محنت کی معراج…. ایک باپ کی تین بیٹیاں ڈاکٹر
گوہرآباد دیامر کی پرخلوص فضا میں قاضی خان فیملی کی تین بیٹیوں کی کامیابی ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو محنت، لگن اور استقامت سے حقیقت میں بدلا۔ ہمارے برادرم انجینئر ضیاء الرحمان کی تین بیٹیاں ڈاکٹری کے میدان میں کامیابی کے ساتھ قدم رکھ چکی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی طیبہ ضیاء پہلے سے ڈاکٹری کا کورس کررہی ہے جبکہ دو اور بیٹیاں ادیبہ ضیاء اور سمیرا ضیاء ڈاکٹری کے لئے سیلکٹ ہوگئی ہیں۔ مبارک ہو۔
یہ صرف گوہرآباد یا دیامر نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کے لیے فخر کا لمحہ ہے کہ ایک مڈل کلاس فیملی نے تعلیم کے میدان میں ایسی شاندار کامیابی حاصل کی۔
انجینئر ضیاء الرحمان، جو حکومت گلگت بلتستان میں ایکسیئن کے عہدے پر فائز ہیں، گوہرآباد کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم چاچا عبدالرحمن اپنے وقت کے معروف ٹھیکیدار اور سیاستدان تھے، جبکہ ان کے تایا قدم خان مرحوم گلگت بلتستان کی مشہور شخصیات میں سے تھے۔ ان کے چچا سپروائزر عبدالقیوم بھی گوہرآباد کی نمایاں شخصیت تھے۔ ہم سب ایک ہی محلے میں رہتے ہیں، اور ان کا خاندان ہمیشہ شرافت، محنت اور خدمت خلق کی علامت رہا ہے۔ گوہراباد کے اعتبار سے یہ فیملی انتہائی روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہے۔
انجینئر ضیاء کی اہلیہ، میرے محترم استاد نجم خان کی بڑی صاحبزادی ہیں۔ استاد نجم خان سے میں نے ہائی گورنمنٹ اسکول چلاس میں آٹھویں جماعت کی انگریزی پڑھی۔ سرکاری کالونی چلاس میں ہم ایک طویل عرصہ ہمسایہ رہے ہیں۔ گھر کی دیواریں لگی ہوئی تھی اس لئے ہم روز ان کے گھر جاتے تھے، استاد نجم خان ایک معمولی سرکاری ملازم تھے۔ ان کی بہت بڑی فیملی تھی، مشکل سے گزارہ کررہے تھے۔ تاہم اپنے بیٹے بیٹیوں کو جس خلوص اور لگن سے تعلیم دے رہے تھے وہ اپنی مثال آپ تھی۔ استاد نجم خان کا خاندان علم اور محنت کا پیکر ہے۔ ان کا بیٹا بخت اعظم آج پی آئی اے میں بطور ائیرکرافٹ انجینئر خدمات انجام دے رہا ہے، جبکہ ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر اعظم رش، چلاس ہسپتال میں طب اطفال کے ماہر ہیں۔
برادرم ضیاء الرحمان کی اہلیہ خود بھی ایک سکول ٹیچر ہیں اور انہوں نے اپنی تینوں بچیوں کی تعلیم و تربیت میں بھرپور محنت کی ہے۔ ان کی تین بیٹیوں کا ڈاکٹری کے میدان میں آنا نہ صرف قاضی خان فیملی کے لیے بلکہ پورے علاقے کے لیے باعث فخر ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت اور استقامت سے کوئی بھی خواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان تینوں بچیوں کی کامیابی، ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ چاہے حالات جتنے بھی مشکل ہوں، اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور ان کی راہنمائی کریں، تو وہ کامیابی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان بچیوں کو ان کے پیشہ ورانہ میدان میں مزید کامیابیاں نصیب فرمائے اور ان کے علم و ہنر کو معاشرے کی خدمت کے لیے استعمال کرے۔
گوہرآباد کی قاضی خان فیملی ایک روشن خیال فیملی ہے۔ قدم خان مرحوم نے شاید جی بی میں پہلی سنیما قدم ٹاکیز کے نام سے اوپن کیا تھا اور وہ دیامر کے پہلے میٹرکولیٹ بھی تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سپروائزر عبدالقیوم نے اپنی آپ بیتی لکھی ہے جو تاحال طباعت سے محروم ہے۔ قدم خان مرحوم کے پوتے زاہد شاہ مرحوم نے گوہرآباد مارتل میں پہلی بار سپورٹ گالا اور کلچر فیسٹیول منعقد کیا تھا اور ان کی بڑی پوتی محترمہ فرحت رحمت میر، دیامر میں خواتین ایجوکیشن کے لیے مہم چلاتی ہیں اور مختلف چینلز میں گفتگو بھی کرتی ہیں۔ قاضی خان فیملی کے نوجوان ارشد جگنو دیامر میں جدید آئی ٹی سکلز سکھانے میں سرفہرست ہیں اور سوشل میڈیا میں اپنی روشن خیال پوسٹوں سے معروف ہیں۔ اسی طرح قاضی خان فیملی کے نامور سپوت انجینئر ضیاء اور اس کی قابل قدر بیٹیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی یہ فیملی اپنے جھنڈے گاڑھ دے گی۔ انجینئر ضیاء کی تینوں بیٹوں کا ڈاکٹر بننے کا کریڈٹ اصل میں ہمارے استاد محترم نجم خان کی صاحبزادی اور انجنئیر ضیاء کی اہلیہ محترمہ کو جاتا ہے۔ اگر مائیں حساس اور سنجیدہ ہوجائیں تو اولاد کمال کو پہنچ سکتی ہیں۔ آج واضح ہوا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ کی طرح، ہر کامیاب بیٹی کے پیچھے بھی ایک عورت یعنی ماں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