گلگت بلتستان کی آزادی کے بعد اس کے آئینی حقوق کے حصول میں ناکامی کے اسباب
اگرچہ، یکم نومبر 1947ء کی گلگت کی آزادی کی جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوئی،ڈوگرہ راج کایہاں سے خاتمہ ہوا اور خطے کو پاکستان میں شامل کیا گیالیکن بد قسمتی سے یہ آزادی شروع دن سے متنازعہ بنی رہی۔ اس بابت اب تک کئی بیانیے سامنے آئے اور بانت بانت کی بولیاں بولی گئیں۔ بہرحال، اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس آزادی/ تنازعے کے متعلق جوں جوں حقائق سامنے آتے جائیں گے توں توں اس کی اصل تاریخ نکھر کر سامنے آئے گی۔ تب مورخین، محققین اور یہاں کی عوام کوئی درست اور صحتمند فیصلے کر سکیں گے۔
جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا پر گلگت کے ایک مقامی سیاسی لیڈر اور سینئر وکیل جناب جوہر علی خان مرحوم و مغفور کا ایک بیان گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت کے گلگت بلتستان کے پولیٹیکل ایجنٹ ناردرن ایریاز ( آج کے گلگت بلتستان) کو صوبہ سرحد ( آج کےخیبرپختونخواہ) میں ضم کرنا چاہتے تھے۔ اس اقدام کو روکنے کے لئے جوہر علی خان اور ان کے ساتھیوں نے گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر کے تعلق پر زور دیا۔اس مقصد کے لئے انہوں نے راتوں رات مسلم کانفرنس کا برانچ تشکیل دے دیا، جو آزاد کشمیر کی حکمران جماعت تھی۔ اگرچہ جوہر علی مرحوم کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن سچ پوچھو تو ان کا یہ اقدام دور اندیشی پر مبنی نہ تھا۔ اس اقدام نے گلگت بلتستان کی حیثیت کو مزید متنازعہ بنا دیا۔ بلکہ بعد کے زمانے کے لئے یہ اقدام پیر تسمہ پا ثابت ہوا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ گلگت بلتستان کی اپنی الگ سیاسی، آئینی، انتظامی اور جغرافیائی اکائی کے طور پر حیثیت منوانے کے لئے حکومت پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کر کے اسے قائل کیا جاتا۔ مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور معاملہ پیچیدہ تر ہوتا گیا۔ ارض شمال کی آئینی حیثیت منوانے میں ناکامی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے بعض کی نشاندہی یہاں کی جاتی ہے۔
1۔ ہمارے خطے کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ تاریخ میں وہ قومیں اپنے جائز حقوق حاصل کرتی رہی ہیں جو تعلیم و تعلم سے فیضیاب رہی ہیں۔ کیونکہ حقوق کے حصول کے لئے تاریخ اور تہذیب کے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے اس قوم کے افراد کا اعلٰی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مگر ہمارےخطے میں بیسویں صدی اواخر تک تعلیم عام نہ تھی۔ دوسرے علاقوں اور ملکوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہ وسائل دستیاب تھے اور نہ تعلیم و تعلم کی اہمیت و افادیت کا لوگوں میں شعور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے یہاں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کی حد درجہ قلت رہی ۔ چنانچہ، اس علمی قلت اور شعور کے فقدان کے سبب یکم نومبر 1947ء میں میدان کارزار میں جیتی ہوئی جنگ کو ہم نے مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل دیا۔
2۔ آزادی کے بعد گلگت بلتستان کے لوگ، خاص طور یہاں کی لیڈرشپ علاقائی، مذہبی و مسلکی تعصبات اور ذاتی پسند و ناپسند کی بھول بھلیاں میں پھنس کر رہ گئی۔ بدین سبب ہمارا اجتماعی مطالبہ، جو علاقے کی آئینی حیثیت کو منوانے کا تھا، پس پشت ڈالا گیا۔ ایسے میں گلگت بلتستان کو ہتھیانے کے کشمیر اور خیبر پختون خواہ کے عزائم کا منصہ شہود پہ آنا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔”از ماست کہ بر ماست”.
