سیاحتچترالکالمز

شاہی سمر پیلس, چترال کی مہمان نوازی کا دروازہ

دریائے چترال کے اِس پار شاہی سمر پیلس جہاں محبت اور مہمان نوازی کا راج ہے

تحریر:نورالھدیٰ یفتالیٰ

لواری کی برف پوش چوٹیاں جب مسافروں کی پشت پر رہ جاتی ہیں اور چنار  کے درختوں کی سرسبز چادر آنکھوں کے سامنے بچھتی ہے، تو دریائے چترال اس پار ایک شاہی قلعہ اپنے بازو پھیلائے مسافروں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ قلعہ، چترال کی ریاست کا پہلا چہرہ، تاریخ کے اوراق میں صرف اینٹ اور لکڑی کی عمارت نہیں، بلکہ مہمان نوازی، علم، اور ثقافت کا وہ گہوارہ ہے جہاں سے صدیوں تک ایک تہذیب کی روشنی پھوٹتی رہی ہے۔

جیسے ہی کوئی اجنبی قلعے  کے شاہی  گیٹ  میں داخل ہوتا ہے، اس کی دیواروں اور فضاؤں میں بسی محبتیں اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ شاہی داخلی دروازے کے سامنے درخت پر مختلف ممالک اور نظریات کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے لہراتے ہیں، جیسے وہ آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ یہ منظر درحقیقت ایک علامتی اظہار ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بازو وا کرکے، ہر تعصب اور نظریاتی حد بندی سے بالاتر ہو کر، مہمان کا پرتپاک استقبال کیا جا رہا ہو۔ ریاست چترال میں یہ  روایت تھی کہ جو بھی لواری درے کو عبور کر کے چترال میں داخل ہوتا، اس کی خاطر تواضع شاہی آداب کے مطابق کی جاتی۔

لیکن یہ قلعہ صرف شاہی میزبانی کا مرکز نہیں تھا؛ یہ ایک ایسا مقام بھی تھا جہاں علم و دانش کی شمعیں فروزاں تھیں۔ یہاں ریاست کے معزز افراد، شعرا، ادیب، اور علما جمع ہوتے، مناظرے کرتے، مسائل پر غور و فکر کرتے اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتے جو تحقیق اور حکمت کا آئینہ تھا۔

یہ قلعہ ابتدا میں 1878 میں مہتر امان الملک نے ایک دفاعی قلعے کے طور پر تعمیر کروایا تھا، تاکہ چترال کو کسی بھی ممکنہ حملے سے محفوظ رکھا جا سکے، چاہے وہ دیر کی جانب سے ہو یا افغانستان کی طرف سے۔ اپنی منفرد جغرافیائی اہمیت کے باعث، جو چترال کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً گرم ہے، اسے اس وقت کے مہترِ چترال، شجاع الملک کے حکم پر ایک سرمائی قیام گاہ کے طور پر وسعت دی گئی۔ 1936 میں مہتر کی وفات کے بعد، ان کے بیٹے، شہزادہ غازی الدین، کو نگر کی جاگیر وراثت میں ملی، اور یوں یہ تاریخی قلعہ ایک نئی داستان کا حصہ بن گیا۔

یہی وہ جگہ تھی جہاں چترال کے پہلے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ شہزادہ غازی الدین مرحوم، مہتر شجاع الملک کے بیٹوں میں سب سے زیادہ قابل اور دانا تھے۔ ان کی فصاحت و بلاغت، زبان کی روانی اور شائستگی بے مثال تھی۔ وہ ملنساری، عزت و احترام اور مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے اور ہمیشہ لوگوں سے حسنِ سلوک اور وقار کے ساتھ پیش آتے۔ یہ روایت یوں ہی نسل در نسل چلتی رہی، اور آج کے وارث بھی اپنے آبا و اجداد کی اس وراثت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں

یہاں کے کمرے سادہ مگر پرسکون ہیں، جیسے کوئی قدیم کہانی اپنے اندر سموئے بیٹھے ہوں۔ جب آپ ان کمروں میں سوتے ہیں، تو دریائے چترال کی مترنم آواز جیسے کسی ماں کی لوری بن کر آپ کو نیند کی آغوش میں لے جاتی ہے، اور کھڑکی کھولتے ہی ٹھنڈی، تازہ ہوا روح کو چھو لیتی ہے، جیسے قدرت خود آپ کا استقبال کر رہی ہو۔

1927  سے سیاح اس دلکش وادی کا رخ کر رہے ہیں، اور ہر آنے والے کی یادیں یہاں موجود ایک وزیٹرز بک میں محفوظ ہیں۔ یہ کتابیں ماضی اور حال کے قصے سناتی ہیں، کچھ پرانے اوراق پرانی خوشبو لیے، اور کچھ نئے صفحات تازہ لمحوں کے رنگ سمیٹے۔ نگر کے اس تاریخی قلعے میں کئی نامور ہستیاں قیام کر چکی ہیں، جن میں مشہور اداکار رابرٹ ڈی نیرو اور لندن کے ڈیوک بھی شامل ہیں۔ یہاں آ کر ہر کوئی وقت کے بہاؤ میں کھو جاتا ہے، اور فطرت کی آغوش میں ایک نئی کہانی رقم کر جاتا ہے۔

یہی تو چترال کا حسن تھا ہے اور رہے گا ۔یہاں آنے والے خالی ہاتھ نہیں لوٹتے تھے، بلکہ اپنی روح میں محبت، مہمان نوازی، اور علم کی روشنی لے کر جاتے تھے۔ آج اگرچہ وقت بدل چکا ہے، مگر یہ قلعہ اپنی دیواروں میں انہی جذبوں کی گواہی دیتا ہے۔ اور جیسے ہی کوئی نیا مسافر لواری سے نیچے اترتا ہے، یہ پرانی داستان ایک بار پھر زندہ ہو جاتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

نور الہدی یفتالی

نورالہدی یفتالی بالائی چترال کے علاقے مستوج سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں

متعلقہ

Back to top button