کالمز

جدید تہذیب کی آدم خوری

اچھے ادب کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے ثقافتی و سماجی ماخذ سے ماورا ہوکر ایک عالمگیر معنی و استعارہ بن جاتا ہے۔ یوں اس کے معنی ابتدائی معنی سے بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بدیشی ادب ہماری دیسی صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک ادبی شاہکار جرمن لوک ادب کا ہے جسے ہیملن کا بوقلمونی بانسری والا
The Pied Piper of Hamelin
یا ہیملن کا چوہے پکڑنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ لوک داستان جرمنوں کے اجتماعی لاشعور اور ادبی شعور کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لئے یہ داستان ہر دور میں جرمنی کے مشہور دانشوروں اور ادیبوں کی تحریروں میں جگہ پاتی رہی ہے۔ اب تو مغربی ادب میں pied piper یا بوقلمون بانسری والا ایک ایسے شخص کے لئے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو لوگوں کو جھوٹے وعدوں سے اپنی طرف راغب کرتا ہے۔
ذاتی طور پر میرے لئے پاییڈ پائیپر کی کہانی کے معنی ہر دور میں مختلف رہے ہیں۔ بچپن میں مجھے یہ جادوئی دنیا کی دلکش افسانوی کہانی لگتی تھی مگر ہوش سنبھالتے ہی اس کا سحر ختم ہوگیا۔ جوانی میں مجھے اس بانسری کی جادوئی قوت کو حاصل کرنے کا شوق لاحق ہوگیا تاکہ میں کسی حسینہ خیال کو اپنی طرف راغب کرسکوں مگر ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ موسیقی کا سوفٹ ویئر میری شخصیت کے اندر موجود ہی نہیں تھا۔ پھر فلسفے کے خشک منطق کے زیر اثر یہ داستان مجھے ایک فرسودہ و پسماندہ دیومالا ذہن کی پیداوار لگنے لگی۔
پچھلے کچھ دنوں سے انڈیا اور پاکستان میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں اور میڈیا پر جنگی جنونیت نے سخت ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ اس جنونیت سے بچنے کے لئے میں نے اپنی ایک زیر تکمیل کتاب کو مکمل کرنے کی ٹھانی۔ اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ثقافتوں کے دیومالا اور لوک ادب کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس دوران جرمن زبان کے لوک ادب کی مشہور کتاب برادرز گرم زیر مطالعہ تھی۔ اس میں ہیملن کے بانسری والے کی کہانی پھر نظر سے گزری۔ اس دفعہ اس کہانی میں یکسر مختلف معنی کھلنے لگے۔ کہانی کے ختم ہوتے ہی میں اس کے ان نئے پہلووں پہ سوچنے لگ گیا۔ کافی دیر بعد بکھرے افکار ترتیب پانے لگے۔ مجھے اب واضع طور پر سمجھ آگیا کہ کسی بھی تحریر کی قرات ایک علیحدہ عمل نہیں بلکہ عصر حاضر کا معروض اس پر اثر انداز ہوکر نئے معنی کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی کچھ ہیملن کی کہانی پڑھتے ہوئے میرے ساتھ ہوا۔ جوں جوں میں اس کو پڑھتا گیا توں توں انڈیا اور پاکستان کی موجودہ صورتحال میری قرات اور معنی پر اثر انداز ہونے لگی۔ اس تحریر کا مقصد اس کہانی سے ابھرتے ہوئے نئے معنی کی ابلاغ کرنا ہے۔
