مبسوط تاریخ لکھنےکا کام سونپا۔ اس کے لئے بھر پور مالی اور انتظامی مدد فراہم کی اور چنارہ کے عملے میں دیگر بہت سے ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو عربی، فارسی، اردو اور انگریزی خوب جانتے تھے اور انہوں نے مختلف لائبریریوں سے ‘ نور مبین’ کے لئے مواد فراہم کیا۔ تاہم، اس کتاب کا محور و مرکز اور اصل مولف و مرتب علی محمد جان محمد چنارہ ہی تھے۔ بالآخر،چنارہ موصوف نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اپنی مشہور زمانہ کتاب ‘ نور مبین ‘ مرتب و مدون کیا۔ چنانچہ، اس کا پہلا گجراتی ایڈیشن جنوری 1936ء میں شائع ہوا جو 1934ء – 1935ء تک کی تاریخ پر مشتمل تھا۔ اس کا اردو ترجمہ 1940ء میں شائع ہوا جس میں اردو مترجم کا نام کہیں درج نہ تھا۔ ‘ نور مبین ‘ کا دوسرا ایڈیشن 1950ء میں منظر عام پر آیا جس میں 1949ء تک کی تاریخ شامل ہے۔۔ جبکہ اس کا تیسرا ایڈیشن 1951ء میں شائع ہوا۔ اس طرح اس کا چوتھا ایڈیشن، مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی آغاخان چہارم کی ہدایت کی روشنی میں1961ء میں شائع ہوا۔
وزیر علی محمد چنارہ اپنی عمر عزیز کے 85 سال بھر پور طریقے سے گزارنے کے بعد 23 مارچ 1966ء میں کراچی میں راہی ملک عدم ہوئے۔ 7 اپریل 1966ء کو اپنے تعزیتی پیغام میں مولانا حاضر امام نے وزیر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے دعائے اسیس عطا فرمائی اور ان کی علمی و ادبی اور سماجی خدمات کو سراہا۔
الغرض، وزیر علی محمد چنارہ بیسویں صدی عیسوی کے ممتاز اسماعیلی دانشور، کامیاب صحافی، پر نویس مصنف و مولف اور نامور مورخ تھے۔ اگرچہ انہوں نے لاتعداد کتب و رسائل قلم بند کیے لیکن انہیں جس کتاب نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلی مقام عطا کیا وہ ہے ‘ نور مبین’۔ اگر چنارہ مرحوم باقی کچھ بھی نہ لکھتے تو بھی ‘ نور مبین’ انہیں زندہ و جاوید رکھنے کے لئے کافی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں، جبکہ اسلام کے صدر اول اور امامت کے آغاز سے لے کر بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول تک کی تاریخ کو مربوط اور منظم طریقے سے مرتب کر کے کتابی شکل میں پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کیونکہ اس وقت تک ایسی کوئی کتاب لکھی نہیں گئی تھی کہ اسے پیش نظر رکھ کر نئی کتاب لکھنے میں کسی قدر آسانی ہوتی۔ اس سے بھی دشوار تر ایک اور مرحلہ تھا کہ اس وقت تک اسماعیلی تاریخ و ادب پر بہت کم مواد دستیاب تھا، بنیادی مآخذ پر مبنی کتب تا ہنوز مخطوطات کی صورت میں تھے جن تک رسائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی، مخطوطات کی صورت میں موجود ان کتب و رسائل کی طباعت و اشاعت کا سلسلہ بعد میں شروع ہوا۔ تاہم، ان دشواریوں کے باوجود ‘ نور مبین ‘جیسی کتاب لکھنا، بلاشبہ، اے۔ جے۔ چنارہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو انہیں طویل عرصے تک زندہ رکھے گی۔
جیساکہ اس سے پہلے ذکر ہوا کہ چنارہ مرحوم کی مذکورہ کتاب ‘ نور مبین’ میں پہلی مرتبہ 48 اسماعیلی اماموں کی تاریخ بڑی حد تک مربوط اور منظم طریقے سے پیش کی گئی ہے۔ تاریخی واقعات بعض معتبر اور مستند عربی و فارسی مآخذ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں مستند اور معیاری ثانوی مآخذ، جو زیادہ تر انگریزی، اردو، گجراتی اور سندھی زبانوں پر مشتمل ہیں، سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جس سے کتاب کے استناد و اعتبار اور معیار میں اضافہ ہوا ہے۔
اے۔ جے۔ چنارہ کے حالات زندگی اور تصنیف کے متعلق بنیادی معلومات ذیل کی کتاب اور مضمون سے حاصل کی گئی ہیں:
Ismaili Heroes– Volume 1- Late 19th Century to Present Age,
29. Chunara, Ali Muhammad Jan Muhammad, Wazir- p. 99؛ Khojawiki- https:/khojawiki.org> Ali Muhammad Jan Muhammad Chunara;