آپ کی تحریریںاہم ترینبلاگز

ماؤں کا عالمی دن اور ہماری سیدھی مائیں

ماؤں کا عالمی دن اور ہماری سیدھی مائیں

اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم وہ آخری نسل ہیں جن کی مائیں سادگی میں ید طولی رکھتی ہیں اور دیکھا جائے تو یہ بات بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ بسا اوقات لگتا ہے کہ ہم وہی آخری نسل ہیں جن کی ماؤں کو صرف محبت سے تخلیق کیا گیا ہے۔ جن کی مٹی میں وفا اور لفظوں میں خلوص ہے۔ جب ہم لفظ "ماں ” کہتے ہیں تو لبوں پر شیرینی سی چھا جاتمی ہے۔ ایک ایسی ہستی کا چہرا سامنے آجاتا ہے جو مسکان چہرے پر سجائے، دعاؤں میں ہرساری کامیابی اور کامرانی کی دعائیں ہمارے حق میں مانگتے ہوئے اور ہماری خیریت کے لیے شدید متفکررہتی ہے۔ ایک عورت جب "ماں ” بن جاتی ہے تو وہ دل سے اس لفظ "ماں” کا مان رکھتی ہے۔ وہ اس لفظ کے لیے جان کی بازی لگا دیتی ہے۔ اپنی خوشیوں، آرزوں اور ہنسی کو سمجھوتوں اور برداشت کی صلیب پر چڑھادیتی ہے۔

ہم دن رات جدید موبائل پر بیٹھنے والی نسل جس کا اسی فی صد وقت موبائل پر ہی گزرتا ہے کیسے جان سکتی ہیں کہ ہماری مائیں موبائل سے زیادہ بچوں کو سامنے بٹھا کر باتیں کرتی ہے۔جب وہ ہمیں پکارتی ہیں اور موبائل پر مصروف ہونے کی وجہ سے ہم ان کی آوازوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ ماں کس تنہائی اور کرب سے گزرتی ہے ہم کیسے جان سکتے ہیں۔ ہماری سیدھی سادھی مائیں اولاد کے چہرے کو سکرین سمجھ کروہاں سجی دکھ ، محبت، خوشی اور احساس کی ساری تحاریر پڑھتی ہیں اور بچوں کی ہنسی کی آواز اس ماں کے لیے دنیا کی سب سے خوب صورت "رنگ ٹون” ہوتی ہے۔ وہ دن رات یہی ہنسی سننا چاہتی ہے۔ اس کی سوشل دنیا انہی بچوں کے گرد گھومتی ہے جہاں دستر خوان پر سارے بچوں کو ایک ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانے کو وہ کائنات کا سب سے بڑا فن سمجھتی ہے۔ وہ کم پڑھی لکھی ہے لیکن بچوں کے پیچھے محدود علم کے ساتھ استانی بن کر پھرتی ہے۔ اسے شوہر کی محبت ملے یا نہ ملے پھر بھی وہ بچوں کو سینچ سینچ کر روز محبت کی وادی میں لے جاتی ہے۔ وہ بچوں کو وفا اور خلوص کی گھٹی پلاتی ہے۔انہیں محبت کے بستر پر سلاتی ہے۔ انہیں روزسکھ کی آواز دے کر جگاتی ہیں۔

ہماری مائیں! شدید بیمار ہوں پھر بھی اولاد کی ذرا سی آواز پر تڑپ اٹھتی ہیں۔ اپنی بیماری کو بھول کر اولاد کے پیچھے محبت کا مرہم لیے پریشان پریشان سی پھرتی ہیں۔ ہماری مائیں صبح اٹھتے ہی ہماری بلائیں لیتی ہیں۔ ماتھے پر بوسہ ثبت کرتے ہوئے ہر روز ہمیں آفس، سکول، کالج ، یونیورسٹی کے لیے ایسے وداع کرتی ہیں جیسے کسی فوجی کو بارڈر پروداع کیا جاتا ہے۔ اولاد سے دوری سے کسی جگہ پر کہیں اثر پڑے یا نہ پڑے ماں کا آنچل صرف آنسوؤں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ہم وہ آخری نسل ہیں جن کی مائیں موبائل کے تراکیب نہیں جانتیں۔ وہ حیات کے تراکیب کو اولاد کی محبت میں ڈھونڈتی ہیں۔ جس رات بجلی کڑکتی ہے۔ بادل گرجتے ہیں اور باقی دنیا ایک کونے میں اپنی دنیا میں مصروف ہوتی ہے تو ماں کے ذہن میں صرف اولاد کی روشنی جل رہی ہوتی ہے۔ جب زور سے بجلی کڑکتی ہے تو وہ اس چھوٹے سے بچے کو بانہوں میں بھر لیتی ہے جوابھی ڈر کے مفہوم سے آگاہ ہورہا ہوتا ہے۔ اس کے بالوں میں ہاتھوں کی کنگھی کرتے ہوئے اسے دادی اماں کی کہانیاں سنانے والی ہماری سیدھی سادھی مائیں نہ کسی دن کو جانتی ہیں نہ کسی رات سے آگاہ ہیں۔ وہ بس چوبیس گھنٹے کی مزدور ہیں۔

