کالمز

اخلاقیات کا بحران

تحریر: محمد جان رحمت جان

انسانی تاریخ کے لمبے عرصے میں جہاں انسان نے جسمانی‘ ذہنی‘ روحانی‘ معاشی اورتعلیمی انقلابات برپا کئے وہاں اس نے اخلاقیات کی دنیا میں بھی زیروبم دیکھا۔ ماضی میں پتھر‘ زراعت‘ صنعت‘ ذرائع آمدورفت اورذرائع ابلاغ کی ترقی نے انسانی وہم وگمان سے بھی زیادہ زندگی کے ہرشعبے میں عروج حاصل کی ہے۔ اِس ترقی کے کئی پہلوقابل غور ہیں۔ انسان کی سادہ زندگی کو مادیت کی پیچیدگیوں نے گیر رکھاہے۔کھانے پینے‘ لباس‘ زبان اوررہن سہن کے ایسے معیاروں نے جنم لیا ہے جن کی سمجھ عام آدمی کی سوچ سے باہر ہے۔ جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے یوں کرچکے ہیں، ’ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت‘ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات‘۔
عبدالکریم سروش، Reason, Freedom, and Democracy in Islamمیں لکھتے ہیں کہ؛
‘If there is to be an invitation to morality, it will have to be toward concrete and accessible rules, not toward some abstract ideas that bend to any conceivable form yet solve no specific moral dilemma.’
ایک اور مفکر Soren Kierkegaardکہتے ہیں؛
‘The ethical individual dares to employ the expression that he or she is his own editor, but he is also fully aware that he is responsible for himself personally … responsible to the order of things in which he lives, responsible to God.’
انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا نے اخلاقیات کو فلسفے کی شاخ قرار دیا ہے جو اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لئے معیاری اخلاقی کسوٹی یا طریقِ کار کا تجزیہ ، جانچتا اور اسے فروغ دیتا ہے۔ لانگ مین ڈکشنری نے اخلاقیات کو ایسے نظریات و عقائد قرار دیا جو لوگوں کے طرزِ عمل اور رویّے کو متاثر کرے۔ انسان کے حوالے سے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ انسان اس دُنیا میں مجبور ہے۔ وہ اختیار و ارادے کا مالک نہیں۔ اس نظریے کے مطابق پیدائش، مزاج، وراثت کے اثرات، ماحول کے اثرات اور تعلیم و تربیت ہی انسان کی شخصیت کو بنا لیتے ہیں اور وہ معاشرے کا ایک کردار بن جاتا ہے۔ جیسا کہ شیکسپیئر کے ڈرامے میں بتایا گیا ہے۔ ہر فرد اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کی پیدائش، شکل و صورت، مالی حالت وغیرہ کوئی چیز آپ کے ہاتھ میں نہیں۔ اس نظریے کو (Physical determinism) طبیعیاتی جبر کہا جاتا ہے یعنی انسان کا کردار ایک مشین سے زیادہ کچھ نہیں۔ زندگی کا یہ میکانیکی تصور مان لیا جائے تو اخلاق کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا ہے۔ مشین آپ کا ہاتھ کاٹ لے تو آپ مشین کو بُرا نہیں کہہ سکتے۔ اسے سزا نہیں دلوا سکتے، گویا آپ اس پر اخلاقی قدروں کا اطلاق نہیں کر سکتے۔ کیونکہ مشین کا نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی اختیار وہ تو مجبورِ محض ہے۔