جرمنی میں قرون وسطی کے دور کی ایک داستان مشہور ہے جس میں ہیملن کے قصبے میں چوہوں کی بہتات ہوتی ہے جو طاعون کا سبب بن سکتے تھے۔ ایسے میں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بانسری بجاتے ہوئے ایک شخص نمودار ہوتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ وہ اپنی بانسری کے جادو کے ذریعے اس قصبے سے چوہوں کی وبا کا صفایا کرسکتا ہے۔ قصبے کا میئر اس سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوا تو اسے ایک ہزار گلڈرز (اس وقت کی جرمن کرنسی) ادا کریگا۔ اس آفر پر بوقلمونی لباس میں ملبوس پائیپر(بانسری والا) بانسری بجانا شروع کردیتا ہے۔ بانسری کی جادوئی آواز سن کر سارے چوہے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پھر وہ چوہوں کو قصبے سے باہر لے جاکر کر ایک تالاب میں ڈبو دیتا ہے۔ اگلے دن بانسری والا قصبے کے لوگوں سے اپنی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے، مگر میئر سمیت لوگ اس کی اجرت ادا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ الٹا لوگ پائیڈ پائپر پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ قصبے میں چوہے قصدا لایا تھا تاکہ وہ ان سے چوہوں کو باہر نکالنے کے پیسے بٹور سکے۔ اس وعدہ خلافی پر بانسری والا طیش میں آجاتا ہے اور ان سے کسی اور موقعے پر انتقام لینے کی دھمکی دیکر قصبے سے نکل جاتا ہے۔
پھر کچھ عرصے بعد بانسری والا سینٹ پال کے تہوار کے دن سبز رنگ کا شکاری لباس پہنے ہیملن کے قصبے میں نمودار ہوتا ہے۔ قصبے کے سارے بڑے اور بالغ تہوار کی وجہ سے چرچ میں جمع تھے۔ اس دوران بانسری والا اپنی جادوئی بانسری بجاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے اس نے بانسری کی آواز سے چوہوں کو بلوں سے باہر نکالا تھا، اسی طرح وہ بانسری کی مدھر سروں سے ۱۳۰ بچوں کو لبھا کر ان کے گھروں سے نکال کر قصبے سے باہر لے جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد پائیڈ پائیپر نے سارے بچوں کو دریا میں ڈبو دیا تھا۔ اس طرح ہیملن کے قصبے سے سوائے تین بچوں کے باقی سارے بچوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اس جرمن لوک کہانی اور انڈیا و پاکستان کے موجودہ حالات کے میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ آج کی دنیا کی سائنسی ترقی پر عصر حاضر کا انسان بہت نازاں ہے۔ اب علمی فخر اور طاقت کے گھمنڈ کے حصول کیلئے دنیا کے ہر ملک نے سائنسی ترقی کو پوجنا شروع کردیا ہے۔ اس وجہ سے ترقی ہی انسانیت کا واحد معیار رھ گئی ہے۔ اس علمی و سائنسی ترقی میں انسانیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے تہذیب کی ترقی کا ایک غلط تصور اپنایا ہے۔ اس نئی تہذیب کی تشکیل پیسے، پاپولیزم اور سائنس نے کی ہے۔ اب پرومیوتھییس کے علم کی آگ اس دنیا کو چند سیکنڈوں میں نیست و نابود کرسکتی ہے۔ جس آگ نے ہمارے ذہنوں کو روشن کرنا تھا، وہ اب کرہ ارض کو جلا رہی ہے۔ چونکہ جدید تہذیب کے پیچھے کارفرما سوچ ہی غلط ہے، اس لئے اس تہذیب کا ہر ادارہ اور حاصلات بھی غلط ثابت ہورہے ہیں۔ صائب تبریزی
خشت اول چوں نھد معمار کج
تا ثریا میرود دیوار کج
پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا ( آسمان ) تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
