کالمز

افضل اللہ افضل، جیسا نام ویسا ہی مقام

چترال وہ مردم خیز سرزمین ہے جس نے اپنی کوکھ سے بے شمار ہیرے پیدا کیے۔ کسی نے علم کے میدان میں، کسی نے فنونِ لطیفہ میں، تو کسی نے کھیل کے میدان میں چترال کا نام روشن کیا۔ انہی ہیروں میں ایک نام افضل اللہ افضل کا ہے، جنہوں نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور دل کو چھو لینے والی شاعری سے نہ صرف چترال بلکہ گلگت بلتستان کے ادبی حلقوں میں بھی اپنی منفرد شناخت بنائی۔

ان کی شاعری چترالی ثقافت کی روح کو زندہ رکھتی ہے۔ ہر عمر کا قاری یا سامع جب ان کے اشعار سنتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ اشعار اس کے دل کی آواز ہوں۔ ان کی متعدد شعری مجموعے ان کی فنکارانہ بصیرت کے گواہ ہیں اور وہ بجا طور پر چترالی ثقافت کے زندہ امین ہیں۔

افضل اللہ افضل کی شاعری واقعی ان کے نام کی طرح "افضل” ہےایک ایسا رنگ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔

افضل اللہ افضل 1952 کے عشرے میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد افغانستان سے ہجرت کرتے ہوئے داریل اور پھر چترال میں آ کر آباد ہوئے۔ ان کے والد، مرحوم نعمت اللہ صاحب، کو گھڑ سواری اور چترالی ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ بچپن میں افضل صاحب والد کے ساتھ محفلِ شعر و سخن میں جایا کرتے جہاں امیر گل امیر کی شاعری براہِ راست ان کی زبان سے سنا کرتے، اگرچہ بچپن کی ناپختگی کے سبب وہ اشعار سمجھ نہ آتے تھے، لیکن دل میں ادب اور شاعری کی محبت جاگزیں ہو گئی۔

ہشتم جماعت تک تعلیم کے ساتھ دوستی رہی، مگر دل نے ہنر سیکھنے کی ضد کی۔ 1966 میں چترال کو خیرآباد کہہ کر پشاور کا رخ کیا اور وہاں 27ویں رجمنٹ کے لیے یونیفارم سلائی کرنے لگے۔ بڑے بھائی نے جب چھوٹے بھائی کی حالت دیکھی تو انہیں کراچی بلا لیا، جہاں زندگی کا ایک نیا باب کھلا۔

کراچی، جو اس وقت امن اور خوشحالی کا گہوارہ تھا، وہاں افضل صاحب نے اپنے فن کو نکھارنے کا بھرپور موقع پایا۔ 1974 میں مشہور نعت خواں مولانا محمد شفیع اکڑوی کی نعتیہ محفل میں شرکت کا موقع ملا۔ مولانا صاحب نے ان کی نعت خوانی سے متاثر ہو کر انہیں نعت پیش کرنے کا موقع دیا۔ پی این ٹی کالونی میں اپنی پہلی نعت پیش کی جس پر زبردست داد ملی اور دو روپے انعام میں ملےیہ ایک شاعر کے خوابوں کا پہلا رنگین منظر تھا۔

پانچ سال کراچی میں گزارنے کے بعد 1976 میں چترال واپس لوٹے۔ وہاں ایک دوست کی محبت بھری کہانی پر پہلی بار شاعری کی، جس نے دل کو ایک نیا جذبہ دیا۔ 1982 میں شاہ مراد بیگ کے کلام کی اصلاح کا موقع ملا، جہاں سے ان کی شاعری میں نکھار آیا اور وہ خود کو استادِ سخن کے روپ میں پانے لگے۔

1988 میں  آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال میں بطور ٹیلیفون آپریٹر کام شروع کیا۔ رات کے وقت دفتر میں تنہائی میں شاعری لکھتے اور ایک دن ان کی ڈائری مکمل کتاب بن چکی تھی۔ انہوں نے یہ ڈائری شاعرِ چترال شہزادہ عزیزالدین بیغش مرحوم کو اصلاح کے لیے دی، جنہوں نے صرف ایک مصرعہ سنا کر ان کی ہمت بندھائی

آوا انواز رے کہوریم شالاگو مہ شانی گویانِ

بیغش صاحب نے ڈائری تو لوٹا دی، مگر خود اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ جدائی افضل صاحب کے لیے ایک ناقابلِ فراموش صدمہ تھی۔

اپنے استاد کی جدائی کے بعد جب چشتی صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا، استاد غزل نہیں لکھتا، اصلاح کرتا ہے۔”

چشتی صاحب نے انہیں استادِ سخن محمد عرفان عرفان کے حوالے کیااس صحبت نے افضل اللہ افضل کی شاعری کو نیا وزن، نئی روح عطا کی۔ ان کی شاعری میں محبت، خلوص، اور تہذیبی پیغام ہمیشہ نمایاں رہا۔

عشق، ادب، اور خلوص کا پیامبر کو جہاں پذیرائی ملی، وہیں کچھ حلقوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی ہوا، لیکن انہوں نے کبھی اپنے قلم کی سچائی سے منہ نہیں موڑا۔

افضل صاحب کی مشہور غزل "آچی گوسہ نوَِ”

ان کا ماننا ہے کہ "جس سے عشق ہے، اس سے محبت بھی ہوتی ہے، لیکن اپنے کام سے محبت کا نام عشق ہے۔

1996  میں ٹاون ہال چترال میں ان کی غزل پر پورا ہال کھڑا ہو کر داد دینے لگا یہ لمحہ ایک شاعر کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے۔

چیھرو مجنون کیہ رے آسمان کیشیمان
ٔژندہ پرودئی ای صحرائی نو لیتام
ٔغمٰ دورانو جامہ مست ہونی سف
ٔ عشق جنون نشانی نو لیتام

افضل اللہ افضل قومی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق جنرل یحییٰ خان کا دور چترال کے لیے خوش آئند تھا۔ جنرل مشرف نے چترالی پھکول کو عالمی سطح پر عزت دی، اور چترالی ثقافت کو امن کا نشان بنایا۔

افضل صاحب نوجوان شعرا کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غلام رسول بیقرار اور فیضان علی فیضان کو وہ مستقبل کے روشن ستارے مانتے ہیں۔ افضل کا کہنا ہے

"ہم سب کو محبت بانٹنی ہے، ثقافت کو تقسیم نہیں کرنا۔ کھوار لباس ہماری پہچان ہے، اور محبت ہمارا پیغام۔”

افضل کا پسندیدہ شعر

دنیا شاہانن تاج محل مہ حقہ شہ کھوٹو جازیر
آوا پیدا کورا بیسام یہہ شہ جازیر کی نو بیسیر

واقعی، افضل تو افضل ہے۔ اس کی قدر کیجیے، اس کی شاعری کو سنیے، محسوس کیجیے، اور چترالی ثقافت کے اس روشن چراغ سے روشنی حاصل کیجیے،

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button