شرم کرو حیا کرو، منشیات کو ختم کرو

ضلع کھرمنگ میں آج ایک اہم اور آگاہی ریلی سید طہ موسوی اور شبیر مایار کی قیادت میں نکالی گئی، جس میں منشیات کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ یہ ریلی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی باشعور لوگ موجود ہیں جو اس ناسور کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ریلی میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ معاشرہ منشیات کے بڑھتے ہوئے اثرات سے فکرمند ہے۔
بدقسمتی سے منشیات اب ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں زہر بن کر دوڑ رہی ہیں۔ بازاروں میں شام کے بعد چرس کی بو عام ہونا ایک تلخ حقیقت ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یہ لعنت اب ہمارے ضلع میں آسانی سے دستیاب ہے۔ کھرمنگ جیسے پُرامن علاقے میں منشیات کی کھلے عام دستیابی یقیناً ایک تشویشناک المیہ ہے۔
چار سال قبل جب ایس پی مجید خان صاحب نے منشیات فروشوں کے خلاف ایک مؤثر کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تھے۔ متعدد منشیات فروش گرفتار ہوئے، مگر شواہد کی کمی کی وجہ سے جلد ہی رہا بھی کر دیے گئے۔ تاہم اس کارروائی کا ایک مثبت پہلو یہ رہا کہ کچھ مہینوں تک منشیات فروشی میں نمایاں کمی آئی، مگر اب وہ اثر بھی ختم ہو چکا ہے اور منشیات ایک بار پھر کینسر کی طرح پھیل رہی ہیں۔
گزشتہ روز گلگت سے ایک ہولناک خبر اخبارات کی زینت بنی، جس میں انکشاف ہوا کہ ایک گروہ اسکول اور کالج کے بچوں میں ٹافی کی شکل میں ڈرگز تقسیم کر رہا ہے۔ یہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک الارم ہے کہ ہمیں فوری بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو نشے کی لت میں مبتلا کرنا ایک پورے معاشرے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
امام جمعہ مہدی آباد آغا ہادی الموسوی اپنے جمعہ کے خطبات میں مسلسل اس لعنت کی مذمت کرتے آ رہے ہیں اور واضح انداز میں پولیس اور انتظامیہ کو کارروائی پر زور دیتے ہیں۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ منشیات نے ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے، اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ نہ صرف آغا ہادی الموسوی بلکہ ضلع بھر کی دیگر جامع مساجد کے ائمہ کرام بھی اس مسئلے پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے عملی اقدامات کی شدت وہ نہیں جس کی اب فوری ضرورت ہے۔
اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس کو صرف ظاہری کارروائی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے اندر بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ پولیس کے اپنے کچھ افراد اس لعنت کی پشت پناہی یا خاموشی سے حمایت کر رہے ہوں۔ اگر پولیس خود اپنی صفوں کو پاک نہیں کرے گی تو کسی اور سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
ہمیں بحیثیت قوم، بحیثیت معاشرہ، اور بحیثیت والدین اس لعنت کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کو شعور دینا ہوگا، ان کی تربیت میں خامیاں دور کرنی ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ صرف گرفتاری کافی نہیں، مکمل تفتیش، مضبوط شواہد اور قانونی عملداری ضروری ہے تاکہ منشیات فروش دوبارہ سڑکوں پر نہ آئیں۔
یہ مسئلہ صرف ایک ریلی یا ایک خبر تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اسے ایک تحریک میں بدلنا ہوگا۔ میڈیا، علما، اساتذہ، طلبا، والدین، اور سول سوسائٹی سب کو مل کر منشیات کے خلاف مؤثر آواز اٹھانی ہوگی۔
منشیات کے خلاف یہ جنگ صرف حکومت یا پولیس کی نہیں، ہم سب کی ہے۔
اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