کالمز

سرکاری سکولوں کے خراب نتائج کا ذمہ دار کون ؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے تعلیم سے ایک فرد کی شخصیت نکھرنے کے ساتھ معاشرے پر بھی مثبت سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اثرات پڑتے ہیں اور یوں ایک خوش حال اور با شعور معاشرے کا تشکیل پاتا ہے دنیا نے یہ راز اچھی جان لیا ہے کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے تعلیم کے شعبے کو بہتر نہ بنائے۔ گلگت بلتستان کے جماعت پنجم اور ہشتم کے طلباء کا امتحانات2024 کی خراب نتائج نے تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں طالب علموں کی ناکامی کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی نتائج کے مطابق گلگت بلتستان میں جماعت ہشتم میں کامیابی کی مجموعی شرح 40.78 فیصد اور جماعت پنجم میں کامیابی کی مجموعی شرح 28.62 فیصد رہی ۔ بس اضلاع کے کچھ سکولوں کی نتائج صفر ہے یعنی ان سکولوں سے ایک بھی طلباء کامیاب نہیں ہوا ہے اتنا مایوس کن نتائج کا آنا تعلیمی نظام کی زبوں حالی اور پالیسیوں کی نا کامی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ نتائج نہ صرف تعلیمی معیار کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ حکومتی اہم ترجیحات میں تعلیم کا شامل نہ ہو نا ہے اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں دنیا کا تعلیمی نظام روز بروز بلندی کی طرف گامزن ہے اور ہمارا تعلیمی نظام روز بروز زوال کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ ایک معصومانہ سوال ہے وزیر تعلیم ، سیکرٹری تعلیم اور محکمہ تعلیم کے لیے ۔
بات کریں گلگت بلتستان کے سرکاری اسکول میں پڑھنے والے طلبا کی، گلگت بلتستان میں سرکاری اسکولوں میں عموماً مختلف معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں، جن میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ سرکاری اسکول کم فیس یا بغیر فیس کے تعلیمی سہولیات فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان خاندانوں کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی اور سہولیات کا معیار مختلف ہو سکتا ہے، لیکن یہ بچوں کے لئے بنیادی تعلیم فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے گلگت بلتستان کی آبادی 20 لاکھ ہے اس میں سرکاری سکولوں کی تعداد کل 1732 اسکول ہیں جہاں 2لاکھ 47ہزار 83 طلبا زیر تعلیم ہیں اور ان کو پڑھانے کے لیے 8 ہزار 3 سو 64 اساتذہ تعینات ہیں۔اگر دیکھا جائے تو چند اسکول کے علاوہ باقی تعلیمی ادارے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں کہیں ٹائلٹس نہیں کہیں آئی ٹی رومزنہیں ہیں تو کہیں کلاس رومز کی کمی اور پانی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پرگورنمنٹ کی جانب سے اساتذہ کی غیر تدریسی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں کئی کئی دن اساتذہ ان ڈیوٹیوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس دوران طالب علموں کا حرج ہوتا رہتا ہے اساتذہ کی ڈیوٹیوں کو سکول تک ہی محدود رکھا جائے لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے۔باہر کے ممالک میں اساتذہ کی ڈیوٹیاں سکول تک ہی رکھی جاتی ہیں ان کو بالکل بھی غیر تدریسی چیزوں میں نہیں الجھایا جاتاتاکہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔ہمارے ہاں حساب بالکل الٹ ہے گلگت بلتستان میں اگر کوئی مسئلہ ہوجائے تو سرکاری ملازمین کی شامت آجاتی ہے ان کی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں کبھی ان کی الیکشن ،کبھی مردم شماری ،کبھی خانہ شماری کی وجہ سے تعلیمی ادارے sufferکر رہے ہیں۔گلگت بلتستان میں ڈائریکٹوریٹ سٹاف ڈویلپمنٹ جو کہ اساتذہ کی تربیت کرنے کیلئے ٹریننگ کا اہتمام کرتا ہے وہ بھی ناکام دکھائی دیتا ہے امتحانات کی صحیح تیاری نہ کروانے کی وجہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ تر طالب علم فیل ہوجاتے ہیں۔ایک طرف تو ڈائریکٹوریٹ سٹاف ڈویلپمنٹ یہ دعوی کرتا ہے ہم سالانہ ہزاروں اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اساتذہ نتائج دینے سے قاصر ہیں۔درحقیقت ان کی ٹریننگ ہو بھی رہی ہے یا نہیں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
باہر کے ملکوں میں جب بچے کو سکول میں داخلے کیلئے لیجایا جاتا ہے تو وہاں سب سے پہلے اس کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے جبکہ ہمارے گورنمنٹ کے اداروں میں ایسا کچھ نہیں ہے گورنمنٹ پالیسی کے مطابق تمام بچوں کو داخلہ دینا ضروری ہوتا ہے،سرکاری اسکولوں میں ماس فیکٹر ہے مطلب کوئی بھی بچہ سال کے آخر میں بھی سرکاری اسکول میں داخلہ لینا چاہے تو سرکاری اسکول انتظامیہ پابند ہے کہ بچے کو داخلہ دیں ۔۔بے شک اکیڈمک سیشن اختتام کے قریب کیوں نہ ہو۔۔ دوسری جانب وہ بچے جو اسکول سے باہر ہیں انہیں بھی اسکول لاکر داخلہ دے دینا ہے اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تیسرا فکٹر گلگت بلتستان میں ٹیکسٹ بک بورڈ کا انتخاب ہے یہاں آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اکیڈمک سیشن2024 شروع ہوکر تقریباً آدھا سال گزر گیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے طلبا کو مفت کتابیں نہیں ملی تھیں،
