کالمز

کیا لکھنے کا کچھ ملتا بھی ہے؟

گزشتہ بیس سال سے لکھنے کی مشق اور مشقت میں مصروف ہوں۔ قلم سے رشتہ ایسا جڑا کہ دن رات خیالات کو لفظوں میں ڈھالنے اور احباب سے شیئر کرنے کا عمل زندگی کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ آج میرا کالم مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتا ہے، اور جب قارئین تعریف یا تنقید کرتے ہیں، تو ایک عجیب سی تسکین کا احساس ہوتا ہے کہ ابھی بھی کچھ لوگ لمبی لمبی تحریریں پڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

مگر ایک سوال جو سالوں سے ذہن میں کچوکے لگاتا ہے، وہ یہ ہے کہ "کالم لکھنے کا کیا فائدہ؟ اس کا کوئی مالی معاوضہ بھی ملتا ہے؟”

اپنے قارئین اور احباب سے یہ سوال اکثر مختلف انداز میں سامنے آتا ہے۔ کوئی براہِ راست پوچھتا ہے، تو کوئی طنزاً کہہ جاتا ہے۔ بعض تو حیرت سے گویا ہوتے ہیں: "اتنی محنت، اتنا وقت، مگر اس سے کماتے کیا ہو؟ سچ بتاؤ! مہینے میں کالمز اور مضامین سے کتنا کماتے ہو؟ "

یہ سوالات محض تجسس کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے سماج میں مادی کامیابی کے معیار کا عکاس ہے، جہاں ہر کام کو صرف اس کے مالی فوائد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

میں جو بھی لکھتا ہوں، وہ اپنے ضمیر، تحقیق اور فکری اصولوں کے مطابق لکھتا ہوں۔ نہ کسی ادارے کی پالیسی کا پابند ہوں، نہ کسی فرد کے لیے فرمائشی کالم لکھتا ہوں اور نہ ہی کسی کے کہنے یا اکسانے پر لکھتا۔ ہاں، اگر کوئی دوست کسی اہم موضوع کی طرف متوجہ کرے، تو اپنی سوچ اور انداز کے مطابق ضرور قلم اٹھاتا ہوں۔ میرا بنیادی مقصد ہمیشہ اصلاح، آگاہی، شعور، اپنے خیالات کا ابلاغ اور مثبت تبدیلی رہا ہے، اس لیے میں کسی مالی مفاد کی خواہش سے آزاد ہو کر لکھتا ہوں۔

لیکن پھر بھی یہ سوال بار بار ذہن میں گردش کرتا ہے کہ "کیا لکھنے سے کچھ حاصل بھی ہوتا ہے؟”

یقیناً، بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اتنا کچھ کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا پڑتا ہے۔ کیا یہ کم ہے؟ اور پھر سوچنے کی وسعت، علم کی گہرائی، مطالعے کی روشنی، اور سب سے بڑھ کر، ضمیر کا سکون۔ ہاں، اگر مقصد صرف دولت کمانا ہوتا، تو شاید قلم کی یہ مشقت چھوڑ کر کسی اور میدان میں قسمت آزمائی جاتی یا پھر قلم کو بیچ دیا جاتا۔ مگر قلم کار کا اصل سرمایہ الفاظ کی تاثیر اور فکر کی روشنی ہوتی ہے، اور یہی کچھ نہ ہونے کے باوجود سب کچھ ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ الحمد للہ!

ایک بات طے ہے کہ پیسہ بلاشبہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، مگر یہ سب کچھ نہیں۔ دنیا میں ایسی بےشمار قدریں ہیں جو دولت سے نہیں خریدی جا سکتیں۔ جی ہاں دولت اور پیسہ سے بالکل بھی نہیں خریدی جاسکتیں۔ خلوص، عزت، سچا رشتہ، ذہنی سکون، اور خوشی جیسے جذبات کا کوئی مالی نعم البدل نہیں۔ اگر پیسہ ہی سب کچھ ہوتا تو امیر ترین لوگ کبھی اداسی، تنہائی، یا بے چینی کا شکار نہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کو پیسے سے تولنا ایک محدود اور سطحی سوچ ہے، کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف محبت، ایثار، اور اچھے اخلاق سے حاصل کی جا سکتی ہیں، نہ کہ دولت سے۔
لہٰذا میں نے یہ بات دل سے باندھ لیا ہے کہ کاغذ اور قلم سے دولت کما سکوں یا نہ کما سکوں مگر ضمیر کی آزادی، ذہنی سکون، عزت و محبت جیسے جذبات و اقدار ہمیشہ کماتا رہونگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button