کالمز

مولانا عیسٰی خان داریلی : گلگت بلتستان کا ایک عظیم مبلغ

زندگی کے اوراق پر ایک ایسا روشن باب جس کے نقوش وقت کی گرد سے مٹ نہیں سکتے، مولانا عیسیٰ خان کی شخصیت کی داستان ہے۔ وہ ایک عظیم عالم دین، شاندار خطیب، اور بے لوث داعی تھے جن کی زندگی علم، عمل، تقویٰ، اور دین کی اشاعت کے لیے وقف رہی۔ ان کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو جامع انداز میں پیش کرنا نہ صرف ان کے لیے خراج عقیدت ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بھی۔ میں نے تین مارچ 2019 کو پڑی بنگلہ کے مقام پر اپنی کتاب” مشاہیر علماء گلگت بلتستان” کے لئے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا ،اس کی روشنی میں ان کی سوانح پر مختصر لکھ رہاہوں۔ تاہم وقت کے محقق اور مورخ پر فرض ہے کہ وہ مولانا کی حیات مستعارپرتفصیلی کام کرے۔
مولانا عیسیٰ خان داریلی کا شمار گلگت بلتستان کے ان قابل فخر شخصیات اور فاضل علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم، دین ، اصلاح معاشرہ اور دعوت دین کی تبلیغ کے لیے وقف کی۔ آپ 10 دسمبر 1953 کو داریل کے تاریخی گاؤں پھوگچ میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں علمی، روحانی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جہاں صدیوں پہلے ایک عظیم الشان درسگاہ موجود تھی، جسے آج بھی "پھوگچ یونیورسٹی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میں نے خود اس جگہ کا تفصیلی وزٹ کیا ہے۔ جہاں آج بھی اس درسگاہ کے آثار موجود ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

مولانا عیسیٰ خان ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میرزمان زراعت اور مویشی پروری سے منسلک تھے اور ان کی چار بیویوں سے 14 اولادیں تھیں۔ مولانا عیسیٰ خان کے بھائی میر عالم بھی عالم دین ہیں۔

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم پھوگچ کی مسجد میں مولوی خستہ خان صاحب سے حاصل کی۔ مولانا عیسیٰ خان نے مولوی خستہ خان سے مسجد میں، "الف ب ث "سے تعلیم کا آغاز کیا۔ یہی وہ روایت ہے جس نے مسلمانوں میں صدیوں سے تعلیم کا چراغ روشن رکھا ہے، حالانکہ آج بھی کچھ لوگ مذہبی تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے باب میں مولوی اور مسجد کےکردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سکول کی تعلیم

مولانا عیسیٰ خان کے بچپن میں داریل گماری میں ایک پرائمری سکول تھا۔ جہاں مولانا نے دو کلاسیں اسکول کی تعلیم حاصل کی اور پھر مکمل طور پر دینی تعلیم کے لئے رخت سفر باندھ لیا اورہمیشہ کے لئے مدرسہ و درسگاہ کے ہوکر رہے۔

دینی تعلیم کی شروعات

دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز حافظ محمد جمیل سے ہوا، جو کوہستان جل کوٹ سے داریل آئے تھے۔ مولانا عیسیٰ خان نے ناظرہ قرآن کریم اور علم صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں حافظ جمیل سے پڑھیں اور مزید تعلیم کے لیے جل کوٹ کا سفر کیا۔ مولوی جمیل رحمہ اللہ جل کوٹ سے داریل آئے تھے اور وہی داریل سے شادی کی۔ حافظ جمیل کی زوجہ محترمہ، مولانا عیسیٰ خان کی ماموں زاد بہن تھی۔ یوں حافظ جمیل ، مولانا عیسیٰ خان کی فیملی کے ممبر بن گئے تھے۔
جل کوٹ میں تین سال تک فقہ اور صرف کی کتب پڑھیں۔ مولانا فرقان سے صرف ، مولانا سالار سے صرف کی بڑی کتب، نحو کی ہدایت النحو اور دیگر کتب پڑھنے کر ابتدائی صرف و نحوکی تکمیل کی۔ بعد ازاں، پٹن کیال گئے اور وہاں مولوی عبدالکریم اور مولوی عبدالباسط سے کافیہ اور ملا جامی جیسی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ ان کتب کے علاوہ بھی کئی کتب پڑھیں یوں تین سال پٹن کیال و غیرہ میں گزارے۔کافیہ اور ملا جامی کوہستانی زبان میں پڑھا۔

