کالمز

گاہکوچ کی گمشدہ مُنَقّش چٹانیں 

تحریر: کریم مدد
 بچپن کی جن یادوں پہ گرد کی تہہ موٹی ہوتی جا رہی ان میں سے  اپنے گھر سے چند قدم پہ موجود "لکِھیتے بَٹی” یعنی نقش و نگار والی چٹانوں کا ذخیرہ بھی شامل ہے۔ ذہن پہ زور دینے پہ ایک دریچہ نیم وا ہو جاتا ہے اور دھندلی سی متحرک تصویر تخیل میں ابھرنے لگتی ہے۔
گرمیوں کے موسم میں گاہکوچ بالا نالہ گاہکوچ بالا اور عیشی کو سیراب کر کے اپنا بچا ہوا پانی چند دنوں کے لیے گٹومُس کو بھی عنایت کرتا تھا اور وہ پانی ایک قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے ہمارے گھر کے اوپر موجود چشمے کے قریب ہماری ندی میں شامل ہو جاتا۔
یہی چند دن ہمارے لیے خوشی کے ہوتے کہ ہم بچے وہاں چنار اور بید مجنوں کے درختوں کے نیچے ایک تالاب سا بنا لیتے اور اس میں تیراکی کرتے، پھر اس تالاب سے نکل کے ساتھ ہی موجود ان پتھروں پہ لیٹ جاتے تھے، جن پہ عجیب و غریب نقوش کندہ تھے اور جو تپتی دھوپ میں خوب گرم ہوجاتے تھے۔ ہم کو ان پتھروں کے بارے صرف اتنا پتا تھا کہ ان پہ قدیم زمانے میں کچھ لکھا گیا ہے، نقشے بنائے گئے ہیں اور مارخور کی تصویریں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔ ہم کو مزید کچھ جاننے کی خواہش بھی نہیں تھی۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ یہ پتھر ہمارے جسموں کو تیرنے کے بعد تپش فراہم کرتے ہیں اور ہمارے کپڑوں کو پل بھر میں خشک کر دیتے ہیں۔
وقت گزرتا گیا، گاہکوچ نالے نے اپنی فیاضی کم کرنی شروع کر دی۔ پانی کی بخالت کے حساب سے ہمارا تیرنا بھی کم ہوتا گیا اور "لکِھیتے بٹی” بھی اپنی خدمات سے فارغ ہوئے۔۔۔ یادوں کی البم بہت زیادہ دھندلی پڑ جاتی ہے اور پھر ایک ہی منظر پل بھر کے لیے نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ان پتھروں کو کچھ لوگ توڑ کے لے گئے!!۔۔۔۔ ہم کو تب احساس تک نہیں ہوا کہ یہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔ ہمارے لیے تو وہ پتھر ہی تھے، وہ نہیں لے کے جاتے تو بعد میں کسی "مارتولی” نے ان کو توڑنا تھا تاکہ کسی مکان کی بنیاد ڈالی جا سکے۔
خیر ہمارا بچپن بھی نالے کے پانی کی طرح اپنے انجام کو پہنچا اور اور لڑکپن "لکِھیتے” پتھروں کی طرح مبہم انداز میں گزر گیا اور وہ چٹانیں ہمارے دل و دماغ سے محو ہوئیں۔ 
 
ہماری جوانی پہ بھی حالات اور وقت کے "مارتول” کی ضربیں پڑتی رہیں اور ان مُنَقَّش پتھروں کی صورت خستگی کی نذر ہوئی لیکن اس دوران اپنے علاقے کی تاریخ پڑھنے کا خبط لاحق ہوا۔ گنتی کی چند کتابوں اور مضامین سے پتا چلا کہ ان علاقوں میں کسی زمانے میں بدھ مت کے پیروکاروں کی چہل پہل تھی ۔ یہاں جگہ جگہ اُن کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں؛ پتھروں پہ نقش و نگار، اسٹوپے، مارخور، سنسکرت اور تبتی تحریں۔۔۔۔۔۔۔
لو جی ہمارے بچپن کے "لِکِھیتے بَٹی” یعنی منقش چٹانیں ایک بار پھر ہمارے تخیل کے بیابان میں ابھرنے لگیں اور دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔۔۔۔