اُن کا کہنا یہ تھا کہ ابھی تک پبلشر کی جانب سے کتابیں نہیں چھپی ہیں۔ اندازہ لگائیں ایک طالب علم کیسے امتحان کی تیاری کریں۔۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم میں بھی کچھ خامیاں ہیں شروع سے یہ روایت رہی کہ انتظامیہ میں سینارٹی کی بنیاد پر اگلے عہدوں پر ترقی پاتے ہیں جہاں اسکولوں کا کیریکولم بنایا جاتا ہے، وہ اساتذہ جنہوں نے ضیاالحق کے زمانے میں بی اے بی ایڈ کیے ہیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق طلبا کے لیے کیری کولم کیسے ترتیب دیں گے۔ لیکن چند سال پہلے محکمہ تعلیم میں 18 گریڈ میں براہ راست تقرریاں کرنے کا عمل شروع ہوا جو کہ خوش آئیند ہے۔۔۔اب جو پرائیویٹ سکولوں میں پانچویں اور چھٹی جماعت کے طالب علم اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے ان کو سکولوں سے نکال دیا جاتا ہے اب ایسے طالب علموں کے داخلے کیلئے گورنمنٹ سکولوں کا رخ کیا جاتا ہے گورنمنٹ سکول بچے کے داخلے کے لئے پابند ہوتے ہیں اب جب ان بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کر لیا جاتا ہے تو وہ بورڈ کے امتحانات میں اچھے نتائج دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر ہر کلاس 25سے 35طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے یوں اساتذہ تمام طالب علموں پر یکسوئی سے توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں 40سے50 طالب علموں پر کلاس روم مشتمل ہوتا ہے اب اتنی تعداد میں جب طالب علم ہوں تو 30منٹ کے پریڈ میں استاد کتنے بچوں پر توجہ دے سکتا ہے؟۔اہم بات یہ ہے کہ پرائمری سطح پر آج بھی سکول ایسے ہیں جہاں سنگل ٹیچر پانچ پانچ کلاسوں کو پڑھا رہا ہوتا ہے اب جہاں ایسی صورتحال ہوگی وہاں امتحانی نتائج کیسے اچھے برآمد ہوسکتے ہیں؟ دوسری جانب سرکاری اسکول میں اساتذہ اور والدین کے درمیان ایک خلاء ہے، والدین اور اساتذہ کے درمیان میٹنگ بچوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میٹنگز کے ذریعے والدین اور اساتذہ بچوں کی کارکردگی، رویے اور مشکلات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، جس سے مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ باہمی اعتماد اور احترام کو فروغ ملتا ہے، جس سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن ایسا سرکاری اسکولوں میں کم ہی پایا جاتا ہے۔ جن اسکولوں نے یہ روایت شروع کی ہے وہاں والدین نمائندگی نہیں کرتے۔ تعلیمی نظام اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے کئی پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن میں اساتذہ کی تربیت سر فہرست ہے گلگت بلتستان جیسے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں اکثر اساتذہ کو جدید تعلیمی تربیت تک رسائی حاصل نہیں ہے اساتذہ کو پیشہ ورانہ تربیت کے لیے جدید تدریسی تکنیکوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ بہتر طریقے سے طلباء کو تعلیم دے سکیں۔ اساتذہ کو مقامی ثقافت اور زبان کی سمجھ ہونی چاہیے تاکہ وہ طلباء کے ساتھ بہتر طریقے سے بات چیت کر سکیں۔ اس سے تعلیم کا معیار بہتر ہوگا اور طلباء کو زیادہ آسانی سے سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ حکومت کو تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے بہتر تعلیمی پالیسیوں کا نفاذ اور وسائل کا مناسب استعمال ضروری ہے تاکہ تعلیمی معیار میں بہتری لائی جاسکے ۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ سکولوں کی ترقی ممکن ہو سکے ۔ سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جائے اور دیہی علاقوں میں تعلیمی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سکولوں کا قیام ضروری ہے۔ سکولوں میں اساتذہ کی پوسٹنگ ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے اساتذہ کی پوسٹنگ نتائج کی بنیاد پر ہونی چاہیے ، جن اساتذہ کے نتائج خراب ہوں انہیں نتائج کے اہداف کے ساتھ تعینات کیا جانا چاہیے ۔ بد قسمتی سے ہمارے علاقے کے تعلیمی اداروں میں مذہبی و سیاسی سفارش پر اساتذہ کی پوسٹنگ ہوتی ہے اور اساتذہ کرام اپنی مرضی سے پچھلے کئی سالوں سے ایک ہی سٹیشن پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں مذہبی و سیاسی پوسٹنگ ، ٹرانسفر کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور محکمانہ پو سٹنگ ٹرانسفر کی صورت میں پوسٹنگ رکوانے کےلئے سیاسی و مذہبی اثر رسوخ استعمال کرنے والے اساتذہ کے خلاف موثر محکمانہ کارروائی کی جائے ۔

میرے خیال میں ساری ذمہ داری محکمہ تعلیم میں اہم پوسٹوں پر تعینات سینئرافیسران کی ہے جو غفلت کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ اس عمل کا مکمل تحقیقات ہو۔ گلگت بلتستان حکومت کو کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنا پڑے گا کہ جس کے مطابق تعلیمی اداروں کے سربراہان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے سکول کے نتائج 100فیصد دینے کیلئے ہر طریقہ آزمائیں ،خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان حکومت تھوڑی سی توجہ محکمہ تعلیم پر بھی دیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button