اعلیٰ دینی تعلیم

مزید تعلیم کے لیے مولانا عیسیٰ خان نے سوات کا سفر کیا اور دارالعلوم چہار باغ میں دو سال تک مختصر المعانی، منطق، اور علم حکمت کی کتب پڑھیں۔ سوات ہی کے ایک اور مدرسے میں آپ نے مشکوٰۃ شریف اور دیگر اہم کتب کا درس حاصل کیا۔ درس مشکوٰۃ ہندوستان کی مشہور دینی درسگاہ سہارنپور کے کسی فاضل عالم سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
دورہ حدیث شریف کے لیے آپ صوبہ سرحد یعنی خیبرپختون خواہ کے مشہور علاقے الائی تیلوس گئے اور وہاں حضرت حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد مولانا محمد ایوب صاحب سے 1973 میں دورہ حدیث مکمل کیا۔

قرآن کریم اور فہم قرآن

مولانا عیسیٰ خان نے قرآن کریم کا ترجمہ دو مرتبہ ضلع مردان میں کیا۔ اس کے علاوہ، آپ نے مولانا طاہر پنج پیری کی عظیم درسگاہ میں تین مرتبہ فہم قرآن کے لیے دروس میں حصہ لیا، جو آپ کی دینی بصیرت اور قرآن فہمی کا عملی مظہر ہے۔ مولانا طاہر پنج پیری رحمہ اللہ کے علوم قرآن سے خوب استفادہ کیا۔

درس و تدریس کا آغاز

مولانا عیسیٰ خان نے تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی زندگی کے ابتدائی چھ سال پھوگچ کی مسجد میں درس و تدریس کے لیے وقف کیے۔ یہاں انہوں نے نحو، صرف، منطق، اور معانی و بیان جیسے اہم علوم پڑھائے۔

کسمپرسی کے باوجود تعلیم کا فروغ

مولانا نے نہایت تنگ دستی کے حالات میں بھی علم کی شمع روشن رکھی۔ ان کا جذبہ اور استقامت اس وقت مزید نکھر کر سامنے آیا جب انہوں نے عرابک ٹیچر کی حیثیت سے چار سال سکول کے بچوں کو عربی پڑھائی اور معروف پروفیسر عثمان علی مرحوم سے "ٹیچنگ میتھڈولوجی” کی تربیت حاصل کی۔ مولانا عیسیٰ خان نے ذرا سی بے چینی کیساتھ فرمایا کہ” سرکاری نوکری کسب معاش کی مصیبتوں کی وجہ سے اختیار کرنی پڑی ورنا میرا مزاج سرکاری نوکری کا نہیں تھا۔ دینی مدرسہ میں درس کی وجہ سے تنگ دستی نے گیر لیا تو عرابک ٹیچر کے طور پر نوکری کی اور پھر جلد چھوڑنا پڑا۔”

دعوت و تبلیغ کی طرف رجحان

مولانا عیسیٰ خان نے جلد ہی اپنے آپ کو دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کر دیا۔ دینی و تبلیغی مشاغل زیادہ بڑھنے کی وجہ سے مولانا عیسیٰ خان نے 1982 میں باقاعدہ سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے کر وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہو گئے اور علماء کے حلقوں میں سال بھر کا وقت لگایا۔