دوڑ کے اُسی جگہ پہنچے جہاں یہ پتھر موجود ہوتے تھے۔ کُل ملا کے تین منٹ چلے۔  وہاں پہنچ کے دیکھا تو ایک خوبصوت مکان بنا ہوا ہے۔ دل بیٹھ سا گیا کہ اب وہ پتھر کہاں ہوں گے؟ کوئی سراغ ملے گا ان کا؟ جو لوگ ان کو لے کے گئے وہ کون تھے؟ کس کی اجازت سے لے کے گئے اور کیوں اصل جگہ سے ان کو ہٹایا گیا؟؟ کیا لکھا گیا ہوگا ان پہ؟ ذہن سوالوں کی آماجگاہ بنا رہا لیکن جواب ایک بھی نہیں ملا۔ کتابیں ٹٹولیں، دوستوں سے ذکر کیا, تاریخ پہ نظر رکھنے والے افراد سے بات کی لیکن نہیں پتا چلا کہ اس ذخیرے کا کیا بنا۔ 
پھر اتفاقاً پروفیسر معیزالدین ہیکل کا مقالہ ڈاکٹر تاجور کی وساطت سے موصول ہوا جس میں بوبر سے برآمد ہونے والے بدھا کے مجسمے کا ذکر تھا۔ وہ مقالہ پڑھتے پڑھتے اچانک گٹومُس کا ذکر آیا تو دل بلیوں اچھلنے لگا، آنکھیں نم ہوئیں اور دماغ میں ماضی کی فلم چلنے لگی۔ کئی بار مقالہ پڑھا جس میں بہت تفصیل کے ساتھ ان "لکیھتے” پتھروں کا ذکر موجود ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اب وہ پتھر کہاں ہیں اور ان پہ کیا کیا درج ہے۔ ساتھ ہی ان پتھروں کی ڈرائنگ بھی موجود ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ  بڑھاپے کی دہلیز پہ کھڑے شخص کی زندگی پیچھے کی طرف چلنے لگی ہو اور ایک پل بھر میں اس کو بچپن میں لا کھڑا کیا ہو جہاں وہ بغیر قمیض کے تالاب میں تیر رہا ہے اور اس کی قمیض پاس ہی موجود ایک بھورے رنگ کی چٹان پہ پھیلی ہوئی ہے اور اس قمیض نے چٹان پہ کندہ مارخور کی تصویر کو ڈھانپ دیا ہو۔۔۔۔
مقالے کے مطابق دس سے زائد پتھروں پہ مشتمل یہ نادر ذخیرہ سات سو پچاس عیسوی کے لگ بھگ بدھ مت دور میں تراشا گیا ہے۔ اس ذخیرے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں یہاں بدھ مت اور تبتی ثقافت کس درجہ اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ 1992 میں سڑک کی تعمیر کا بہانہ بنا کے اِن پتھروں کو توڑ کے محکمہ سیاحت نے گلگت منتقل کیا۔  بقول مقالہ نگار اب ان میں سے بیشتر پتھر گلگت میں آرکیالوجیکل سیکشن میں موجود ہیں، دو پتھر اسلام آباد منتقل ہو چکے ہیں، دو پتھر سابقہ اے آئی جی علی احمد جان کے پاس ہیں اور ایک پتھر بڈلف لائبریری گلگت میں رکھا گیا ہے۔
علی احمد جان وہی شخص ہیں جو بوبر سے برآمد شدہ مجسمے کو بھی نگر لے کے گئے تھے۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ پتھر محکمہ سیاحت کی تحویل میں تھے تو ان میں سے دو پتھر نگر میں کسی کے نجی عجائب گھر کی زینت کیسے بنے؟
مقالہ نگار کے مطابق یہ پتھر سب سے پہلے جرمن محقق کارل جیٹمار نے گٹومُس میں دریافت کیا۔ گٹومُس اب غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ کا ایک محلہ ہے جو ایک ایسے چشمے پہ آباد ہے جس کا پانی اپنی شفافیت، گرمیوں میں اپنی ٹھنڈک اور سردیوں میں اپنی گرم ہونے کی خصوصیت کے سبب مشہور ہے۔ اس چشمے سے چند قدم دور جہاں سے گاہکوچ بالا اور عیشی کی طرف سڑک مڑتی ہے اُسی موڈ پہ اِن نایاب پتھروں کا مسکن تھا۔ یہ زمین طایو چچا کی ملکیت تھی لیکن اب کسی اور فرد نے خرید کے اس پہ مکان  تعمیر کیا ہے۔ 
جن پتھروں پہ ہم کو کچھ دائرے اور لکیریں نظر آتی تھیں اب جا کے معلوم ہوتا ہے کہ ان پہ کتنے خوبصورت نقش و نگار بنے تھے اور کتنے گہرے، شاعرانہ اور دل کو لبھانے والے جملے درج ہیں۔
