کالمز

مفتی محمد نذیر خان….. ایک نابغۂ روزگار شخصیت

خاطرات : امیرجان حقانی

آج میں آپ کو ایک غیرمعمولی شخصیت سے متعارف کرانے جا رہا ہوں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی شخصیت ایک گہرے سمندر کی مانند ہے، جس کی ہر تہہ میں علم، دانائی اور بصیرت کے گوہر پوشیدہ ہیں۔

ان کی شخصیت کی کئی پرتیں ہیں، جیسے کسی نایاب ہیرے کے کٹاؤ، اور ہر پہلو اپنی جگہ بے مثال اور تابناک ہے۔ ان کی گفتار میں سچائی، کردار میں استقامت اور سوچ میں گہرائی کی وسعت ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں، روشنی بکھیرتے ہیں اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔

یہ وہ شخصیت ہیں جو اپنے علم، اخلاق، نالج، لسانی مہارتوں، طنز و مزاح اور وسعت فکر و نظر سے دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی زندگی جدوجہد، جدو جہد اور جدوجہد کی روشن مثال ہے، اور ان سے ملنے والا ہر شخص نیا عزم اور نیا حوصلہ لے کر لوٹتا ہے۔

میری مراد علم، تحقیق، تدریس اور اسلامی مالیات میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے نابغۂ روزگار شخصیت مفتی محمد نذیر خان ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے علاقے ہاتون سے ہے۔ ان کے اباواجداد کوہستان سے آکر یہاں بسے ہیں۔ ان کی علمی و فکری زندگی عزم، محنت اور غیر معمولی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو نہ صرف علمی میدان میں کامیابی کے اعلیٰ زینے طے کرتا گیا بلکہ فقر سے فراخی اور مشکلات سے کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی شاندار مثال بن گیا۔ آج بہت سے نوجوان اور مدارس کے فضلاء ان کی طرح کیریئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ بہت سارے ان کو فالوکرتے ہیں ۔

علمی سفر اور تخصصات

مفتی نذیر خان نے دینی علوم کی ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن سے شروع کی اور جامعہ فاروقیہ کراچی سے درسِ نظامی مکمل کیا۔ ہم نے تین سال جامعہ فاروقیہ میں ساتھ گزارے، تب کی شرارتیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد درس و تدریس کے ساتھ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے تاریخ اور صحافت میں بی اے کیا، لبنان کی طرابلس یونیورسٹی سے بی ایس شریعہ اینڈ اسلامک کمرشل لاء ڈگری حاصل کی، جہاں ان کا تحقیقی مقالہ "بٹکوئن” کے موضوع پر تھا۔ ظاہر ہے کہ علمی تشنگی باقی تھی، اسی علمی تشنگی نے انہیں استنبول یونیورسٹی کی طرف راغب کیا، جہاں انہوں نے ایم فل مکمل کیا، ان کا مقالہ "المقارنة بين القروض الربوية و المرابحة المصرفية” تھا۔ یہ مقالہ انہوں نے عربی زبان میں لکھا۔

ان کا تعلیمی سفر یہیں ختم نہ ہوا بلکہ استنبول صباح الدین زعیم یونیورسٹی سے اسلامی اقتصاد اور مالیات میں پی ایچ ڈی کے مقالے کا کامیاب ڈیفنس کیا۔ اب انہیں ڈاکٹر کہتے ہوئے صحیح معنوں میں لطف آئے گا ! ۔ ان کا تحقیقی مقالہ "موسمیاتی تدارک میں اسلامی مالیات کا کردار: OIC ممالک میں منتخب شراکت دار بینکوں کی کارکردگی کا ایک تجزیاتی، تقابلی، اور تنقیدی مطالعہ” تھا۔ یہ مقالہ انہوں نے انگریزی میں لکھا۔
اس مقالے میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے تناظر میں ماحولیات، انسانیت اور کائنات کے باہمی تعلقات کا تجزیہ کیا گیا، ساتھ ہی اسلامک فائنانس آرکیٹکچر اور اسلامی مالیاتی اداروں کی پائیدار ترقی کے لیے کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی۔