شینا زبان کے سب سے نامور خطیب

مولانا عیسیٰ خان بلاشبہ شینا زبان کے سب سے نامور اور مشہور خطیب تھے۔ ان کی شینا زبان میں تقاریر نے پورے گلگت بلتستان میں دھوم مچا دی تھی۔ ان کی زبان کی شیرینی اور طرزِ بیان نے لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ اگر انہیں شینا زبان کے مولانا عبدالحمید ندیم کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، اور ان کی خطابت کا جادو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ایک کامیاب خطیب کے خطبات اور تقاریر میں جتنی خوبیاں ہونی چاہیے ، بلاشبہ مولانا عیسیٰ خان کی تقاریر اور خطبات میں وہ سب کچھ موجود ہے۔گلگت بلتستان و کوہستان کے دعوت تبلیغ سے منسلک ہر فرد مولانا کی تقاریر اور شیریں خطبات کا گواہ ہے اور معترف بھی۔ ہم نے اپنا بچپن ان کی مبلغانہ تقاریر سن کر گزار ہے۔
ایک مبلغ اسلام اور خطیب میں جتنی خصوصیات ہونی چاہیےوہ سب مولاناعیسیٰ خان کی زبان میں موجود تھی۔سچائی اور صداقت،شائستگی اور نرمی،سادگی و سلاست،دلائل اورحکمت،صبروتحمل،محبت اورخیرخواہی، علمیت اورگہرائی، اختصاراور اخلاص،مثبت انداز،قرآن وحدیث کےحوالہ جات، توجہ مبذول کرانے کی صلاحیت، معاشرتی مسائل اور معاملہ فہمی کیساتھ دعا اور خیر کا پیغام ، مولانا مرحوم کی تقاریر اور خطبات کا خاصہ ہوتے تھے۔

قرآن و حدیث سے محبت

مولانا عیسیٰ خان نے اپنی زندگی بھر علم کے مختلف شعبوں میں گہری دلچسپی لی اور ان کی علمی شخصیت نے کئی میدانوں میں اپنی مہارت دکھائی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا، خاص طور پر تفسیر،حدیث، فقہ اور سیرت النبیؐ پر۔
مولانا عیسیٰ خان کے علمی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تفسیر ابن کثیر کے عاشق تھے اور اس کے ساتھ ساتھ تفسیر روح المعانی، تفسیر مدارک، تفسیر کبیر، اور مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کی معارف القرآن کو بھی گہرائی سے پڑھتے رہے۔ علم حدیث میں ان کی مطالعہ کی کتابوں میں ریاض الصالحین، زاد المعاد، اور سیرت النبی کی کتب شامل تھیں، جبکہ فتاویٰ کی کتب میں فتاویٰ شامی اور فتاویٰ عالمگیری ان کے روزمرہ مطالعے کا حصہ تھیں۔

ہم درس ساتھی اورمعروف تلامذہ

مولانا کے ہم درس ساتھیوںمیں مولانا عبداللہ خانبھری والے،مولانا سلیم وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے شاگردوں میں مولانا ایاز، مولانا امان اللہ، مولانا عبدالحکیم کھنر، مولانا غلام سرور تانگیر، اور مولانا بدر جمیل تھور جیسے قابل اور مشہور علماء شامل ہیں، جو ان کی علمی محنت اور اخلاص کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
قاضی عبدالرزاق ؒ سے شرف تلمذ اورتعلقات دارالعلوم دیوبند کےنامورفاضل اور حضرت حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق ، بانی جامعہ نصرۃ الاسلام وخطیب مرکزی جامعہ مسجد گلگت سے مولانا عیسیٰ خان نے شرف تلمذ بھی حاصل کیا۔ مولانا عیسیٰ خان نے "مغنی اللبیب” کے دو اسباق قاضی عبدالرزاق سے پڑھے اور پھر قاضی صاحب نے امتحان لے کر کہا کہ ” آپ علم نحو کے بڑے عالم ہیں اور مزید آپ کو پڑھانے کی ضرورت نہیں”۔
ان کا گہرا تعلق مولانا قاضی عبدالرزاق مرحوم، فاضل دیوبند سے تھا، جنہوں نے ایک دفعہ علماء کرام کو "حریم المسجد” کے عنوان سے ایک استفتاء دیا۔ اس استفتاء پر تمام علماء کی تحریریں آئیں، مگر مولانا عیسیٰ خان کی تحریر سب سے زیادہ پسند کی گئی اور سراہا گیا۔ قاضی مرحوم نے داددی۔اسی طرح ایک دفعہ قاضی مرحوم نےعلماءکرام کو ، عربی کتب میں اعراب لگانے اور ترکیب کا کام سونپ دیا۔اس میں بھی مولانا عیسیٰ خان کی مہارت کو تسلیم کیا گیا، اور قاضی عبدالرزاق نے ان کی اعراب اور ترکیب کو بے حد پسند کیا۔ ایک بار ایک جلسے میں انہوں نے کہا، "اے اہلِ دیامر، مولانا عیسیٰ خان کی قدر کرو، یہ وقت کا بڑا عالم ہوگا۔”
مولانا عیسیٰ خان نے بتایاکہ میرےاستادمحترم کے بیٹے قاضی نثاراحمد سےبھی میرے اچھےتعلقات ہیں۔وہ ہمارے بڑے ہیں۔اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔

سماجی اور سیاسی خیالات اوربصیرت

مولانا نے ہمیشہ سماج کی حالت زار پر کڑھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی۔ ان کے مطابق جہالت، تعصب، اور دین سے دوری ہی قتل و غارت اور بدامنی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا عذاب ناانصافی، کرپشن، اور دین سے دوری کی شکل میں نازل ہوتا ہے۔ داریل کے حالات پر ان کی تشویش اور علماء و عوام کو اتحاد کی تلقین ان کے اخلاص کی گواہی دیتی ہے۔
مولانا عیسیٰ خان نے سماجی اور سیاسی مسائل پر گہرا تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ
"لوگ جاہل، متعصب اور ان پڑھ ہیں، اس لیے قتل و غارت اور دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ عداوتیں ہیں، نفاق ہے، اور حکومت کے ساتھ لڑائیاں ہیں، اس لیے بدامنی کا سامنا ہے۔ دین کی کمی اور اللہ کی ناراضگی ہے، جب دین سے دوری ہوگی تو اللہ کا عذاب مختلف شکلوں میں آئے گا۔”
مولانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ” اللہ کا عذاب صرف کفر و شکر کے ساتھ نہیں آتا، بلکہ یہ ناانصافی، کرپشن، دین سے دوری، حقوق کی عدم ادائیگی، اعمال میں کمی اور سنت سے دوری کی وجہ سے بھی آ سکتا ہے”۔ انہوں نے مختلف قوموں پر آنے والے عذاب اور مصیبتوں کو اس کا سبب گردانا۔

حکومت کی صورتحال

مولانا نے حکومتی انصاف کی کمی پر بھی بات کی اور کہا کہ ”حکومت کے پاس عدل و انصاف نہیں، بلکہ جور و ظلم اور تعدی ہے”۔ وہ داریل کی حالت کو بھی افسوسناک سمجھتے تھے، جہاں قتل و غارت اور دشمنیاں تھیں اور اتفاق و اتحاد کی کمی تھی۔ انہوں نے علماء اور عوام کو بار بار سمجھایا کہ وہ آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں۔

روئیت ہلال اورعید کا مسئلہ

مولانا عیسیٰ خان نے انتہائی دکھی اندازمیں بتایا کہ: ” داریل میں ریڈیو پاکستان کے اعلان پر ایک طویل عرصہ عید نہیں منائی۔یہ بات بالکل مناسب نہیں تھی۔بہرحال اس مسئلے پر بھی علماء کو سمجھایا اور اتفاق رائے پیدا کرنےمیں کامیابی ملی”۔

ایفاد پراجیکٹ اور تبلیغی جماعت

مولانا عیسیٰ خان نے ایفاد پراجیکٹ کے حوالے سے بھی گہرے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے علماء کے اختلافات کی بنا پر اس منصوبے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ کے وہاب الخیری سے اس بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ” حلال و حرام کے لیے نص قطعی چاہیے، جو اس پراجیکٹ کے حرام ہونے میں نہیں تھی،تاہم کچھ شبہات تھے، اس لیے وہ اس سے اجتناب کرنے کو ترجیح دیا۔تاہم اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا فتویٰ نہیں دیا”۔
تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی ان کے تعلقات تھے، اور وہ اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ ایفاد سے بچیں، تاہم اس کی سخت مخالفت کرنے والوں کی حمایت نہ کرتے ہوئے، انہوں نے درمیانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ شبہ کی چیزوں سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔مولانا کا کہنا تھا کہ ایفاد پراجیکٹ پر بھی علماء کا رویہ افراط و تفریط پر مبنی تھا۔

