کالمز
انسانی شعور اور بنیادی طبقات
بطور انسان اردگرد پیش آنے والے حوادث و واقعات پر ہر انسان کی رائے قائم ہوتی ہے۔ چاہے یا نہ چاہے۔ کسی معاملے کا سن کر بعض کو اچھا لگے گا اور بعض کو برا۔ اس صلاحیت کا نام شعور ، consciousness ہے۔ شعور اسی لئے ذہانت ، intelligence سے بڑے رتبے کا نام ہے۔ جس طرح انٹلیجنس بعض صورتوں میں انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات میں قدرت نے ودیعت کردی ہوئی ہے اسی طرح سے شعور بھی بعض صورتوں میں دوسرے جانداروں کے اندر بھی رکھی گئی ہے۔ مثلا آپ بکری کی جانب کھانے کی کوئی چیز پھینک دے تو وہ فورا اسکی جانب لپکتی ہے، لیکن اگر پتھر پھینکنے لگو تو اسکا شعور اسے خطرے سے آگاہ کرتا ہے اور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔ اپنے جیسے کسی بکری پر کوئی درندہ یا شکاری حملہ آور ہو تو وہ خود کو بچانے کیساتھ آواز بھی لگاتی ہے تاکہ دوسری بکریاں متوقع خطرے سے آگاہ ہو۔
شعور ماپنے کا فارمولا سماجی سائنسدان "درد کے احساس، suffering” سے جوڑتا ہے۔ مثلا انسان کسی کے اوپر زیادتی ہوتا دیکھے تو اپنے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ کسی کو برے القاب سے نوازے تو اسے سن کر محسوس برا کرتا ہے، کوئی کسی کی بابت برا سوچے، برا رویہ رکھے جو صرف آنکھوں سے نظر آئے تو اسے بھی محسوس کرتا ہے۔ یعنی یہ حواس خمسہ سے بھی اوپر کی منزل ہے۔ جسکا تعلق انسان کے دل و دماغ سے جڑا ہے۔ فطری طور پر ہر انسان بلا تفریق ذات و مذہب، اچھے کو اچھا اور برے کو برا ہی سمجھتا ہے۔ یا ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے فطری طور پر انسان کو درد اور ناگواری محسوس وہ برا کام ہے، اور جس کام سے فطری طور پر درد محسوس نہ ہو وہ اچھا۔ لیکن دل اور دماغ میں موجود اس فطری صلاحیت کو انسان اپنی تعلیم و تربیت اور ماحول سے ترتیب دی ہوئی الگوریتھم کے ذریعے سے عادت بنالے، وہ اسے اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے پر لگا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو قبائل، ذات، سیاست، جماعت، مذہب، علاقہ، ماحول، خاندان، تعلقات وغیرہ کی بنیاد پر وقت کیساتھ مختلف زاویوں پر بدل رہا ہوتا ہے۔ چونکہ شعور کی بحث فلسفی ہے، جوکہ اب مصنوعی ذہانت artificial intelligence کے دور میں انسانوں اور جانوروں سے ہٹ کر اب مشینوں تک پھیل چکی ہوئی، تو ایسے میں اس کی مثالیں مزید پیچیدہ ہوتی جائیں گی۔
اس بنیادی زمینے کیساتھ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تین اقسام کے انسان بستے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے شعور کا اظہار کرتے ہیں، منفی یا مثبت، اپنی جگہ۔ اپنی ذات سے لیکر عالمی امور تک پر احساسات کو بطور انسان دیکھتا، محسوس کرتا، اور ردعمل دے رہا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ ان حوادث و واقعات کی بابت جو پروگرام وغیرہ منعقد کرتے ہیں، فورمز، کلاسز، وغیرہ، ان میں جو اظہارات ہوتے ہیں، وہ بنیادی طور پر اسی پہلی کیٹیگری میں شامل سمجھ سکتا ہے۔ یعنی بطور انسان یہ حالات و واقعات اور حوادث و مشاہدات پر اپنی رائے قائم کرتے، اور اس سے ایک دوسرے کیساتھ بیان کرتے، رد عمل دیتے ہیں۔ دوسرا وہ بڑا طبقہ ہے جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ کھاتا پیتا، سوتا جاگتا، بچے پیدا کرتا، گھر بار دیکھتا، صحت تعلیم وغیرہ پر دھیان دیتا، معمول کی ملازمت، کاروبار، وغیرہ سے کمائی کررہا ہوتا ہے۔ لیکن کہیں کچھ ہو جائے ، کوئی حادثہ، واقعہ، حملہ، یہ زبان سے ایک لفظ نہیں نکالتا۔ کہیں ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ اچھا ہوا یا برا۔ کچھ برا ہوا تو افسوس بھی نہیں اور کچھ اچھا ہوا تو شاباشی بھی نہیں۔ آں اونگ کرکے پھر سے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ شعور کو اس رویئے کا عادی بنانے والا طبقہ پھر ہمیشہ اسی رویئے پر قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ خود اسکے اپنے ساتھ یا اپنے اردگرد میں کچھ انہونی نہ ہوجائے۔ ہم بیشتر ایسے لوگوں کو یقینا جانتے ہیں۔ بلا تفریق ذات و مذہب ہر جگہ یہ طبقہ دستیاب ہے۔ جو کہ بے ضرر رہتا ہے۔ ان سے کسی غلطی کے انجام دینے والے کو کسی مزاحمت یا مخالفت کا خطرہ ہے نا کسی مظلوم و محکوم کو داد رسی کی امید۔ یہ اپنی زندگی میں مگن ہے جبتک ملک الموت روح قبض کرکے اسکے بدن سے شعور سے خالی نہ کردے۔ ایک تیسرا طبقہ بھی اس پہلے طبقے کی طرح جو بنیادی طور پر ردعمل کا عادی ہوتا ہے، البتہ یہ کنٹرولڈ ردعمل کا ہنر بھی جانتا ہے۔ اس طبقے کو عام فہم الفاظ میں لوگ سنجیدہ، باشعور، وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی جو اس فن سے بخوبی واقف ہے کہ ردعمل سے اسے کوئی مخالفت اور مشکلات کا سامنا نہ پیش آئے۔ اپنے ساتھ اسکے ہم فکر افراد محفوظ رہے۔ کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ کوئی دشمنی نہ مول لینا پڑے۔ مثلا ایسے لوگ جو سب کو خوش رکھنے کا فن جانتا ہے۔ ہر ایک کی تعریف کا گر جانتا ہے۔ وہ کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جہاں کسی کو خوش کرانے والا معاملہ ہو۔ لیکن اگر کسی کی غلطی نظر آئے، کسی نے کسی کا نقصان کیا ہو، کوئی حق مارا گیا ہو، تو کبھی اسکی مذمت نہیں ہوگی۔ کیونکہ یقینی سی بات ہے کہ اسکی مذمت کے بعد غلطی کرنے والے کے سامنے اسکی حیثیت پہلی جیسی نہیں رہیگی۔ سو یہ رسک ہرگز نہیں لینا۔ ہمشیہ سب کے سامنے منظور نظر ہی رہنا ہوتا ہے۔ چاہے اگلا چور ہو، بدمعاش ہو، راشی ہو، زیادتی کرنے والا اور قاتل ہی کیوں نہ ہو۔ بہت تھوڑے سے فرق کیساتھ اسی طبقے میں ان تمام لوگوں اور رہنماؤں کو شامل کیا جاسکتا ہے جو محفوظ رہتے ہوئے کنٹرولڈ مخالفت اور مذمت کا ہنر بھی جانتا ہے۔ گھر سے لیکر عالمی امور تک میں ایسے محفوظ ٹھکانوں سے خوبصورت الفاظ اور انداز میں ایسے ردعمل دیتے ہیں کہ دیکھنے میں سخت مخالفت اور ناپسندیدگی کا اظہار لگے لیکن دراصل وہ ایک حد کے اندر اور اگلے کیلئے بے ضرر تنقید و مخالفت ہوتی ہے۔ درحقیقت بیشتر بے ضرر اور واجبی نقد حسب ذائقہ اور حسب خواہش بھی کی جارہی ہوتی ہے تاکہ عام عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے غلط کار کی بڑی خیانت اور برائی کو سخت رد عمل بچائی جاسکے۔ اس تیسرے طبقے کا کردار سماج اور دنیا کیلئے عام معاملات سے لاتعلق رہنے کے عادی افراد اور کھل کر منفی و مثبت رد عمل دینے والوں سے زیادہ سنگین اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ کھل کر رد عمل بیشک اچھے کو برا اور برے کو اچھا کہہ کر دے، اسکی پہنچان ہوتی ہے۔ مثلا قاتل اور ظالم کے قتل و ظلم کی کوئی تعریف کرتا ہے تو عام آدمی اسے ویسا ہی سمجھ لیتا ہے۔ لیکن کنٹرولڈ تنقید اور برائے نام مخالفت جب محفوظ ہوکر کی جائے تو دیکھنے میں مخالف لیکن درحقیقت موافق ہوتا۔ جس کا اصل چہرہ اور نیت عام لوگوں کو سمجھنا مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوجاتا۔ شعور کا یہ اصل امتحان انسانی تاریخ کا دائمی المیہ رہا ہے۔
یکم جنوری 2025۔