ہماری پرانی مائیں موبائل سے بھی قدرے ناآشنا ہیں۔ وہ کم پڑھی لکھی ہیں مگر گھر کو یوں سنھبالتی ہیں جیسے کسی کمپنی کا سی ای او اپنے دفاتر کو سنھبالتا ہے۔ یہ ماں بسا اوقات شوہر کی اور اپنوں کی محبت کو ترستی پائی جاتی ہے۔ اولاد ہونے کے بعد اس کو طرح طرح کے طعنے بھی ملتے ہیں اور اگر اولاد میں بیٹی ہوجائے تو اسے سینے سے لگائے سارے جہاں سے لڑتے، روایتوں سے لڑتی یہ ماں کسی جنگ میں کھڑی سپہ سالار کی مانند کھائی دیتی ہے۔

اس ماں کو فیس بک کا نہیں پتا۔ یہ ٹوئیٹر سے آگاہ نہیں۔ یہ سبزیاں کاٹتے ہوئے یا کھانا بناتے ہوئے اپنی اولاد کے”فیس” کو مکمل "کتاب” سمجھتی ہے۔ یہ وٹس ایپ پر رسمی پیغامات نہیں بھیجتی۔ یہ مدر ڈے بھی نہیں مناتی۔ اسے نہیں پتا کہ کوئی مدر ڈے بھی ہوتا ہے۔ یہ بس روز گھر کے آنگن کو محبت سے سجاتی ہے۔ برداشت کی موتیاں چن کر انہیں وفا کے پردوں میں پروتی ہے اور دن رات گھر کو خوب صورت بنانے کی جدوجہد کرتی ہے۔ محبت کے گملے میں روز خوب صورت لفظوں کا پانی دیتی ہے۔ اسی لیے یہ "ماں ” کہلاتی ہے۔ جب کوئی اس کے بچوں کی طرف ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو بپھری ہوئی شیرنی بھی بن جاتی ہے۔

آج ماؤں کا عالمی دن ہے ۔ ہم عام طورپر ہر اس ماں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو جدید دنیا سے آگاہ ہیں مگرکسی گاؤں میں مردوں کے شانہ بشانہ ہل جوتتے، کھیتوں میں کام کرتی وہ ماں جو گوبر کی تھاپیاں لگاتی ہوئی اور سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی سے عرصے بعد گھر لوٹنے والے بچوں کی تواضع کرتی اس ماں کو ہم اکثر فراموش کربیٹھتے ہیں۔ ہم اسے خراج کم ہی پیش کرتے ہیں۔ صحن میں رکھی چارپائی پر روز شہر میں بسے بیٹے کی محبت میں آنسو بہاتی ماں سے اکثر ہم نظریں چرا جاتے ہیں۔ وہ ماں جس کے پلو سے پھر اولاد کی صرف یادیں بندھی رہ جاتی ہیں۔ جو روز کچی چھت پر جاکر پکے سڑکوں پر دنیا کی دوڑ میں آگے نکلتی ہوئی اولاد کا انتظار کرتی ہے تو کبھی بچوں کی یاد میں پردیس سے آنے والے ہر شخص میں انہیں ڈھونڈتی ہے۔ یہ ماں جو کبھی ٹیپ ریکارڈر میں لمبی گفتگوئیں بھر کو اولاد کی بلائیں ہاتھوں سے لے کر اسے بھیجا کرتی تھی ، کبھی خطوں کی خوشبو کو دامن سے سجائے حرف حرف پر بچوں کا گماں کرکے روز انہیں یاد کرکے آنسو بہاتی تھی۔ وہ ماں وٹس ایپ پر اولاد سے ویڈیو کال کرتی ہے تو جیسے بکھر جاتی ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ وٹس ایپ پیغامات مٰں بھی بچوں کی خوشبو محسوس کرلیتی ہے۔

آج اسی سادہ سی ماں کا عالمی دن ہے۔ جوصرف محبت سے معمور ہے ۔ جسے اس کے شوہر سمیت خاندان والے اکثر جاہل کا طعنہ بھی دیتے ہیں مگر وہ بڑے بڑے علم والوں سے زیادہ عالمہ ہے کیوں کہ اس کے پاس محبت اور اپنائیت کا علم ہے۔ وہ محبتیں تقسیم کرتی ہے اور ہم بغیر کچھ سوچے کہہ دیتے ہیں ہماری مائیں بہت سادہ ہیں وہ کچھ نہیں جانتیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button