اکثر پتھتروں پہ بدھ مت کی عبادت گاہ اور مذہبی علامتیں کندہ ہیں۔ اسٹوپا، اس پہ لہراتا علم اور کنول کے پھول خوبصورتی سے بنے ہوئے ہیں۔ ایک پتھر پہ مارخوروں کا ایک ریوڑ دکھایا گیا ہے۔ ایک دو پتھروں کے علاوہ ہر پتھر پہ تبتی اور سنسکرت میں چند جملے تحریر کیے گئے ہیں۔
ایک پتھر پہ لکھا گیا ہے؛ 
"جھکا ہوا آدمی عزت و وقار اور جلال سے مرتا ہے۔”
 کتنا پر اثر، کتنا آفاقی جملہ ہے۔ انکساری، عاجزی اور متانت انسانیت کی آفاقی اقدار میں سے ایک ہے۔  وہی انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے جو فخرو غرور سے دور رہتا ہے اور جھک کے ہر ایک کے ساتھ ملتا ہے۔
کسی شاعر کا شعر ہے۔
جو اعلٰی ظرف ہوتے ہیں، ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی  سرنگوں  ہو کر  بھرا  کرتی ہے  پیمانہ
ایک اور پتھر پہ تبتی زبان میں یہ لازوال اور کئی نظریات اور اشعار پہ بھاری جملہ تحریر ہے ؛
"غلامی کے اُس کنول کے پھول کو سلام جس کی جڑیں امرت دھارا میں پیوست ہوں۔”
نہیں معلوم یہ جملہ اُس زمانے کی کسی مقدس کتاب سے لیا گیا ہے یا پھر اُس دور کے کسی مشہور شاعر کا خیال ہے یا پھر لکھنے والے کا اپنا تخیل ہے۔ اگر یہ لکھنے والے کا اپنا تخیل ہے تو یقیناً جن پتھروں پہ ہم اپنی قمیص خشک کرتےتھے ان پہ اپنے زمانے کا کوئی بہت ہی پہنچا ہوا علم و ادب کا پیکر بیٹھا ہوا ہوگا، اس کے تخیل کی اڑان کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے لیکن ان چند الفاظ پہ غور کریں تو کئی مذہبی و فلسفیانہ نظریات کا رنگ ان الفاظ میں جھلکتا ہے۔
بدھ مت میں امرت دھارا (سوما) کا وہی مقام ہے جو اسلام میں آب حیات کا ہے۔ روایت ہے کہ اس مائع کو پینے کے بعد انسان امر ہو جاتا ہے۔ اب جملے پہ غور کریں کہ کنول کا پھول ہمیشہ کی زندگی کا غلام بن چکا ہے کیونکہ کہ اس کی جڑیں امرت دھارا میں پیوست ہیں۔ یہ بات پھول کے لیے باعثِ مسرت نہیں کیونکہ پھول اِس لیے خوبصورت ہوتا ہے کہ وہ چند دنوں کا مہمان ہوتا۔ اب اگر یہ امرت دھارا کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا تو یہ بات پھول کے لیے غم کی بات ہے۔ اسی طرح انسان کی عظمت اس حقیقت میں ہے کہ وہ زندگی کا ہمیشہ کے لیے غلام نہیں بلکہ اس نے مرنا ہے۔ جو شخض آب حیات پی لے تو ایسے شخص کے لیے زندگی کی غلامی مبارک ہو اور ہماری طرف سے اس غلام انسان کے حضور سلام عرض ہے۔ جملے میں ایک بہت بڑی حقیقت کا اظہار، دکھ کی جھلک اور مذہبی و اساطیری روایات موجود ہیں نیز سلام کا لفظ طنزیہ محسوس ہوتا ہے۔
میر نے کہا تھا:
 کہا مَیں نے کتنا ہے گُل کا ثَبات
کلی  نے  یہ  سن کر  تبسم  کِیا
ایک اور پتھر پہ یہ تخیلاتی جملہ درج ہے؛
"مالک کے نکالے جانے کے بعد بیمار اور اکلوتی پہاڑی بکری دریا کے پاس سے نکلی اور ایک تنگ راستے سے ہوتے ہوئے ماں کی جانب چل پڑی”