یہ علمی سفر کسی کم ہمت طالب علم کا نہیں بلکہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایسے فرد کا ہے جو اپنے اساتذہ، ساتھیوں اور محققین میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے سپروائزر پروفیسر ڈاکٹر متین توپراک اور دیگر معروف اساتذہ جیسے پروفیسر مہمت بلوت، پروفیسر یوسف دنچ، پروفیسر ڈاکٹر اینور الپر گیویل نے ان کی محنت، علمی گہرائی اور تحقیقی مہارت کو سراہا۔ اور اس کامیاب علمی سفر میں انہیں مبارکباد دی۔ خود مفتی محمد نذیر خان نے اپنے اس سفر علم و تحقیق کے بہت سارے معاونین و ھمدردوں کا شکریہ ادا کیا ۔

تدریسی خدمات اور شریعہ ایڈوائزری

مفتی نذیر خان نے پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں تدریسی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں کئی سال تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں، جہاں انہوں نے شریعہ، فقہ اور حدیث کے موضوعات پر سینکڑوں طلبہ کی رہنمائی کی اور دارالافتاء میں بھی متخصصین کو افتاء کے اصول و ضوابط سکھائے۔
آج کل وہ ترکی کے ایک نجی ادارے میں شریعہ سٹینڈرڈز، فقہ اور حدیث پڑھا رہے ہیں اور ازبکستان کی ایک مالیاتی فرم میں شریعہ ایڈوائزر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مفتی نزیر خان کا ذوق تعلیم دیکھیں، ان کے علمی اور تحقیقی سفر میں صرف رسمی تعلیم ہی شامل نہیں بلکہ انہوں نے ایوفی (AAOIFI) سے سی ایس اے اے (Certified Shariah Advisor & Auditor) کی سند بھی حاصل کی، جو اسلامی مالیاتی قوانین اور شریعہ کمپلائنس کے ماہرین کے لیے ایک نمایاں سند ہے۔ مزید برآں، انہوں نے انگلینڈ، ملائیشیا اور پاکستان سے مختلف اسلامی مالیات اور معیشت سے متعلق بہت سے سرٹیفکیٹس بھی حاصل کیے ہیں جو ان کے ذوق لطیف کی علامت ہے۔

کمال کے خطیب، منفرد لکھاری

مفتی نذیر خان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو ان کی خطابت اور تحریری مہارت ہے۔ جامعہ فاروقیہ کے طلبہ میں کمال کے خطیب سمجھے جاتے تھے۔اردو، عربی، شینا، کوہستانی اور انگریزی پر انہیں یدِ طولیٰ حاصل ہے، جبکہ فارسی کو بھی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کی خطابت سے بھی متاثر ہیں۔ ان کا انداز بیان مدلل، علمی اور پُراثر ہوتا ہے، جو سننے اور پڑھنے والوں کو قائل کر دیتا ہے۔انہوں نے عربی کتب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا اور ایک عرصہ اخبارات اور ویب سائٹس پر کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔

ایک حقیقی سیلف میڈ شخصیت

اگر کسی کو "سیلف میڈ” کا حقیقی مفہوم سمجھنا ہو تو مفتی نذیر خان کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے۔ تاہم، حقیقت میں انسان خود سے کچھ نہیں بنتا بلکہ اللہ میڈ ہوتا ہے، اس لیے وہ بھی اللہ میڈ ہی ہیں۔ مفتی نذیر خان کی زندگی میں غربت کے دن بھی آئے اور آسودگی کے لمحات بھی، مگر ہر حال میں انہوں نے ثابت قدمی، محنت اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اگر سیلف میڈ کی اصطلاح کا استعمال درست ہے تو اس کے درست مصداق مفتی نذیر خان کی شخصیت ہے۔