حکومتی سختی اور علماء کے رویے

مولانا عیسیٰ خان نے بتایا کہ ”کچھ علماء کا رویہ بہت سخت تھا، جس کی وجہ سے حکومت نے ہمارے علاقوں میں سختی شروع کر دی تھی۔ گھروں کی گھڑیاں جو حفاظت کے لیے رکھی گئی تھیں، انہیں گرایا گیا اور دیگر مشکلات پیدا کی گئیں۔علماءکی سختیوں کی وجہ سے اہلیان دیامر اور بالخصوص داریل و تانگیر کے عوام کو بہت ساری سماجی وسیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال سماجی و سیاسی مسائل میں علماء کو میانہ روی اورحکمت و بصیرت سے کام لینا چاہیے۔اورسرکاری عمال کو بھی اپنےرویے ٹھیک کرنے چاہیے۔ بہت سارےمسائل حکومتی اور عسکری ذمہ داران کے سخت لہجے اور غیر ضروری پالیسیوں کی وجہ سےپیداہوتے ہیں۔”

تبلیغی جماعت میں خدمات

مولانا عیسیٰ خان نے تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا۔زندگی کی تمام حسین بہاریں جماعت تبلیغ کے ساتھ گزری۔ گلگت بلتستان اور کوہستان میں جہاں کہی بھی تبلیغی اجتماعات اورجوڑ ہوتے تو مولاناکابیان ضرور ہوتا۔ وہ ہمیشہ دین کی اشاعت اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے مختلف قوموں کے درمیان اتفاق و اتحاد کے لیے کام کیا اور شبہات سے دور رہنے کی تلقین کی۔ ایفاد پروجیکٹ پر ان کے معتدل رویے نے ان کی بصیرت اور حکمت عملی کو نمایاں کیا۔

ذاتی زندگی اور خانوادے کی تربیت

مولانا نے دو شادیاں کیں اور اللہ نے انہیں دس بیٹوں اور سات بیٹیوں سے نوازا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو دین کی ابتدائی تعلیم خود دی اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگوایا۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد یوسف کو علم دین کے لیے وقف کیا گیا۔ محمدیوسف نے سال 2024کو جامعۃ الرشید کراچی سے درس نظامی کی تکمیل کی ۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں راقم عربی کورس بھی کیا ہے۔ اللہ انہیں اپنےوالد گرامی کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی خدمت اور تبلیغ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس بیٹے کو دین کے لئے وقف کیا ان کے فراغت کےسال خود داربقا کی طرف رخت سفرباندھ لیا۔

زندگی کے تلخ حقائق

مولانا نے دین کی راہ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا۔ درختوں کے پتوں سے سبزی بنا کر کھانے اور ایک روٹی کو آٹھ افراد میں بانٹنے جیسے واقعات ان کی قربانیوں کی داستان سناتے ہیں۔اپنی زندگی کی تلخیوں پر مشتمل کئی واقعات سنائے۔میرا دل پسیج گیاتھا تاہم مجھے یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی کہ دین کے راستے میں تکالیف اورتلخیاں لازم ہیں۔

