کالمز

خاموش وادیاں بولنے لگیں!

جب پہاڑوں کی چھاتی چیر کر معدنی خزانے نکالنے کی بات ہو، اور آس پاس بسنے والے مکینوں کی آواز سنائی نہ دے، تو سوال اٹھتے ہیں۔ جب صدیوں سے خاموش رہنے والی وادیاں آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرنے لگیں، تو اہلِ اقتدار کو کان دھرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان، وہ خاموش خطہ جو ہمیشہ ریاستی وفاداری کا استعارہ رہا ہے، آج اپنی زمین کے سینے پر کسی اجنبی بیلچے کو برداشت کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔

"پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم 2025” جیسے منصوبے بظاہر معاشی ترقی کے لیے ہوتے ہیں، مگر جب کسی خطے کی پہاڑیاں، اس کے چشمے، اس کی مٹی اور اس کی پہچان بازار کی بولی بننے لگیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ ترقی ہے یا ایک نیا استحصال؟ جن پہاڑوں نے صدیوں سے برف اوڑھ کر سرحدوں کی رکھوالی کی، اب وہی پہاڑ سرمایہ کاری کی میز پر رکھ دیے گئے ہیں۔ مگر کیا ان میزوں کے گرد بیٹھے لوگوں میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جو وہاں کی مقامی تاریخ، ثقافت، درد اور خاموشی کو جانتا ہو؟

گلگت بلتستان کے لوگ، جن کی وفاداریاں کبھی سوال کے دائرے میں نہ آئیں، آج حیران ہیں کہ ان سے مشورہ کیے بغیر ان کے وسائل کی نیلامی کیسے طے ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سرزمین کو محض ایک معدنی خزانے کی کان سمجھ لیا گیا ہے، جس کے وارث کوئی اور ہیں، مگر نفع کے دعوے دار کوئی اور۔

ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ کے اوراق میں ایک اور خطہ بلوچستان کے نام سے رقم ہے۔ وہاں بھی سونا نکلا، گیس نکلی، اور زمین کی گہرائیوں سے دولت نکلی، مگر زمین پر رہنے والوں کی زندگی ویسے ہی رہی—پیاسی، بے یقینی سے بھرپور، اور ترقی سے محروم۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسی کہانی کا دوسرا باب گلگت بلتستان میں لکھا جا رہا ہے؟

اگرچہ زباں بند ہے، مگر نظروں میں سوال ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ "ترقی” کے نام پر کیا کچھ ہوتا ہے۔ جب کسی علاقے کو اس کی مرضی کے بغیر ترقی دی جاتی ہے، تو وہ ترقی اکثر زخم چھوڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہاں کی فضائیں بدلی بدلی سی ہیں، پہاڑوں کی گونج مختلف ہے، اور خاموشی کے پردے میں ایک بےچینی ہے۔

یہ محض زمین نہیں، یہ پہچان ہے۔ یہ دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں، نسلوں کی روانی ہیں۔ یہ پہاڑ صرف پتھر نہیں، صدیوں کا تحفظ، غیرت اور وفاداری کی علامت ہیں۔ اگر ان علامتوں کو بھی بیچ دیا گیا، تو پھر باقی کیا بچے گا؟

ایسے میں ریاستی اداروں، پالیسی سازوں اور ان سرمایہ کاروں کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کن قیمتوں پر کس چیز کا سودا کر رہے ہیں۔ قومیں محض معدنیات سے نہیں بنتیں، بلکہ ان کے بنانے والوں کے دل جیتنے سے بنتی ہیں۔ اور دل تب جیتے جاتے ہیں جب فیصلے شرکت سے کیے جائیں، اعتماد سے کیے جائیں، نہ کہ بند کمروں میں۔

ابھی وقت ہے۔ اعتماد بحال کرنے کا، مشاورت کو فوقیت دینے کا، اور گلگت بلتستان کو سننے کا۔ ورنہ وہ وقت بھی دور نہیں جب یہ پُرامن وادیاں صرف حسن کی نہیں، بلکہ مزاحمت کی علامت بن جائیں گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button