بہر حال ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان کا مقابلہ کیسے کیا جائے، علم اور تحقیق کو اپنا ہتھیار بنا کر دنیا میں مقام کیسے پیدا کیا جائے اور دین و دنیا کے توازن کو کیسے برقرار رکھا جائے۔

ہماری دوستی

مفتی نذیر میرے قریبی دوست ہیں۔ وہ سوشل میڈیا میں کبھی محمد الکوہستانی کے نام سے بھی معروف تھے۔ میری اور مفتی محمد نذیر خان کی دوستی کا یہ خوبصورت سفر آج سے بیس سال قبل جامعہ فاروقیہ کراچی کے علمی ماحول میں شروع ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ تعلق صرف وقت کے صفحات پر نہیں بکھرا بلکہ ہر لمحے کے ساتھ مزید گہرا اور بامعنی ہوتا گیا۔ علم و تحقیق کے اس طویل سفر میں ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ فکری بحثوں، فہم و دانش کے تبادلے، اور زندگی کے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا۔ بہت دفعہ ہم میں فکری یا قلمی اختلاف بھی ہوا اور ہم کج بحثی تک پہنچے مگر ہم نے خفگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوستی کا یہ رشتہ محض دوستی نہیں، بلکہ فکری ہم آہنگی، خلوص اور محبت کی ایک سنہری داستان ہے، جو آج بھی اسی گرم جوشی اور استواری کے ساتھ جاری ہے۔ امید ہے زندگی بھر جاری رہے گا۔

شخصیت و علمیت پر تاثراتی کلمات

مفتی نذیر خان کے متعلق اپنے جذبات و تاثرات کو قلمبند کروں تو یہ چند جملے کہے اور لکھے بغیر رہ نہیں سکوں گا کہ:

وہ علم و حکمت کا بحر بیکراں، جس کی ہر لہر تحقیق و تدبر کی کہانی سناتی ہے۔

الفاظ ان کی زبان سے نہیں، بلکہ ان کے شعور کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں، تبھی دلوں پر اثر کرتے ہیں۔

وہ علم کی دنیا کے ایسے راہی ہیں جن کی منزلیں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ہر سنگِ میل ایک نئے افق کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

فقہ، حدیث، معیشت، ادب، مزاح اور تحقیق، غرض ہر میدان میں ان کا قلم ایسے چلتا ہے جیسے کوئی ماہر مصور کینوس پر شاہکار تخلیق کر رہا ہو۔

ان کی علمی بصیرت صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں، جن کا علم، فہم اور تجزیہ زمانے کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے۔

ان کی گفتگو دلیل کی روشنی سے مزین، تحریر حکمت کے موتیوں سے آراستہ، اور سوچ بصیرت کی بلندیوں کو چھوتی ہے۔

انہوں نےتحقیق کے ذریعے اسلامی معیشت کو عصری تقاضوں کے مطابق سمجھنے کی راہ دکھائی۔

وہ قلم کے ایسے سپاہی ہیں جو تحقیق کی روشنی میں معاشرتی اور مالیاتی دنیا کی پیچیدگیوں کو آسان کر دیتے ہیں۔

ان کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ علم، محنت اور ذوق لطیف مل کر ایک ایسی شخصیت تخلیق کرتے ہیں جو زمانے کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔

روشن مستقبل کی طرف سفر

مفتی محمد نذیر خان کی علمی اور تحقیقی خدمات، ان کی خطابت، تدریسی مہارت، اور اسلامی مالیات میں ان کی گہرائی بتاتی ہے کہ ان کا مستقبل بےحد روشن ہے۔ اسلامی معیشت اور مالیات کی دنیا میں ان جیسے ماہرین کی ضرورت ہمیشہ رہے گی، اور وہ اس شعبے میں مزید نمایاں مقام حاصل کریں گے۔ ان کے علم، تجربے اور مہارت سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے اسلامی مالیاتی ادارے مستفید ہوں گے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی اور مزید کامیابیاں عطا فرمائے تاکہ وہ امت مسلمہ کی علمی و فکری رہنمائی میں مزید مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button