آج انسان چاند تک پہنچ چکا ہے، مگر اانسانیت بھلا چکا ہے۔ مزید یہ کہ انسان نے انسان دوست الفاظ سازی کی صلاحیت بھی کھو دی ہے۔ اب عام لوگوں کی زندگیوں میں وہ الفاظ آرہے جو ہتھیاروں کی فیکٹریوں سے تیار ہو کر نکل رہے ہیں۔ ڈرون، لیزر گائڈڈ بم اور میزائیل، ایف سولہ، رافیل، جاسوسی سٹیلائیٹ، ڈیٹکٹر وغیرہ عام لوگون کی ذہنی خوراک ہیں۔ اوپر سے جتنا جدید ہتھیار ہوگا، ہم اتنا ہی فخر محسوس کرینگے۔ اس کے مضمرات انڈیا اور پاکستان کے عوام کے رویوں سے واضع ہورہے ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ہر نئے ہتھیار کی ایجاد تہذیب کی ترقی نہیں، بلکہ تہذیب کا آدم خور بننے کی طرف ایک جست ہے۔ جدید دور کے انسان کو علم اور جمہوریت بھی آدم خوری سے نہیں بچا سکتے۔ اب تو علم خود نئے قسم کے آدم خوری کے ذرائع پیدا کررہا ہے اور جمہوریت کے نام پر جنگیں تیار کی جا رہی ہیں۔
سگمنڈ فرائیڈ نے بجا طور پر جدید دور کی جنگوں کو بِالْواسْطَہ آدم خوری کہا تھا۔ آج کل بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کو آدم خوروں کے لیے قصائی کی دکان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ان دکانوں میں ذبح کرنے کیلئے اوزار و ہتھیار ترقی یافتہ مملک کے بیوپاری فروخت کررہے ہیں۔ ان بیوپاریوں کے پاس جدید سائنسی علوم سے بندھے لوگ بغیر سماجی ضمیر کے غلاموں کے طور پر کام رہے ہیں۔ آج کی دنیا کا المیہ بھی یہی ہے کہ ذہین لوگ لیبارٹڑیز میں ہیں، اور بے وقوف اور پاپولسٹ حکمران ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ علم سے لیس اور انسانیت سے عاری ایسے موجدوں اور ان کی سائنس پر بھی سوال اٹھایا جائے۔ ورنہ ترقی کے نام پر ہم ہیملن کے بچوں کی طرح خون کے دریا میں ڈوب مرینگے۔ یوں انسان کی پوری نسل تباہ ہوجائیگی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا کہ ہیملن کے قصبے میں تین بچے رھ گئے تھے۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ بچنے والے بچے کون تھے؟ ان میں ایک اندھا تھا جو دیکھ نہیں سکا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ اس لئے وہ رھ گیا۔ دوسرا بہرا تھا جو بانسری کی موسیقی کو سن نہیں سکا، اس لیے گھر سے باہر نکلا ہی نہیں۔ تیسرا اپاہج تھا جو چل ہی نہیں سکا۔ جب لوگ چرچ سے باہر نکل آئے تو انہی بچوں نے ہی گاوں والوں کو دوسرے بچوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
آج جو لوگ جنگی جنونیت میں مپتلا ہوکر جنگ کے طبل اپنا بغل بجا رہے ہیں، وہ اپنے سماج کو مکمل طور پر معذور بنا رہے ہیں کیونکہ جنگ جوان بچوں کو اپاہج، اندھا، اور بہرا کردیتی ہے۔ جنگ کی حمایت کرنے والے رہنما پیڈ پائپر کی طرح ساحر ہیں جو لوگوں کو اپنے جھوٹے وعدوں اور خیالی عظمت کے سحر مبتلا کرکے قوم کو اجتماعی طور پر خون کے سمندر میں ڈبو دینگے۔ یاد رکھیں، اس تہذیب کے خاتمے پر دنیا میں خالی ٹینک اور جہاز رھ جاینگے مگر ان کو چلانے کے لئے کوئی نہیں بچے گا۔ اگر اس تباہی سے بچنا ہے تو سائنس کو بھی لگام دینا پڑیگا کیونکہ آج کی تہذیب میں سائنس پر انسانوں کو مارنے کے طریقوں کو ایجاد کرنے پر زیادہ پیسے لگائے جارہے ہیں مگر حکومتیں زندگی بچانے کے لئے اس کا عشر عشیر بھی نہیں لگاتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ کرونا کے وبا کے دوران انڈیا اور پاکستان میں دیکھنے کو ملا جب ان دونوں ملکوں کے پاس ہسپتالوں میں وینٹیلیٹر سے زیادہ میدانوں میں ٹینک تھے۔ آج جس طرح ہم مارنے کی سائنس پر توجہ مرکوز کی ہے، ایسی تہذیب کا مقدر مرنا ہی ہوتا ہے۔
پینٹنگ میں ہیملن کے بچوں کو پائڈ پائپر کے پیچھے چلتے ہوئے ہیملن کے قصبے سے باہر نکل رہے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button