یادوں کی مہک اور ایک چراغ کی روشنی

مارچ 2019 کی ایک خوشبودار شام تھی، پڑی بنگلہ میں ہمارے دوست مولانا حیات خان کے مدرسے میں سالانہ تقریب کا انعقاد ہوا۔ ماحول ایمان کی روشنی سے منور اور روح پرور تھا۔ قاضی نثار احمد مہمانِ خصوصی تھے، جبکہ محفل کی رونق مولانا عیسیٰ خان کی موجودگی سے دوبالا ہو رہی تھی۔ میں اسٹیج سیکریٹری کی حیثیت سے پروگرام کی نظامت کر رہا تھا، اور دل میں ایک پرانی یاد تازہ ہو رہی تھی۔ایک ایسی یاد جو میرے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔ اوراس دن مولاناعیسیٰ خان سےملاقات میرے لئےباعث برکت تھی۔
جب مولانا عیسیٰ خان کو اسٹیج پر بلانے کا وقت آیا تو میں نے اپنے جذبات کو الفاظ کا روپ دیتے ہوئے کہا:
"یہ 1996 کی بات ہے۔ گوہرآباد لسنوٹ مسجد میں ایک تبلیغی اجتماع تھا۔ مولانا عیسیٰ خان اپنی مخصوص شان کے ساتھ تشریف لائے۔ ان کا بیان ایسا تھا جیسے دلوں کے بند تالے کھول رہا ہو۔ بیان کے اختتام پر انہوں نے تمام شرکاء سے ایک وعدہ لیا۔صرف ایک وعدہ، کہ اپنے ایک بچے کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں۔ میرے والد محترم نے بھی وعدے کے طور پر ہاتھ بلند کیا، اور یوں اگلے دن میں نے قاری اشرف حفظ اللہ کی حفظ کی کلاس میں قدم رکھا۔ وہ پہلا قدم ایک سفر کا آغاز تھا، جو جامعہ فاروقیہ میں درسِ نظامی کی تکمیل تک جاری رہا۔ آج میں جہاں ہوں، جو کچھ ہوں، یہ سب مولانا عیسیٰ خان کی دعوت کا ثمر ہے۔”
یہ کہتے ہوئے میرے دل میں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔میں نے یہ بھی گزارش کی کہ آج اپنے مخصوص طرزمیں بیان فرمائیں۔ مولانا عیسیٰ خان جب اسٹیج پر آئے تو ان کی آنکھوں سےٹب ٹب آنسو بہنے لگے۔ ان کی آواز کانپ رہی تھی، مگر یہ کانپنا کمزوری کی علامت نہ تھی، بلکہ ایک دل کی گہرائی سے نکلنے والی دعا تھی۔ انہوں نے فرمایا:

"اگر واقعی مولوی حقانی صاحب کی دینی تعلیم کا سبب میں بنا ہوں، تو یہی میری بخشش کے لیے کافی ہے۔”

مولانا کی باتوں میں ایک نور تھا، ایک روشنی جو دلوں کو چھو رہی تھی۔ مگر ان کی آواز میں وہ جوانی کا طنطنہ، وہ گرج اور جوش اب نہیں تھا۔ زندگی کی مشکلات اور بیماریاں ان کے وجود کو کمزور کر چکی تھیں، مگر ان کا ایمان اور اخلاص پہلے سے زیادہ مضبوط تھا۔
یہ لمحہ میرے لیے ایک سبق تھا۔ ایک انسان کے اخلاص اور نیک نیتی کا اثر کتنی نسلوں تک جاتا ہے، یہ مولانا عیسیٰ خان کی مثال سے واضح ہو رہا تھا۔ ان کی آنکھوں کے آنسو ان کے دل کی سچائی کا مظہر تھے۔
مولانانے میرےلئے بھی خصوصی دعا فرمائی۔انہوں نے اس دن جو دعا دی، وہ میرے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ میں نے اس تقریب سے یہ سیکھا کہ حقیقی کامیابی انسان کے کردار اور اس کے مثبت اثرات میں چھپی ہوتی ہے۔یہی وہ چراغ ہیں جو معاشروں کو روشن کرتے ہیں۔

قاری اشرف سے محبت

مولانا عیسیٰ خان نے بہت سارے علماءو مبلغین سے محبت کا اظہار فرمایا۔تاہم گوہرآباد کےقاری اشرف مدظلہ سے بے تحاشا محبت کا ذکرکیا۔ان کی قرآنی خدمات کے بھی دل سے معترف تھے۔ قاری اشرف نے بھی غربت اور یتیمی میں علم قرآن حاصل کیا۔ پھرمولانافقیرمحمد پشاوری ؒ جیسے عظیم مصلحین سے روحانی تربیت حاصل کی اور سلوک کے منازل طے کیے۔ لازم تھا کہ مولانا عیسیٰ خان جیسی شخصیات قاری اشرف سے محبت کریں۔

علماء کرام کے لیے خصوصی پیغام

اسلام کے علَم بردار، علماء کرام اور نوجوان فضلاء، دونوں ہی معاشرے کی روحانی، اخلاقی، اور فکری رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ آج علماء و نوجوان فضلاء کی ذمہ داریوں اور مقام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔معاشرہ پر لازم ہے کہ وہ علماء کے حقوق کو پہچان لیں۔ مولانا نے علماء کرام بالخصوص نوجوان فضلاء کے نام بہت ساری نصیحتیں کی اور انہیں خصوصی پیغام نوٹ کروایا۔

