کالمز

شدت پسندی کا اصل ذمہ دار کون؟

یہ بات طے شدہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور ان کی جماعت، جمیعت علمائے اسلام (ف) نے ہمیشہ پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ مولانا نے اس حوالے سے کھبی لیت و لعل سے کام نہیں لیا، ان کا موقف انتہائی دو ٹوک اور بیانیہ انتہائی واضح ہوتا ہے۔

دینی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان پر مولانا کا اثر و رسوخ کسی سے پوشیدہ نہیں، اور ان کی جماعت ملک بھر کے نامور علماء کرام پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی ہمیشہ دینی طبقات کو ریاستی نظام کے اندر رکھتے ہوئے اصلاحات کی راہ ہموار کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ کام صرف مولانا نہیں بلکہ ان کے والد گرامی مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کے دور سے ہوتا آرہا ہے۔

تاہم، گزشتہ چند سالوں میں دینی جماعتوں بالخصوص جے یو آئی کو سیاسی دھارے سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں دینی طبقات میں بے چینی اور مایوسی پیدا ہوئی۔ ایک موقع پر تو مولانا کی جماعت کے ذمہ دار لوگ بھی مایوس ہوگئے تھے مگر مولانا نے انہیں سنبھالا دیا۔ اسی طرح مولانا اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے وفاق المدارس العربیہ کے اکابرین کو بھی بہت دفعہ مایوس ہونے سے نکالا، ورنا انہوں نے بھی اعلانیہ ملکی نظام پر مکمل عدم اعتماد کا اعلان کرنا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کو اسمبلیوں سے باہر رکھنا گویا مذہبی طبقے کو سسٹم سے بے دخل کرنے کے مترادف ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں نوجوان نظام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انتہا پسند نظریات کی طرف مائل ہو گئے۔ اور شدت پسندوں کو اس سے شہہ مل گئی اور وہ مزید اپنے بیانیہ کو مضبوط کرنے لگے۔

میں نے خود درجنوں علماء کو اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے سنا ہے، جہاں انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دینی قیادت کو سیاسی و سماجی حقوق سے محروم کیا جائے گا اور جید علماء کو بے دردی سے قتل کیا جائے گا، تو اس کا نتیجہ شدت پسندی کی صورت میں نکلے گا، کیونکہ مایوس طبقے کے لیے متبادل راستے محدود ہو جاتے ہیں۔

یہ کوئی راز نہیں کہ ملک بھر میں سینکڑوں نامور علماء کو شہید کیا گیا، مگر ان کے قاتلوں کو نہ گرفتار کیا گیا اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔ جب علماء دیکھتے ہیں کہ انہیں ایک سازش کے تحت ریاستی معاملات سے بےدخل کیا جا رہا ہے، تو وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اس نظام میں ان کے لیے کوئی جگہ باقی ہے؟

اگر ملک میں حقیقی استحکام درکار ہے تو اس پالیسی پر فوری نظرثانی کرنا ہوگی۔ دینی طبقات کو ان کا جائز سیاسی اور سماجی مقام دینا ضروری ہے، تاکہ مایوسی کا خاتمہ ہو اور علماء کا اعتماد بحال ہو۔ بصورت دیگر، اگر یہی طرزِ عمل جاری رہا تو شدت پسندی کو فروغ دینے کی اصل ذمہ داری انہی قوتوں پر عائد ہوگی جو دینی طبقے کو دیوار سے لگا رہی ہیں۔

ایسے حالات میں پاکستان دشمن قوتیں، خاص طور پر بھارت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ، اس عدم استحکام سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بھارت طویل عرصے سے پاکستان میں داخلی انتشار کو ہوا دینے کے لیے مختلف حربے آزما رہا ہے، جن میں شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی اور انہیں ٹریننگ دینا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینا، اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ مضبوط کرنا شامل ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو دینی و سیاسی قیادت کے درمیان دراڑ ڈالیں اور عوام کو ریاست سے بدظن کریں۔ اگر ملک کے اندرونی مسائل حل نہ کیے گئے اور دینی طبقات کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری رہا، تو دشمن قوتیں اس صورت حال کو پاکستان کے خلاف مزید چالیں چلنے کے لیے استعمال کریں گی، جس سے ملک میں عدم استحکام اور انتشار مزید گہرا ہو جائے گا۔

شدت پسندی کا اصل ذمہ دار وہ عناصر ہیں جنہوں نے دینی طبقے کو اسمبلیوں اور حکومتی معاملات سے دور رکھا، انہیں حاشیے پر دھکیل کر ان کے لیے مثبت مواقع مسدود کیے اور ملک کے جید علماء کو شہید کرکے بدامنی کی راہ ہموار کی۔اور اگر ملک کو حقیقی استحکام دینا ہے تو ان پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی اور دینی طبقات کو جائز سیاسی و سماجی مقام دینا ہوگا، تاکہ مایوسی کی فضا ختم ہو اور پاکستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button