مشینوں کو سزا دینے کیلئے پولیس اور عدالت کی ضرورت نہیں، وغیرہ۔ مسلم علم الکلام میں انسان مجبور ہے یا مختار کو تقریباً پانچ سو سال تک زیر بحث لایا گیا۔ مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا اگر اس نظریے کو کلّی طور پر تسلیم کیا جائے تو انسان اپنے اعمال کا ذمّہ دار نہیں رہتا۔ وہ تو وہی کرتا ہے جو اس کی سرشت میں رکھی گئی ہے۔ وِکی لیکس اور پانامہ لیکس نے تحفّظِ ذات کے ساتھ ساتھ تحفّظِ راز بھی قصّۂ پارینہ بنا دیا ہے اور شاید مستقبل میں تحفّظِ راز کی ضرورت کو ٹیکنالوجی ہمیشہ کیلئے دفن کر دے۔ دوسری طرف خود انسان بھی تحفّظِ راز کو غیر اہم بنا چکا ہے۔ رازوں کا راز جنسی تعمل اب دُکانوں میں یا برقیاتی لہروں پر ہمہ وقت دستیاب ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ اور لہروں کی ٹیکنالوجی نے ثقافتی اور روایتی حیا کا پردہ بلا آواز بہت پہلے پھاڑ دیا ہے۔ پردہ داری نہیں تو پردہ کیوں؟ اب ان اعمال کو چھپانا اعلیٰ معاشرتی مقام سے آدمی کو گرا دیتا ہے۔یہ تمام وہ باتیں ہیں جو مختلف کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں۔ اپنے ارد گرد کی نظر سے ہر آدمی محسوس کر سکتا ہے کہ اخلاقیات کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ علماء اور زعماء اپنی بھرپور کوشش کے قدیم اخلاقی اقدار نافذ کرانے میں ناکام نظرآتے ہیں کیونکہ میڈیا کی یلغار نے ثقافتوں کو ایسے یکجا کر دیا ہے کہ بہت شدت پسند لوگ بھی اپنی ثقافتی شناخت کے آگے بے بس ہیں۔ دین دنیا کے الگ مناہج کے ماننے والے اب اخروی دنیا کے چندباتوں سے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں لیکن مادیت پسند نئی نسل دلیل و منطق کے علاوہ نہ ماننے کی رٹ لگا بیٹھی ہے۔ پچھلی نسل کے لوگ اپنے زمانے کے اقدار کو حرف آخر جبکہ نئی نسل کے لوگ اپنے مطمع نظر سے اپنے لئے روز نئے اقدار ترتیب دے رہے ہیں۔ اس مسابقتی عمل میں سادہ لوح لوگ کنفیوژ ہیں۔ یہی وجہ سے کہ بعض لوگ معاشرے میں اخلاقیات کے بحران پر بولتے ہیں۔

اخلاقیات کے دینی تناظر میں عظیم مقام ہے لیکن سیاق و سباق کے لحاظ سے بعض اوقات اخلاقات کا مفہوم بدلتا رہتا ہے۔ اخلاقی جوہر کی سمجھ انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری دنیا کے سات بڑے خطوں کی بات کریں تو اخلاقیات کے اپنے اپنے پیمانے نظرآتے ہیں۔ ماضی میں ہر خطے کی اخلاقیات اُس خطے میں مضبوطی کے ساتھ رواج میں تھی لیکن اب میڈیا کی وجہ سے عالمی سطح پر اخلاقی اقدار کی سمجھ میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جن کی مثال کھانے پینے‘ رہن سہن‘ زبان اور معاشی پیمانے سے دی جاسکتی ہے۔ ایک چیز کھانے میں کسی خطے میں عام اور حلال ہے تو وہی چیز کسی اور خطے میں ممنوع اس طرح ایک لباس ایک خطے میں رائج ہے دوسرے میں ممکن نہیں۔ مذہبی رواداری اور تحمل جیسے انسانی رویوں کے پیمانے ماند پڑتی جارہی ہے۔بڑے بڑے مذاہب کے ماننے والے بھی لاکھوں تشریحات کی کتابوں کی موجودگی کے باوجود اپنے اعمال سیدھا رکھنے میں جدید زمانے کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔ نت نئے ایجادات اور آلات انسانی زندگی میں بہت متاثرکن حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اخلاقیات کے حدود واضح ہونے کے باوجود پیچیدہ بنتے جارہے ہیں۔ حالات کی کسوٹی پرکھنے والے بھی دن بدن کے بدلتے ماحولیاتی احوال سے اگتا چکے ہیں۔