3۔ اگر آزادی کے بعد گلگت بلتستان کی عوام کی کلی اتفاق رائے سے گلگت میں حکومت سازی کی جاتی تو نہ 16 دن بعد حکومت تحلیل ہوجاتی اور نہ خطہ متنازعہ رہتا۔ بلکہ آبرومندانہ طریقے سے آج یہ خطہ حکومت پاکستان کا حصہ ہوتا۔ مثال کے طور پر گلگت کی اس وقت کی عبوری حکومت میں نہ ہنزہ اور غذر کا حصہ تھا اور نہ استور اور دیامر کا۔ بلتستان کی قسمت کا فیصلہ تو ایک سال بعد ہوا۔ جبکہ آزادی گلگت کے لئے اگرچہ یہاں کے تمام طبقوں اور قوموں کا حصہ تھا لیکن سب سے زیادہ قربانیاں پہلے ہنزہ، پھر نگر اور پھر یاسین کی تھیں۔ شنید ہے کہ جب گلگت میں حکومت سازی کے مشورے ہو رہے تھے تو ایک بڑی اکثریت نے میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان کو اس عبوری حکومت کے صدر بنانے کا صائب مشورہ دیا۔ اس موقعے پر کرنل حسن خان نے، جن کا تعلق گلگت خاص سے تھا، مجمع کو پستول دکھاتے ہوئے کہا کہ جو میر آف ہنزہ کو صدر بنانے کا کہے گا تو میں اسے گولی مار دوں گا۔ چنانچہ میر جمال خان کی بجائے راجہ شاہ رئیس خان، جن کا تعلق گلگت حکمران خاندان تراخان سے تھا، کو اس نئی نویلی عبوری حکومت کاصدر بنایا گیا۔ اگرچہ راجہ موصوف مقامی تاریخ سے خوب واقف تھے جس کی جیتی جاگتی مثال ان کی تالیف ‘ تاریخ گلگت’ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نہ آئین و قانون کی تعلیم حاصل کی تھی، نہ وہ عالمی اور علاقائی سیاسی و معاشی تبدیلیوں اور قلابازیوں کے بارے میں کماحقہ آگاہ تھے، نہ ان کا اثر و رسوخ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی حلقوں میں تھا اور نہ قومی اور بین الاقوامی لیڈرشپ کے ساتھ کوئی رابطہ تھا۔ جبکہ ان کے مقابلے میں میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان کہیں زیادہ اہلیت و قابلیت کے مالک تھے۔ وہ انگریزوں کی طرح انگریزی بولتے تھے، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات سے آگاہی کے حصول کے لئے ان کے پاس ایک بہترین ریڈیو سیٹ تھا بلکہ اس حوالے سے کتب و رسائل کا ایک قابل ذکر ذخیرہ بھی موجود تھا۔ ایک اہم ریاست کے حکمران کی حیثیت سے وہ سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ رکھتے تھے، وہ قائد اعظم سمیت بر صغیر پاک و ہند کے اہم لیڈروں کے ساتھ راہ و رسم رکھتے تھےبلکہ سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوم کے مرید اور نمائندے کی حیثیت سے بین الاقوامی لیڈرشپ کے ساتھ بھی ان کے اچھے روابط تھے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ کہ میر موصوف اس وقت کی جنگ ازادی گلگت کے ہیروز کے سرگروہ تھے جس کی توثیق میجر براؤن اور بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔پس جس زاویہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو میر جمال خان گلگت کی نئی عبوری حکومت کی سربراہی کے لئے موزوں ترین شخص تھے۔ اگر میر صاحب اس نئی حکومت کے سربراہ ہوتے تو مذکورہ نئی عبوری حکومت عبوری نہیں رہتی بلکہ مستقل حکومت بن جاتی اور آسانی سے پاکستان کے پانچویں آئینی صوبے کا روپ دھارتی۔
• 4۔ شروع دن سے گلگت بلتستان کی لیڈرشپ کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار نہ کر سکی۔ کوئی جوہر علی گروپ، کوئی مرزا حسن گروپ، پھر علاقائی اور مذہبی عصبیت پر مبنی گروہ تشکیل پا گئے۔ نیز گزشتہ دو تین عشروں کے دوران فرقہ ورانہ کشمکش اور تصادمات نے اس پر تازیا نے کا کام کیا اور یوں اجتماعی سوچ، علاقائی مفادات اور عوامی امنگوں کو بے حد نقصان پہنچا اور عشروں تک ہم سر نہ اٹھا سکے۔ بدین وجوہ گلگت بلتستان کے لوگ کوئی اجتماعی سیاسی و آئینی حق حاصل کرنے میں تا حال کامیاب نہ ہو سکے۔
لہٰذا، گلگت بلتستان کے لوگوں اور خاص طور پر یہاں کی لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی سیاسی، آئینی اور معاشی حقوق کے حصول کے لئے متحد ہو کر ایک صحتمند اور پر اثر بیانیہ تشکیل دیں اور اس پر عمل در آمد کے لئے مسلسل کوشش کریں۔ نیز لیڈرشپ کا چناو علاقائی، نسلی، لسانی اور مسلکی بنیادوں پر کر نے کی بجائے قائدین کی اہلیت و قابلیت، علم و دانش، معاملہ فہمی، دیانتداری اور محنت و لگن کو پیش نظر رکھنا لازم ہوگا۔ اس طرح ہم اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ ورنہ کوئی دوسری قوم یا ادارہ پلیٹ میں رکھ کر ہمیں حقوق ہرگز نہ دے گا۔