1۔ علم و تقویٰ کی قدر

علماء کرام کو چاہیے کہ علم اور تقویٰ کی عظمت کو پہچانیں اور اسے صرف اللہ کی رضا کے لیے استعمال کریں۔ علم کا مقصد دنیاوی فائدہ یا حکومتی مقاصد کا حصول نہیں ہونا چاہیے۔ جب علماء اپنے علم کو دنیاوی لذتوں یا حکومتی مفادات کے تابع کریں گے تو علم کی وقعت ختم ہو جائے گی۔

2۔ دین کی خدمت آزادانہ کریں

مولانا عیسیٰ خان رحمہ اللہ کی زندگی اس بات کا عملی نمونہ ہے کہ دین کی خدمت آزادانہ طریقے سے کی جائے، نہ کہ دنیاوی مفادات کے تابع ہو کر۔ انہوں نے کسی کی ماتحتی میں رہ کر علم کو تجارت نہیں بنایا بلکہ خوددارانہ انداز میں دین کی خدمت کی۔کئی جگہوں میں خطابت اور مدرسی کی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے آزادانہ کام کرنے کو ترجیح دیا اورعلماء سے بھی یہی گزارش کی کہ دین کے معاملات میں خود کو کہیں محدود کرنے کے بجائے وسیع پیمانےپرآزادانہ کام کریں۔

3۔ چندہ اور صدقات میں احتیاط

مدارس اور مساجد کے لیے جمع کیے جانے والے چندہ اور صدقات و خیرات میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ان وسائل کو صرف دین کے کام کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ دین کا تقدس مجروح نہ ہو۔

4۔ علم کی حفاظت کریں

اہل علم کو چاہیے کہ وہ علم کو دنیاوی مقاصد کے لیے قربان نہ کریں۔ جب علم کو دنیا والوں کے پاؤں میں رکھ دیا جائے گا تو اس کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔ امام خلیل نحوی، کرخی، اور عبداللہ بن مبارک جیسے اہل علم کی زندگیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، جنہوں نے تنگی اور عسرت کے باوجود علم کو دنیاوی آلودگی سے محفوظ رکھا۔ دوران انٹرویو ان بزرگ علماء کے بہت سارے واقعات سنائیے۔

نوجوانوں سے گلہ اور نصیحتیں

مولانا عیسیٰ خان نوجوانوں سے خوب شاکی تھے۔ وہ نوجوانوں کو تعمیر ملت و ملک کا سب سے اہم ذریعہ سمجھتےتھے تاہم ان کی بے راہ روی اور سستی سے نالاں بھی تھے۔انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

1۔ دین سے دوری

آج کے نوجوانوں نے دین کے راستے کو ترک کر کے دنیاوی چکا چوند کو اپنایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر مغربی طرزِ زندگی کی تقلید کی جا رہی ہے، جو کہ ایک افسوسناک امر ہے۔

2۔ اپنی شناخت پہچانیں

نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ دینِ اسلام کی عظمت کو سمجھیں اور اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزاریں۔ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ دینی ترقی کو بھی مقدم رکھیں۔ جیسے چاہیے دنیا وی تعلیم و ترقی حاصل کریں لیکن دین اسلام اور سنت رسول ﷺ سے جڑیں رہیں۔

3۔شیخ الیاس اور دیگر مشاہیر کے واقعات سے رہنمائی

نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ تبلیغی جماعت کے بانی شیخ الیاس رحمہ اللہ اور دیگر عظیم شخصیات کی دینی خدمات سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان کی قربانیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں اور دین کی خدمت کو اپنا مشن سمجھیں۔اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت ضرور لگائیں تاکہ سماجی کاموں اور سرکاری ذمہ داریوں میں بھی اعتدال حاصل ہو۔

دعا اور نصیحت

آخر میں مولانانےنوجوانوں سے دعاؤں کی اپیل کی کہ ہمیشہ اللہ سے دعائیں مانگتےرہا کریں۔ اپنے لیے بھی دعاؤں کی تلقین کی اور اللہ تعالیٰ سے استقامت اور اخلاص مانگیں تاکہ ہم سب دین کی اصل روح کو زندہ رکھنے والے بن سکیں۔ مولانا نے نصیحتوں کے ساتھ نوجوانوں کو بالخصوص دعائیں دیں۔