شہر اور گاؤں کی زندگی کے مسابقاتی تگ ودو میں لوگ شہر کو مہذب اور گاؤں کی زندگی کی روایات پرستی سمجھتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ اپنی روایت پرستی کے عروج میں جبکہ شہر کے لوگ اجتماعی اخلاقیات کی ذد میں نظرآتے ہے۔ لین دین اور ملازمتوں کی دنیا میں اقدار کی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ دیہاتی اقدار اور روایتی پرستی کے دم ٹوٹنے لگے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل اور پچھلی نسل میں تضادات کی سرد جنگ جاری ہے۔ نئی نسل پچھلی نسل کو قدامت پرست اور روایت پرست کہتے ہوئے خود کو شہری اور دیہاتی زندگی کی امتزاج سمجھنے لگے ہیں۔ میڈیا کے یلغار اور سوشل میڈیا کی پھیلتی سرحدات تعلقات کی حدود میں وسعت پیدا کرچکے ہیں۔ نئی دنیا میں دوستوں کی تعداد ہزاروں میں ہونے کے باوجود عملی زندگی میں کوئی ساتھ نہیں۔ سکرین میں محو لوگوں کی وجہ سے نجی ذاتی تعلقات اور خاندانی نظام کی جڑیں ہلنے لگی ہیں۔ برادری اور رشتہ داریاں عملی کم فیس بُک پر زیادہ پھیلتی جارہی ہیں۔ شادیوں کی تقریبات ہو یا سالگرہ کی، موت وحیات کی تقریبات میں شرکت کم جبکہ فیس بُک ٹیوٹر ی دیگر ان لائین انٹرنٹ پر زیادہ نظرآتی ہیں۔ معلومات تک رسائی اور ان لائین سہولیات کی وجہ سے لوگ کتابوں اور اساتذہ کی موجودگی کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں اس صورت حال میں ابن الوقت اساتذہ اور کتابیں ہی قارین کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ بازاری کھانوں اور طرح طرح کے بنے بنائے چیزوں کی وجہ سے لوگ دیسی چیزیں کھانے سے اجتناب کررہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں کے لوگ گھر کے کھانوں سے بازاری کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گھریلو ماحول اور خاندانی مل جول میں تنزولی آنے لگی ہے۔ پُرانے لوگ اپنے وقت کی داستانیں سناتے سناتے جدید دور کے ایجادات کو اقدار و روایات سے متسادم قرار دیتے ہیں۔ خلوص و محبت کی داستانیں سنانے والے نئی نسل سے بھی یہی سلوک چاہتے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی کو کچھ لوگ ترقی کے نام سے راتوں رات اپناتے ہیں کچھ احتیاط برتتے ہیں اور کچھ مزاہمت پر کمربستہ ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی گھر میں تین سے زیادہ طبقات نے جنم لیا ہے۔ لوگ انفرادی زندگی کو اجتماعی سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے’دکھ یہ نہیں کہ ہم کو زمانہ برا ملا، غم یہ کہ ایسے زمانے کو ہم ملے‘۔

بحرحال اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے جوہر کے ساتھ عمل کیا جائے۔ فی زمانہ ہر چیزعالمی بنتا جارہا ہے۔ گلوبل ویلج کی گلوبل نظریات جنم پا رہے ہیں یہاں تک کہ مذاہب‘ فقہ، سیاست‘ زبان‘ ثقافت‘ رہن سہن‘ سماجی تعلقات‘ خاندانی مراسم‘ دوستیاں اور تعلیمی نصاب میں بھی عالمی عناصر اثرانداز ہورہے ہیں۔ سب کے سب عالمی تناظر اپنانے کی سعی میں لگے ہیں۔ بظاہر مخالفت کے سب لوگ عالمی دیہہ کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ اپنے اپنے روایات کے نرم گوشہ حصوں سے نئے اقدار بن رہے ہیں تاکہ ’ آئین نو سے ڈرنا طرز کُہن پہ اڑنا، منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں‘۔ اپنے اقدار اور روایات کے عالمی پہلو کی نشاندہی ہی سے بین الاقوامی دنیا میں اقوام عالم کا مقابلہ ممکن ہے بصورت دیگر دوسرے اقوام غالب آنے کا خدشہ رہے گا۔ اخلاقیات کے بحران کا مقابلہ تبھی ممکن ہے جب ہم سب عالمی سیاق میں اپنی زندگی کا قبلہ درست رکھیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button