کالمز

گانچھے اور جمہوریت کا خلا

ضلع گانچھے گلگت بلتستان کا وہ گوشہ ہے جو ایک طرف اپنی قدرتی خوبصورتی، ثقافتی تنوع اور روایتی ہم آہنگی کے لئے مشہور ہے تو دوسری طرف قومی دفاع کی فرنٹ لائن پر موجود ہونے کی وجہ سے ایک خاص اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل بھی ہے۔ یہ ضلع نہ صرف پاکستان کے اندرونی اضلاع سے متصل ہے بلکہ سیاچن گلیشیئر کے مقام پر براہِ راست بھارت سے بھی جُڑا ہوا ہے شیوک سیکٹر چھوربٹ میں بھی پاک بھارت سرحد واقع ہے سلترو، ہوشے، تھلے اور کندوس جیسے علاقے، جہاں روزمرہ زندگی بھی ایک چیلنج ہے، وہی علاقے ہمارے قومی دفاع کی پہلی صف میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

یہاں کے باسی صرف پرامن شہری نہیں بلکہ وہ سرحدی محافظ بھی ہیں جنہوں نے برفانی موسموں، کٹی ہوئی راہوں، اور معاشی پسماندگی کے باوجود حب الوطنی کا پرچم بلند رکھا ہوا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اتنی اہمیت رکھنے والا یہ ضلع سیاسی طور پر محدود نمائندگی کے باعث پیچھے رہ گیا ہے۔ موجودہ انتخابی حلقہ بندیاں تین حلقوں تک محدود ہیں، جو کہ ضلع کی وسعت، آبادی اور زمینی حالات کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی حلقہ حد سے زیادہ وسیع ہو جائے تو وہاں کے نمائندے کے لیے ہر علاقے تک یکساں رسائی، توجہ اور خدمت ممکن نہیں رہتی۔ یہی صورتحال گانچھے میں بھی ہے۔ حلقہ تین، جو سرموں سے لے کر سلترو اور کندوس ویلی تک پھیلا ہوا ہے، ان تمام دور افتادہ علاقوں پر مشتمل ہے جو پہلے ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جب ان علاقوں کو ایک ہی حلقے میں نسبتاً بہتر سہولیات رکھنے والے علاقوں کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے تو پسماندہ علاقوں کی آواز مزید دھندلا جاتی ہے۔ ان کے مسائل ایوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے، نتیجتاً ترقی کا عمل چند علاقوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

گانچھے جیسے حساس ضلع کے لیے یہ صورتحال محض ایک انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی سے جُڑا ہوا معاملہ بھی ہے۔ جو عوام سرحدوں پر ملک کے لیے سینہ سپر ہوں، کیا وہ اس بات کے حقدار نہیں کہ ان کی آواز قانون ساز اداروں میں مؤثر انداز میں سنی جائے؟ کیا ان کا یہ مطالبہ غیر منطقی ہے کہ ان کی نمائندگی قریب، واضح اور ذمہ دار ہونی چاہیے؟ یہ سوال صرف گانچھے کے نہیں بلکہ پورے نظام کے منہ پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔

اضافی حلقہ دراصل ایک علامت ہوگا اس بات کی علامت کہ ریاست اپنے پسماندہ، مگر باوقار شہریوں کو نظرانداز نہیں کر رہی، کہ وہ ان کی آواز کو اہمیت دے رہی ہے، اور ان کی قربانیوں کو صرف تمغوں یا نعرے بازی میں نہیں، بلکہ عملی سیاست اور پالیسی سازی میں جگہ دے رہی ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان کی حکومت، الیکشن کمیشن، اور وفاقی و ریاستی ادارے پر یہ اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ضلع گانچھے کے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر چوتھے انتخابی حلقے کے قیام کے لیے اقدامات کریں۔ اگر آج یہ فیصلہ نہ لیا گیا تو آنے والے کل میں یہ احساس محرومی، جو ابھی صرف ایک مطالبے کی شکل میں ہے، کہیں محرومی کی تاریخ نہ بن جائے۔

گانچھے کے عوام خاموش نہیں۔ ان کے شعور نے انگڑائی لے لی ہے۔ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں — اور یہ آواز جمہوریت کا عطر ہے، جسے سننا ریاست کا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔

امید ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت میں شامل گانچھے کے تینوں صوبائی وزراء اس اہم اور بنیادی عوامی مطالبے پر نہ صرف مؤثر انداز میں آواز بلند کریں گے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ضلع کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کروائیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے گانچھے کے سیاسی رہنما بھی اپنی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کریں گے۔ علماء کرام، سول سوسائٹی، طلبہ تنظیمیں، اور معاشرے کے تمام باشعور افراد کو بھی اس آواز میں اپنی آواز شامل کرنی چاہیے، تاکہ یہ مطالبہ صرف چند حلقوں کی پکار نہ بنے بلکہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کرے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button