میں لیڈرکیوں مانتا ہوں۔۔۔۔۔

میرا تعلق شعیہ امامی اسماعیلی فرقے سے ہے۔ ذاتی حیثیت میں Non practicing سا شعیہ امامی اسماعیلی ہوں۔۔ خیالات سیکولر ہیں مگر روز ازل سے ایک ہی شخصیت کو اپنا رہنما مانتا ہوں اور روایتی اسماعیلیوں سے بڑھ کے سیدنا شاہ کریم الحُسینی کو ہی اپنا رہنما مانتا ہوں۔۔
ویسے تو ہمارے خطے میں اکثر لوگ کسی بھی پارٹی کے زمہ دار، ہر تقریر کرنے والے اور الیکشن لڑنے والے لوگوں کو لیڈر یا رہنما پکارتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا پیمانہ بڑا مختلف ہے۔۔۔
میرا ماننا یہ ہے کہ میرا رہبر و رہنما وہی ہوگا جو میری زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔۔ جس نے میری اور میرے لوگوں کی زندگی بدلی ہو۔۔
میرا تعلق گلگت سے ہے جہاں 1960 سے قبل میرے اجداد کی بڑی سخت زندگی تھی۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا نام واجبی سا تھا۔۔ رہن سہن صدیوں پرانا تھا۔۔ نا تو ہمارے گاوں میں سکول تھے, نا ہسپتال, نا تعلیم, نا ہی روزگار کے مواقعے۔۔۔ اچھی رہائش, باتھ روم کی موجودگی، حفظان صحت جیسے الفاظ سے بھی ہماری نسلیں واقف نہ تھیں۔ کنویں کے مینڈک جیسی زندگی تھی۔ روایتی انداز کی کھیٹی باڑی اور مال مویشی پال کے گزربسر کیا جاتا تھا۔۔۔ ہماری پیدائش کے وقت بھی ایک ہی دیسی گھر میں پورا خاندان رہائش پذیر ہوتا تھا اور اہلخانہ کے ساتھ اکثر بچھڑے اور مرغیاں بھی اسی ایک ہی گھر میں موجود رہا کرتی تھیں۔
کسی خاندان میں کوئی صحت مند شخص ہوتا تو گلگت سکاوٹ یا قراقرم سکاوٹس میں بھرتی ہوتا تھا۔۔ سال بعد یہ فوجی چھٹی آتا تو گھر والوں کے لئے جوتے، کپڑے اورضروری اشیا لایا کرتا تھا۔۔۔ ساٹھ کی دہائی میں ساٹھ فیصد لوگوں کو شائد ہی پلاسٹک کی جوتیاں میسر تھیں۔ بیس فیصد لوگ جانوروں کی کھال سے ہاتھوں کی بنی تھوٹی پہنا کرتے تھے اور بیس فیصد لوگ ننگے پاوں پھرا کرتے تھے۔۔
ایک ہی جوڑا کپڑوں کا ہوتا تھا۔ اور اس کالے ملیشیا کے کپڑے پر رنگ برنگے پیوند لگے ہوتے تھے۔۔ زچگی کے دوران سالانہ درجنوں خواتین مرجاتی تھیں، اور سو بچے پیدا ہوں تو اسی مختلف بیماریوں کی نذر ہوکے جان سے چلے جاتے تھے۔۔۔ بڑے گھروں کے چند ہی لڑکے گلگت تک جاکے مڈل یا بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ خواتین کی تعلیم کے بارے میں ہمارے لوگ آگاہی سے بھی محروم تھے۔۔
میرے رہبر کے دادا حضور امام سلطان محمد شاہ کے دور امامت کے آخری دور میں یعنی پچاس کی دہائی میں کمیونٹی بیسڈ چند ہوم سکول ٹائپ کے سکولز بننے شروع ہوئے۔۔
1957میں میرا رہبر و رہنما سید شاہ کریم الحُسینی بطورِ حاضر امام تخت نشین ہوئے۔۔۔ 1960میں شمال دنیا سے کٹا ہوا علاقہ تھا۔۔۔ ٹرانسپورٹ کی سہولیات ابھی تک آئی نہیں تھیں۔۔۔ ساٹھ میں میرے رہبر نے اپنی جماعت کے مریدوں کو دیداری دینے کے لئے یورپ سے پاکستان کا سفر کیا۔۔ گلگت اور چترال جیسے مشکل علاقے کا مشکل سفر کیا۔۔۔۔ گلگت اور چترال کے چپے چپے میں گئے۔۔۔ اپنی جماعت اور ان کے خطے کی محرومیوں کو قریب سے دیکھا اور واپس جاکے اس پسماندہ خطے کے لوگوں کی معیار زندگی بڑھانے کے لئے مختلف منصوبوں پر کام کا آغا کیا۔
