کالمز

حقوق دو، ڈیم بناؤ – دھرنے کے پیچھے کی کہانی

ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی قوم بلاوجہ شور مچا کر سڑکیں بلاک نہیں کرتی، نعرے لگا کر خود کو یا دوسروں کو تکلیف دے کر خوش نہیں ہوتی۔ خاص طور پر دیامر کے لوگوں کی فطرت ایسی نہیں۔ یہاں کے لوگ سادہ لوح، امن پسند، قناعت شعار، اور اپنے کام سے کام رکھنے والے محب وطن شہری ہیں۔ نہ تو وہ اپنے مسائل دوسروں کے سر تھوپنے کے عادی ہیں اور نہ ہی بلیک میلنگ یا منافقت کے ذریعے مالی یا سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ جب یہاں سیلاب آیا، بستیاں اجڑ گئیں، سیکڑوں خاندان بے گھر ہوئے، زلزلے آئے، تباہی مچی، مگر مجال ہے کہ لوگوں نے کبھی حکومت کے خلاف احتجاج کیا ہو، سڑکیں بلاک کی ہوں، یا ریلیف نہ ملنے کا شکوہ کیا ہو۔ دیامر کے عوام نے ہمیشہ ہر چیز کو مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا۔ حکومتوں سے مطالبات کرنا یہاں کے لوگوں کا عمومی مزاج نہیں، اور یہاں مختلف قبیلوں اور متضاد نظریات کے حامل لوگ بستے ہیں، جن کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ کسی ایک مسئلے پر سب کا متفق ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا، مگر جب ظلم، جبر اور حق تلفی حد سے بڑھ گئی، تو پورا دیامر ایک ہو گیا۔ "حقوق دو، ڈیم بناؤ” کا نعرہ درحقیقت ظلم اور ناانصافی کے خلاف عوام کا فطری ردعمل ہے۔

یہ بات 1999 کی ہے، جب اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف (مرحوم) ملٹری ہیلی کاپٹر کے ذریعے چلاس ایئرپورٹ پر اترے۔ چلاس ہسپتال کا افتتاح کرنے کے بعد، واپسی پر ان کی نظر پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس کے باہر جمع ہجوم پر پڑی۔ انہوں نے پوچھا، "یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟” جواب ملا، "یہ آپ کو دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔” جنرل مشرف نے فوراً قافلے کا رخ موڑنے کا حکم دیا اور عوام سے خطاب کیا۔

اس وقت دیامر بھاشا ڈیم کی شدید مخالفت کی جا رہی تھی، لیکن جنرل مشرف نے کہا: "آپ لوگ اس ڈیم کی مخالفت نہ کریں، یہ ڈیم آپ اور آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے نعمت ثابت ہوگا۔ آپ کی زندگیاں بدل جائیں گی، ریاست آپ کو اتنی مراعات دے گی کہ سات نسلوں تک غربت ختم ہو جائے گی۔ آپ کے بچوں کو مفت تعلیم، صحت کی سہولتیں، اور روزگار فراہم کیا جائے گا۔ متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد کے قریب رہائشی کالونیاں دی جائیں گی اور ہر متاثرہ فرد کو ایک گرین کارڈ دیا جائے گا، جس کے ذریعے انہیں سرکاری دفاتر میں ترجیح دی جائے گی۔ ان کے حقوق کے ضامن میں اور پاکستان آرمی ہوگی۔”

یہ وہ یقین دہانیاں تھیں، جنہوں نے سخت گیر مخالفین کو بھی راضی کر لیا، اور عوام نے یک زبان ہو کر ڈیم کی تعمیر کی حمایت کر دی۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک المیہ بن گیا۔

حکومت نے زمینوں کا سروے 2007 میں خفیہ طریقے سے مکمل کر لیا، لیکن عوام کو کوئی اطلاع نہ دی گئی۔ 2010 میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے گھروں اور زمینوں کا سروے کسی "پراسرار مخلوق” نے اپنی "روحانی طاقت” سے مکمل کر کے قیمتیں بھی خود ہی مقرر کر دی ہیں۔

سروے کی شفافیت پر شدید اعتراضات اٹھے، مگر کسی نے کان نہ دھرے۔ زمینوں کی قیمتیں کم مقرر کی گئیں، جبکہ عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ وابڈا نے صوبے کے بدنامِ زمانہ محکمہ پٹوار کے اہلکاروں کو بھاری تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ بھرتی کیا اور انہیں عوام کو لوٹنے کے لیے مکمل آزادی دی گئی۔

پیمائش کے لیے جریپ (آلہ پیمائش) کی اصل لمبائی سوا ایک رکھی گئی، تاکہ سوا ایک کنال زمین کو ایک کنال ظاہر کیا جا سکے۔ اس چالاکی سے زمینیں کم کر دی گئیں۔ پرانی خفیہ فیلڈ بکس کو بنیاد بنا کر جھوٹے ریکارڈ تیار کیے گئے۔ رہائشی مکانات کو کیٹل شیڈ ظاہر کر کے ان کا معاوضہ کم کیا گیا۔ زمین کے بدلے اتنی کم قیمت لگائی گئی کہ لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔

جب عوام کو اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ سنگین دھوکہ ہو رہا ہے، تو احتجاج شروع ہوا۔ وابڈا نے عوام کو مزید الجھانے کے لیے متنازع حدود کھڑے کیے، قبائل کو آپس میں لڑایا، اور عدالتوں میں مقدمات دائر کروا کر زمینوں کی ادائیگی روک دی۔

متاثرین کو ان کے حق سے محروم رکھنے کے لیے ایک اور چال چلی گئی:

  • متاثرہ زمین داروں کو "مسنگ” قرار دے کر فہرست سے نکال دیا گیا۔
  • کسانوں کو وعدے کے مطابق 6 کنال زمین نہیں دی گئی۔
  • مقامی سود خوروں نے متاثرین کی رقم ہڑپ کر لی۔
  • مقامی ایجنٹوں اور پٹواریوں نے رشوت اور دھوکہ دہی کے ذریعے زمینوں کی قیمت میں بے جا کٹوتی کر دی۔

آج، جب ڈیم کی تعمیر آخری مراحل میں ہے، تو متاثرین بے یارو مددگار ہیں۔ ریاست نے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں کیے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آبا و اجداد کی قبریں، زمینیں، تاریخ، تمدن، اور کلچر قربان کیا، آج دربدر ہیں۔

اب ان متاثرین کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو وہ اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کریں، یا پھر بے بسی کی زندگی گزاریں۔ ریاست کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرے اور انہیں باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے۔ ورنہ تاریخ میں یہ ایک اور المیہ بن کر ہمیشہ کے لیے درج ہو جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button