مولانا عیسٰی خان کی شخصیت اور خدمات پر تجاویز

مولانا عیسی خان رحمہ اللہ کی زندگی، تبلیغی خدمات اور دینی مشن گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ ان کی شخصیت سے جڑی یادوں اور خدمات کو محفوظ کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ ایک قیمتی سرمایہ ہوگا۔ ذیل میں چند اہم تجاویز پیش کی جا رہی ہیں:

1۔ سوانح عمری کی تدوین

مولانا عیسی خان کی مکمل زندگی، علمی جدوجہد، خطیبانہ مہارت، اور تبلیغی مساعی کو کتابی شکل میں ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ کتاب ان کے بچپن سے لے کر آخری ایام تک کے حالات، خدمات، اور ان کے اثرات کو بیان کرے گی۔ ایسی تصنیف نہ صرف ان کی یاد کو زندہ رکھے گی بلکہ دین کے طلبہ اور علمی شخصیات کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بھی بنے گی۔

2۔ اعلیٰ تعلیمی مقالے

ان کی علمی و دعوتی خدمات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقالے ان کے علمی مقام، خطیبانہ کمالات، اور تبلیغی جماعت میں کردار کو مزید اجاگر کریں گے۔ کسی یونیورسٹی میں ان کے بارے میں تحقیقی کام کا آغاز ہونا ایک مؤثر قدم ہوگا۔گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان علماء جو یونیورسٹیوں سے ایم فل ، پی ایچ ڈیکررہےہیں، وہ بطورموضوع مولاناپرکام کریں۔

3۔ بیانات کی ڈیجیٹل منتقلی

مولانا کے پرانے بیانات جو کیسٹوں میں محفوظ ہیں، ان کو جدید ڈیجیٹل ذرائع جیسے یوٹیوب پر منتقل کرنا ضروری ہے۔ یہ بیانات ان کے خالص اور پراثر انداز کو نئی نسل تک پہنچائیں گے اور ان کے پیغام کو مزید پھیلائیں گے۔

4۔ تقاریر کی تحریری شکل میں تدوین

مولانا کی تقاریر کو شینا اور اردو زبان میں تحریری شکل میں منتقل کرنا ایک ادبی اور دینی خدمت ہوگی۔ یہ کام ان کی شخصیت کو مزید قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا اور شینا زبان و ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ تمام تجاویز مولانا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محفوظ رکھنے اور ان کے پیغام کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ کاوش نہ صرف ان کی یاد کو زندہ کرے گی بلکہ دین و علم کے میدان میں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی بنے گی۔

گلگت بلتستان کا عظیم نقصان

مولاناایک طویل علالت کے بعد16دسمبر 2024 کو گلگت کےپرونشل ہیڈکوارٹرہسپتال گلگت میں انتقال کرگئے۔آخری چارماہ گردوں کے عوارض میں مبتلا رہے اور گردے فیل ہونے کی وجہ سے راہی دار بقا ہوئے۔ اورانہیں ان کےآبائی گاؤں داریل مجوٹ میں دفن کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ مولانا ولی اکبر، امیر تبلیغی جماعت داریل نے پرھائی۔ بلاشبہ ہزاروں لوگوں نے ان کی نمازجنازہ میں شرکت کی۔
مولانا عیسیٰ خان کی وفات گلگت بلتستان کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک معتدل عالم، شاندار خطیب، اور بہترین داعی و مبلغ تھے۔ مولانا عیسیٰ خان کی زندگی علم و عمل کا ایک روشن مینار تھی، جس کا خلا شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہم سب کا فرض ہے۔
مولانا عیسیٰ خان داریلی کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حقیقی کامیابی دین، علم اور خدمت خلق میں ہے۔ آپ کی زندگی علمی سفر، روحانی پاکیزگی، اور معاشرتی خدمت کا حسین امتزاج ہے، جو نہ صرف داریل بلکہ پورے گلگت بلتستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button