تیرہ سو سال قبل لکھا گیا یہ جملہ آج کے کسی بڑے ادیب کے افسانے کا اقتباس لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فطرت کے حسین مناظر کی آغوش میں پلی بڑھی، والدین کی لاڈلی، مارخور کی طرح مست، خوبصورت اور ناز و انداز لڑکی کا قصہ لکھا جا رہا ہے جو کسی پہاڑی گاؤں میں رہتی ہو ۔ پھر پہاڑوں سے دور دریا کے پاس کسی شہر میں اس کی شادی ہوئی ہو جہاں اس کی خوشی، مسکراہٹ، خوبصورتی، مستی اور صحت سب کچھ نچوڑ لیا گیا ہو اور پھر اس کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہو۔ اب وہ اکیلی بیمار اپنا سب کچھ لٹا کے تنگ،  مشکل اور کانٹوں بھرے رستے پہ اپنا واحد سہارا، اپنی ماں کی طرف محوِ سفر ہو۔۔۔ یہ جملہ پڑھ کے محسوس ہو رہا کہ ہادی رسوا نے اپنے مشہور ناول امرا وجان ادا کا مرکزی خیال اس جملے سے لیا ہوگا۔ ایک اور حقیقت اس جملے سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ انسان ہر رشتے سے مایوس ہو سکتا ہے لیکن ماں سے کبھی بھی مایوس نہیں ہو سکتا اور آزماشوں میں ماں کی آغوش ہی واحد جائے پناہ نظر آتی ہے۔
ایک اور چٹان جس پہ ہم نے کئی بار لیٹ کے اپنے جسم کو تپش پہنچائی اس پہ بیٹھ کے کسی نے تیرہ سو سال پہلے لکھا ہے؛
” میرے بیمار شوہر کے چہرے کے لیے مدرا۔۔۔۔ "
مدرا بدھ مت میں مراقبہ کے دوران جسم کے مختلف اعضا خاص طور پہ ہاتھوں کی حرکات و سکنات کو کہا جاتا ہے۔ آسن یا یوگا سمجھ لیں۔ ۔۔ تخیل کی چڑیا خبر دیتی ہے کہ یہ جملہ کسی خاتون نے لکھا ہوگا جس کا شوہر بیمار پڑا ہے۔ بظاہر یہ جملہ کوئی خاص اہم نہیں لیکن غور کرنے سے یہ نکتہ کھل جاتا ہے کہ جن علاقوں میں آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ہزار مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں وہاں تیرہ سو سال پہلے ایک خاتون اتنی تعلیم یافتہ تھی کہ آسن اور یوگا کی اصطلاحات اور استعمال سے نہ صرف واقف تھی بلکہ ان کو تحریر بھی کر سکتی تھی۔
ایک پتھر پہ یہ جملہ بھی کندہ ہے؛
"میرے سارے پرانے دانت ٹوٹ چکے ہیں۔ بے شک ان میں سے بہت سے ماں کے لیے برائے نام مدد گار ہیں وہ جلد زمین پہ ٹوٹ کر گریں گے.”
اس جملے میں موجود خیال تک رسائی ممکن نہیں کہ یہ کوئی علامتی جملہ ہے یا سادہ جملہ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ماں کے لیے فکر مندی پائی جاتی ہے۔ اپنے دانتوں کے گرنے سے زیادہ پریشانی اس بات میں نظر اتی ہے کہ سب زمین پہ گر گئے تو ماں کے لیے عارضی مدد بھی باقی نہیں رہے گی۔۔۔ اب دانتوں سے ماں کی کیسی مدد ہو رہی تھی اس کے لیے تیرہ سو سال پہلے اس جگہ پہنچنا ہوگا جہاں اب ایک پکا مکان بن چکا ہے، جس کے ایک پہلو سے پکی سڑک کھٹلکی داماس کی طرف نکلتی ہے اور پاس ہی چشمہ ہے اور سامنے سے ایک پکی سڑک گاہکوچ بالا اور عیشی کی طرف جاتی ہے۔ مکان میں رہنے والے انجان ہیں کہ جہاں وہ رہ رہے ہیں وہاں کبھی ایسی منقش چٹانیں تھیں جن پہ آفاقی تخیل کے حامل اور شاعری سے زیادہ پر اثر جملے درج تھے اور اسٹوپا اور مارخوروں کے ریوڑ کی تصویریں کندہ تھیں۔
منقش چٹانوں کے مسکن جہاں اب ایک مکان بنا ہے اس کے سامنے آج جب میں نے اپنی سیلفی لی تو ایک ہی خیال دل میں تھا کہ کسی بھی انسان کی جڑیں امرت دھارا میں پیوست نہیں ہوتیں کہ وہ زندگی کا غلام بن کے ہمیشہ یمیشہ کے لیے باقی رہے۔ اس لیے انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں تاکہ وہ جلال کے ساتھ مر سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button