ساٹھ کی دہائی گلگت و چترال بلخصوص اسماعیلی کمیونٹی کے لئے انقلاب کے آغاز کی دہائی بنی۔۔۔ گاوں گاوں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے سکولز بننے شروع ہوئے ۔۔ زچہ بچہ مراکز بناکے بچوں کی اموات پر قابو پانے کا آغاز ہوا۔۔۔۔
اسی کی دہائی ہماری ترقی کو گئیر لگنے والی دہائی تھی۔۔ میرے رہبر نے دیہی ترقی کے لئے اے کے آر ایس پی بنایا۔۔ اے کے ار ایس پی نے ایک طرف لوگوں کو دیہی تنظیمات بناکے سرمایہ بچانے اور سوسائیٹیز بناکے کاروبار کا آغاز کرنے پر راغب کیا اور دوسری طرف زراعت, باغ بانی کو جدید خطوط پر استوار کیا, انفراسٹرکچر بنانا شروع کیا۔۔۔
آج 47 سال بعد ان ہی سوسائٹیز نے نیا روپ دھارا ہے۔ اس وقت گلگت, ہنزہ , غذر اور چترال میں سینکڑوں کوآپریٹیو سوسائٹیز کاروباری افراد کی مدد کے لئے سرگرم عمل ہیں اور ہر سوسائٹی کے پاس کروڑوں اور اربوں کے اثاثے اور سرمایہ ہے جن سے ہزاروں کاروباری مستفید ہورہے ہیں۔۔
اے کے آر ایس پی کی زراعی اصلاحات کے نتائج بھی زبردست آئے۔۔۔ اب گلگت , غذر استور اور دیگر علاقوں سےسالانہ اربوں روپے کے الو پاکستان کی منڈیوں میں جاتا ہے۔۔۔ چیری اور سیب کے باغات سے سالانہ آربوں روپوں کے چیری اور سیپ پاکستانی شہروں کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں جاتے ہیں۔ زچہ بچہ سنٹرز اور ہیلتھ یونٹس کی وجہ سے صحت کے شعبے میں سہولیات ملیں۔ ڈی جے سکول سسٹم کے بعد آغا خان ہائر سیکنڈری سکول سسٹم لایا گیا۔۔۔۔ ساٹھ کی دہائی میں لفظ تعلیم سے اشنا ہونے والوں کی نسل کے لئے سکالرشپس فراہم کئے گئے۔ ابتدائی طور پر یہاں کے نوجوان کراچی جاکے پڑھنے لگے۔۔۔ آگے چل کے دنیا بدلنے لگی۔۔۔ ہمارے نوجوان کراچی آئی ای ڈی اور باہر آئی آئی ایس جاکے تعلیم حاصل کرنے لگے۔۔۔
1960 تک کراچی لاہور, سری نگر جاکے پڑھنے کو بغیر تعبیر والا خواب سمجھنے والوں کی نئی نسل آغا خان ہائر سیکنڈریز سے پڑھنے کے بعد نسٹ, لمز, جی آئی کے , جی سی کے گریجویٹ بن گئے اور سکالرشپ کے مقابلوں میں شامل ہوکے چائنہ , روس, امریکہ, انگلینڈ , یورپ اور جاپان کی جامعات میں جاکے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے لگے۔۔
اس وقت گلگت, ہنزہ, غذد اور چترال کے ہزاروں بچے یورپ اور امریکہ, روس, یوکے, چائنہ کی عالمی رینکنگ والی جامعات میں پڑھ رہے ہیں بلکہ سینکڑوں نوجوان انہی اعلی سطحی اداروں میں پروفیسرز کی زمہ داریاں نبھارہے ہیں۔۔۔۔ جن کے اجداد پیراسٹامول کے نام سے بھی نا آشنا تھے ان ہی کی نئی نسل ناسا میں کام کر رہی ہے، گھر گھر میں سائنس، سپیس سائنس اور اے آئی پر بات ہوتی ہے۔۔۔
پلاسٹک کے جوتے پہننے یا پھر ساٹھ کی دہائی تک ننگے پیر چلنے والوں کے بچے اور بچیاں بیگ میں لیپ ٹاپس لئے دنیا کے بڑے ائیرپورٹس پر نظر آتی ہیں۔۔۔
