کالمز
ماس میڈیا اور سچائی

شریف ولی کھرمنگی
بیجنگ
بیجنگ
مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کا قول ہے "سچ کا سننا مشکل ہے، لیکن سچ بولنا بہت زیادہ مشکل”۔ معروف افریقی مزاحمتی رہنما نیلسن منڈیلا کہتے ہیں "سچ بولنا کوئی جرم نہیں ، انکو شرمندہ ہونا چاہئے جو جھوٹ بولتے ہیں”۔ جبکہ نامور مغربی فلاسفر برٹرینڈ رسل کا مشہور قول ہے کہ "دنیا کیساتھ المیہ اس بات کا ہے کہ بیوقوف لوگ بڑے پر اعتماد ہوتے ہیں جبکہ عقلمند شکوک و شبہات میں مبتلا۔” میڈیا اور صحافت کی بات کرے تو صاف واضح حقیقت ہے کہ جتنی افواہیں ہونگی اتنی سنسی ہوگی۔ جتنا کسی مقبول انسان کی مخالفت میں کہانیاں گڑھی جائے اتنی اسکی مقبولیت سے خائف لوگوں میں واہ واہ ہوگی۔ احمق اعتماد کیساتھ چینلز پر جھوٹ بیچتے ہیں۔ اینکر اور ہوسٹ اعتماد کیساتھ حقائق کے منافی بحث میں الجھاتے ہیں۔ یہی نظر آتی حقیقت ہے۔ اسلئے تاکہ سچائی پریویل نہ ہونے پائے۔ کسی کی ناراضگی سے چینل مالکان کے غضب کا شکار نہ ہو۔ ایڈیٹر کی مجبوری بھی یہی ہے کہ کوئی ایسا جملہ سکرین تک نا جائے جو سوشل میڈیا پر چینل مونوگرام کیساتھ وائرل ہو۔ ملازمت لازمی ہے، کیونکہ چینل بڑا نامور ہے۔ یہی المیہ اخبارات کیساتھ ہے۔ یہی کچھ اب سوشل میڈیا کے بلاگرز ، یوٹیوبرز، ٹک ٹوکرز کیلئے وائرل ہونے کا گر ہے۔ یہی جھوٹ سنسنی، خلط ملط کی مجبوری ہی تو آج کی سچائی ہے۔
چشم بینا روزانہ دیکھ رہی کہ مغربی میڈیا میں صیہونی جارحیت پر جھوٹ کا بازار اتنا گرم کیا گیا کہ ہزاروں لوگوں کی المناک اموات پر عقمندوں کی اکثریت افسوس تک نہیں کرتی۔ پڑھے لکھے کہلانے والے کلمہ گو حضرات کے منہ سے اف تک نہیں نکلتا۔ سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھیں، یہ روایتی مذمت اور روایتی نعرے کس کام کے جب اپنے ملک میں زبانی کلامی احتجاج تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن یہی سیاسی حکومتی رہنما بڑی بڑی تقریریں بھی کرلیتے ہیں۔ تاکہ واہ واہ ہوتی رہے۔ سو یہ جھوٹ اور فریب کے عروج کا زمانہ ہے جتنا بڑا چینل اتنی زیادہ سنسنی، جھوٹ اور حضور والا کی مہربانیاں۔ بقول پروفیسر وسیم بریلوی ~
جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں
سچ بولا تو پیاسا مارا جائے گا
مشہور زمانہ "وکی لیکس” کے بانی آسٹریلوی صحافی جولین اسانج کی مثال پوری دنیا جانتی ہے۔ انہوں نے افغانستان اور عراق جنگ میں قیدیوں کیساتھ مظالم اور قتل کے دستاویز لیک کردیں۔ ان الزامات پر اسانج کی گرفتاری لازمی قرار پائی، 7 سال تک وہ اکیواڈور کے لندن سفارتخانہ میں مقیم رہے تاکہ گرفتاری سے بچ سکے، لیکن 2019 میں برطانیہ نے گرفتار کرلیا۔ انکو امریکا حوالے تاحال نہیں کیا گیا، لیکن جن 18 الزامات پر انکے خلاف مقدمات درج ہیں وہ ثابت ہوئے تو 175 سال کی سزا ہوگی۔ پاکستان کے اندر نو سال قبل ایک اہم ایشو اٹھا تھا "ڈان لیکس” کا، جب میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ سکیورٹی میٹنگ لیک ہوگئی، ڈان نیوز میں اسٹوری لگی۔ پریشر آنے پر میاں حکومت کے دو بڑے خاص بندے عہدوں سے رخصتی پر گئے۔ رپورٹ کرنے والے صحافی سرل المیڈا پر پابندیاں لگیں، لیکن خبر مکمل طور پر واپس نہیں لی گئی۔ کچھ سال بعد المیڈا نے ڈان ہی چھوڑ دی۔ ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی۔ لھاذا بات ان عقلمندوں کو اچھے سے معلوم ہے کہ سچ بولنے کے نتیجے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلئے جو جو بھی کبھی کسی طاقتور کی مخالفت کا، کسی جبر کا، کسی توہین کا سامنا نہیں کرتا، یا تو وہ صرف سانس لیتی، کھاتی پیتی، مخلوق ہے کہ سچ جھوٹ سے واسطہ ہی نہیں رکھتا، جیسے کہ بہت سے کردار اردگرد دیکھنے کو ملتے ہیں، یا خوش رکھنے کے گر جاننے والا ہے کہ ہر طرف داد و تحسین ہی کی عادت اور فن رکھتا ہے۔ کسی غلط کو غلط ہی نہیں لکھنا، بس ٹوک میں رہنا کہ ماشاللہ، سبحان اللہ، کرتا جائے۔ ہر دلعزیز بنتا جائے۔ ایک چھوٹی اقلیت ان میں سے ڈیڑھ ہوشیاری دکھانے والوں کی ہے، لکھاریوں، صحافیوں، سیاسی و سماجی کارکنوں کے غلاف میں یہ حضرات، طاقت اور جبر کے خلاف، جھوٹ اور سچ میں فرق بتانے، اصل مسائل کے ذمہداروں کا سامنا کرنے اور بولنے کی ہمت کبھی نہیں کرتا، لیکن داد سمیٹنے کیلئے یہ مذہب اور مذہبی لوگوں کو صبح شام کوستے ہیں۔ انکے نزدیک گویا دنیا کا ہر موجودہ مسئلہ مولویوں کا کھڑا کیا ہوا ہے، اور مولوی ہی انہیں ٹھیک کرنے کی ذمہداری نہیں نبھاسکتی اسلئے، انڈین اگریشین، صیہونی بربریت، میڈیا کے جھوٹ، پراپیگنڈے ، مالیاتی سکینڈلز، اور ہر غلط حرکت کو ایک طرف چھوڑ کر مولوی کو کوسو، جس کی مخالفت پر کوئی جوابی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
عام سمجھنے والی حقیقت ہے کہ ادارتی چھت اور چھتری کے بغیر نیوز ذرائع حقائق سے مختلف، مشکوک یا غیر مصدقہ ہوسکتے ہیں، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ افواہ اور سنی سنائی پر مبنی باتیں ہوتی ہیں، بعض فرمائشی، بعض کسی اور بات کو منظر سے ہٹانے یا کسی غیر معقول ایشو کو ایشو بنانے کیلئے اٹھایا جاتا ہے۔ تبھی صحافتی اداروں کے ایڈیٹوریل ٹیم کسی بھی رپورٹ کی کنفرمیشن کو یقینی بناتی ہے۔ نیوز ادارہ اسکی ذمہداری لیتا ہے۔ ان اداروں کے مختلف عہدوں پر بیٹھے "صحافی” ان براڈ کاسٹ اور شائع شدہ خبروں کی ذمہداری نبھانے اور اس پر کھڑے رہنے کا فرض نبھاتا ہے۔ کسی کی رائے پیش کرنی، ٹیلی کاسٹ کرنی ہو ، شائع کرنا ہو تو اس میں بھی صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق کو فالو کرنے کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے، پھر بھی ادارے کے ویب سائٹ، چینل یا اخبار میں چھاپتے ہوئے واضح کررہا ہو تا ہے، کہ یہ ادارے کی نہیں بلکہ متعلقہ لکھاری کی رائے، بولنے والے کے خیالات ہیں، وہ خود اسکا ذمہدار ہے۔ جبکہ نشرشدہ خبروں کا ادارے کو ہی ہر حوالے سے ذمہ دار اور جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔
اسی بابت آجکل کا تازہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان و بھارت میں ریٹنگ، سرکاری خوشامدی سے فنڈنگ، اور ایڈورٹائزنگ کے مقابلے میں لگے میڈیا ہاوسز اور انکے ہوشیار ملازمین، خاص طور پر ڈیسک ایڈیٹنگ، نیوز اور پروگرام کاسٹ کرنے والے، خود سوشل میڈیا پر عوام کو اپنے اور اپنے اداروں کے ناقابل یقین ہونے کی یقین بار بار دلاتے ہیں۔ "دی ہندو” کی حالیہ تردید اس کی ایک مثال ہے۔ جب اس نے پہلے پہل تین طیاروں کے گرنے کی خبر لگائی اور سرکاری سورس کا بھی بتایا۔ کچھ گھنٹے بعد اس خبر کو ہٹا دی اور تردیدی خبر شائع کردی، اس تردیدی پوسٹ کے سوشل میڈیا پر لگتے ہی ہزاروں بھارتی شہریوں کی طرف سے برے کمنٹس لکھے گئے، جس پر کمنٹ سیکشن بند کرنا پڑگیا۔ یہ تازہ چشم دید مثال ہے۔ جو "صحافی” لوگ اپنے چینل پر، اخبار میں، ڈیسک پر، جھوٹی خبریں لگانے کی ملازمت کرتے ہیں، تاکہ انکی تنخواہ چلتی رہے، اور پھر سوشل میڈیا پر درشن دیتے ہیں کہ خبر جھوٹی ہوتی ہے، ذریعے جھوٹے ہیں، سورس غلط ہے، تجزیہ و تحلیل غلط ہے۔ یعنی کہ ایسے حضرات اپنی زبان سے ہی اپنی نوکری اور ذمہداری کو جھوٹی خبروں کیلئے استعمال ہونا ثابت کررہے ہوتے ہیں۔