کالمز

گانچھے ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟

تحریر: محمد علی عالم

ضلع گانچھے گلگت بلتستان کا ایک انتہائی اہم اور حساس علاقہ ہے، جو اپنی جغرافیائی، دفاعی اور سیاحتی حیثیت کے باعث خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ یہاں سیاچن سیکٹر، جو دنیا کا بلند ترین محاذ ہے، سمیت پاکستان کی انتہائی شمالی سرحدیں موجود ہیں، جس کے باعث یہ ضلع دفاعی لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی حسن سے مالامال یہ خطہ سات سو سال قدیم چقچن مسجد، خپلو فورٹ، سیاحتی مقام ہوشے، مشہ بروم، سیاچن گلیشیئر اور گشہ بروم پیک جیسے دلفریب سیاحتی مقامات کا حامل ہے، جو ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔

گانچھے کے عوام نے ہر دور میں جمہوری عمل میں بھرپور حصہ لیا اور مختلف سیاسی جماعتوں کو آزمایا۔ لیکن جب ترقیاتی منصوبوں اور بنیادی سہولیات کی بات آتی ہے تو گانچھے ہمیشہ سے نظرانداز ہوتا آیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے عوام کو آج بھی خستہ حال سڑکوں، تعلیمی اداروں کی کمی، صحت کی ناقص سہولیات اور سیاحتی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

اگر سیاسی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو گانچھے کو ہمیشہ اقتدار میں حصہ ملا ہے۔ ہر حکومت میں یہاں کے نمائندے اعلیٰ عہدوں پر موجود رہے، لیکن ترقی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے۔

2009-2014 تک پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے دورِ حکومت میں گانچھے سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات، محمد جعفر اور انجینئر محمد اسماعیل، نے صوبے میں بحیثیت وزیر اپنی خدمات انجام دیں، جبکہ چیئرمین ابراہیم کونسل میں وزیرِاعظم کے مشیر تھے۔

2015-2020 تک مسلم لیگ (ن) کے دور میں گانچھے کے چار وزراء محمد ابراہیم ثنائی، محمد شفیق، بعد میں میجر (ر) محمد امین اور غلام حسین ایڈووکیٹ حکومت میں شامل رہے، جبکہ سلطان علی خان کونسل اور شیرین اختر اسمبلی ممبر تھے۔

2020-2024 تک پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے دور میں گانچھے کے دو وزراء حاجی عبدالحمید اور مشتاق حسین کابینہ کا حصہ تھے۔

2024 کے بعد گلگت بلتستان میں بننے والی موجودہ مخلوط حکومت میں بھی گانچھے سے تین وزراء، مشتاق حسین، حاجی عبدالحمید اور انجینئر اسماعیل، کابینہ میں شامل ہیں۔

یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ گانچھے کو ہمیشہ اقتدار میں نمائندگی تو ملی، مگر عوام کے مسائل وہیں کے وہیں رہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان وزراء کی موجودگی سے عام شہریوں کو کوئی فائدہ ہوا؟ افسوس کے ساتھ، اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔

سکردو تا خپلو روڈ، یعنی شاہراہ سیاچن، واحد زمینی راستہ ہے جس سے گانچھے کا دیگر اضلاع سے رابطہ استوار ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ آج بھی خستہ حالی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سفر کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ یہ شاہراہ دفاعی نقطہ نظر سے بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ پاک فوج کے اہم سیکٹرز اور سیاچن سے جُڑتی ہے۔ روڈ کی خستہ حالی کے باعث نہ صرف مقامی افراد بلکہ سیاحوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے علاقے کی سیاحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ جب گانچھے کے پاس ہمیشہ وزراء موجود رہے، تو اس اہم سڑک کو بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟

اگر ضلع میں تعلیمی بحران پر بات کریں تو گانچھے میں تعلیمی سہولیات کی کمی ایک بڑا المیہ ہے، جس نے یہاں کے نوجوانوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ لڑکوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے محدود ہیں، لیکن لڑکیوں کے لیے حالات اور بھی بدتر ہیں۔ پورے ضلع میں ایک بھی انٹر کالج نہیں ہے جہاں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پورے ضلع میں ڈگری کالج کا بھی فقدان ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کو سکردو یا دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

گانچھے کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان میں تین دانش اسکول بنانے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے ایک گانچھے میں بنانے کا فیصلہ ہوا، لیکن بعد میں اسے شگر منتقل کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ گانچھے کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اس فیصلے سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ یہ ضلع تعلیمی لحاظ سے پہلے ہی شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ اگر یہاں ڈگری کالج، انٹر کالج اور جدید تعلیمی ادارے نہیں ہوں گے، تو یہاں کے نوجوان کیسے ترقی کر سکیں گے؟

سیاحت کے حوالے سے حکومتی بے حسی دیکھیں کہ گانچھے کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی حسن اور سیاحتی مقامات سے نوازا ہے، لیکن حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحتی ترقی میں دیگر اضلاع سے پیچھے رہ گیا ہے۔ 2024 میں بلتستان میں چار لاکھ سے زائد سیاح آئے، لیکن گانچھے میں آنے والے سیاحوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاہراہ سیاچن سمیت ضلع کے مختلف علاقوں کی سڑکیں تباہ حال ہیں اور یہاں ہوٹلنگ اور دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔ چقچن مسجد، خپلو فورٹ، تھلے بروق، ہوشے، مشہ بروم، سیاچن اور گشہ بروم پیک جیسے متعدد سیاحتی مقامات موجود ہیں، لیکن ان تک پہنچنا ایک مشکل کام ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت واقعی سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے، تو پھر گانچھے کو نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے؟

گانچھے کے عوام نے ہر دور میں بڑے بڑے دعوے اور وعدے سنے، لیکن جب عمل کی بات آئی تو ترقیاتی منصوبے فائلوں میں دب کر رہ گئے۔ عوام اپنے سیاسی نمائندوں سے کچھ سوال کرتے ہیں:

  • سکردو تا خپلو روڈ کب مکمل ہوگا؟
  • لڑکیوں کے لیے انٹر کالج کب بنے گا؟
  • گانچھے میں ڈگری کالج کب قائم ہوگا؟
  • رابطہ سڑکوں کی مرمت کب ہوگی؟
  • سیاحت کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟
  • گانچھے کے لیے مختص دانش اسکول کو شگر منتقل کیوں کیا گیا؟

اس کے علاوہ، ہر الیکشن میں تینوں حلقوں سے متعدد امیدوار آتے ہیں اور ووٹ لینے کے بعد پورے پانچ سال غائب رہتے ہیں۔ ان محرومیوں اور حقائق کے پیش نظر، اب ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں گانچھے کے عوام اپنے مفاد کے فیصلے خود کریں گے۔ اگر ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل نہیں ہوئے تو اگلے انتخابات میں عوام اپنے نمائندوں سے سختی سے حساب لیں گے۔ سیاستدانوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ گانچھے کے عوام اب مزید دھوکہ برداشت نہیں کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ گانچھے کے لوگ اپنی محرومیوں کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ یہ علاقہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہو سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button