میرے رہبر نے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنے فالورز کی رہنمائی کی۔۔ اسی کی دہائی میں اپنے روحانی بچوں کو کامرس کی تعلیم کا درس دیا۔۔ نوے کی دہائی میں کمپیوٹر اور آئی ٹی کی طرف راغب کیا۔۔ 2000 میں سوشل سائنسز کی طرف دھکیلا۔۔۔ نئے عہد میں اے آئی اور دیگر آن لائین علوم کی طرف۔۔۔۔۔ جس کے سبب آج گلگت, غذر اور چترال کے دیہاتیوں کے بچے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر رہے ہیں۔۔۔
اس وقت گلگت , ہنزہ , غذر اور چترال کے ہزاروں نوجوان اپنے گھروں سے ہی عالمی منڈیوں کے لئے آن لائین کام کر رہے ہیں اور کروڑوں ڈالر دنیا سے لاکے اپنے خاندانوں کالائف سٹائل بدل رہے ہیں۔۔
کراچی آغا خان یونیورسٹی سے پہلے جنرل نرسنگ, آگے چل کے بی ایس این، آر این اور ایم ایس سی این کرنے والے سینکڑوں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یورپ, یو ایس اے , یوکے, سعودیہ, کویت اور قطر کے ہیلتھ سیکٹر میں کام کرکے سالانہ اربوں کا سرمایہ گلگت, غذر , ہنزہ اور چترال منتقیل کرکے ایک طرف اپنے خاندانوں کو آسائشیں پہنچا رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے غریب علاقے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔۔۔
گلگت , غذر, ہنزہ اور چترال کے ہزاروں خاندان اسی گایئڈ لائین کے سبب امریکہ, کینیڈا , یورپ , آفریقہ اور دیگرممالک منتقیل ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے بھی یہاں کے معاشی نظام پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔۔
1957 میں میرے رہبر نے شعیہ امامی اسماعیلی فرقے کی رہنمائی شروع کی جو 4 فروری 2025 تک جاری رہی ۔۔ ان 68 سالوں میں میرے رہبر کی عالم اسلام، تیسری دنیا اور پاکستان کے لئے جو خدمات رہی، ان کے اعتراف کا سلسلہ دو دنوں سے درجنوں سربراہ ممالک, یواین کے سیکریٹری جنرل وغیرہ کے بیانات اور عالمی میڈیا کی خبروں کی صورت میں جاری ہے، مگر میرے رہبر کی پاکستان بلخصوص گلگت, چترال کے لئے جو خدمات ہیں ان کے اوپر سینکڑوں لکھاری بھی کتابیں لکھیں تو احاطہ ممکن نہیں کیونکہ ہمیں موشی خانوں سے محلات تک , ٹاٹ سکول سے یورپ کی درسگاہوں تک, پیوند والے کپڑوں سے تھری پیس اور دیگر مہنگی ملبوسات تک، دور جہالت سے انسانی معراج تک میرا رہبر میرا رینما, میرا مولا سیدنا شاہ کریم الحُسینی صرف 68 سال میں لے کر آیا ہے۔۔
اسی لئے ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ لفظ رہبر ورہنما میرے رہبر ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان ہی کو جچتا یے۔۔۔۔
اے میرے مولا، تیرے کس کس احسان کا بدلا ہم چُکائیں گے ۔۔۔ یہ ہم جیسوں کے بس میں بھی نہیں۔۔ آپ نے میرے خطے کس بھوک, غربت, جہالات اور اندھیروں سے نکالا۔۔۔۔۔ تو ہی میرا رہبر و رہنما ہے۔۔۔۔۔
بس ایک وعدہ ہم کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم بھی اپنی بساط کےمطابق انسانیت کی خدمت جاری رکھنے کی کوشش کرینگے اور یہی ایک ہی ٹریبوٹ ہے جو ہم پیش کرسکتے ہیں۔۔۔
آپ اور آپ کا کام تاقیامت یاد رکھا جائے گا
اے محسن انسانیت
اے عظیم امام۔۔۔