جرائمچترالکالمز

چترال کی مقتولہ لڑکی اور زندہ سوال

گزشتہ شام ایک روح فرسا خبر دل کو جیسے چیر گئی۔ ایک ایسی وادی، جہاں محبت کا بسیرا ہوتا ہے۔ جہاں یادوں کے دیپ جلتے ہیں۔ جہاں کی مٹی محبت کو کشید کرتی ہے۔ جہاں عشق کی تھاپ پر وفا کا رقص ہوتا ہے  جہاں کی خوب صورتی لمحے بھر کو منجمد کردتی ہے۔  خاموشی پہرا دیتی ہے، وہاں سے تعلق رکھنے والی ایک معصوم لڑکی  کو زندگی سے محروم کردیا ۔اس لڑکی کو جانے کس نے بے رحمانہ طریقے سے مار دیا۔سترہ برس کی وہ لڑکی، جس نے ابھی خواب دیکھنے سیکھے تھے، جو تتلیوں کے پیچھے بھاگتی، اور ماں کے آنچل میں چھپ کر مسکراتی تھی، اچانک ایک ایسی بحث کا موضوع بن گئی، جس کا شاید کبھی اسے علم بھی نہیں تھا۔

اس لڑکی نے شاید ابھی زندگی کے مفہوم کو سمجھا نہ تھا۔ اسے زندگی کی سختیاں جاننے کا وقت بھی  نہیں ملا تھا، ایک پیاری سی لڑکی جس نے  ابھی زندگی کے دریا پر اپنوں کی اپنائیت اور خلوص کی ناؤ لے کر پار جانا تھا کہ تبھی کلہاڑی تھامے کچھ سائے نمودار ہوئے اور اس کا  راستہ کاٹ دیا گیا اورزندگی کے ساحل پر موت کے پانی سے نہلا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا قصور کیا تھا؟ کسی سے دوستی نہ کرنا اتنا بڑا جرم ہوسکتا ہے یا کوئی بھی وجہ کسی قتل کا جواز بن سکتی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ دوسرے انسان کی زندگی کا فیصلہ کرے؟ اسے زندگی سے محروم کرے۔ ذاتی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلاف پر کسی کو زندگی سے محروم کرنا اور ایک جیتے جاگتے روشن چہرے کو مرحوم کرنا کیا کسی طور درست ہے۔  کیا اس عمل کی کوئی بھی وضاحت دی جاسکتی ہے؟

ہم نے زمانے کے ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ ترقی کی ہے۔  ٹیکنالوجی، تعلیم، ترقی سب میں آگے جاچکے ہیں مگر کیا ہماری سوچ نے بھی بھی اسی رفتار سے ترقی کی ہے؟ شاید نہیں۔ آج بھی، جب ایسا واقعہ پیش آتا ہے، تو بہت سی آوازیں اسے "روایت” کا حصہ کہہ کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ کچھ تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سبق مل گیا”، "ٹک ٹاکر کے ساتھ اچھا ہوا”، "مارنے والے نے اچھا کیا” اور کچھ سوچتے ہیں کہ ” بے غیرت ٹک ٹاکر کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا” یعنی ان کے حساب سے یہ قتل سو فی صد درست ہوا ہے اور تقریبا ایسے جملے سوشل میڈیا پر بکثرت ہی نظر آئیں گے۔ لیکن ایسے صاحبان ابتدائی تفتیش کی رپورٹ کے بعد کیا کہیں گے جہاں کہا گیا کہ اسے اس لیے مارا گیا کہ اس نے لڑکے کو دوستی سے صاف منع کیا تھا۔ اب کیا دوستی سے منع کرنا بھی اس لڑکی کا قصور تھا یا اسے ہر لڑکے کے سامنے بچھ جانا چاہئیے تھا۔ بہت سے لوگ جو اس عمل کو برا بھی سمجھتے ہیں  ایسے موقعوں پر لبوں پر "قفل” سجا کر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور یہی لمحہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔  جب انسانیت دکھانے کے اوقات میں خاموشی، دلیل کی جگہ جذبات اور انصاف کی جگہ ذاتی سوچ  ہر جگہ حکمرانی کرنے لگے۔ ایک لڑکی کو، جس کی مسکراہٹ بھی پھول جیسی تھی، اسے یہ پیغام دیا کہ تمہاری زندگی تمہاری نہیں۔ تم ویسے نہیں جی سکتی۔ تمھیں ہمارے حساب سے جینا ہوگا اور اگر اس کا جواب نہیں ہوگا تو مارنے والے کا جواب بھی "نفی” ہوگا۔ پھر وہ اڑ نہیں سکے گی۔  خواب نہیں دیکھ سکے گی۔ اسے "وادی موت” کا باسی قرار دے کر وہاں روانہ کردیا جائے گا اور بہت سے یہاں بیٹھ کر تالیاں بجا کر مارنے والے کو داد بھی دے رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ایک عورت کی جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ مرد کو دوستی سے انکار کرے۔

اختلاف ہمیشہ ہوگا۔ صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ انسان جب سے ہے اسے دوسرے انسان سے اختلاف ہوگا۔ نظریوں سے ، رہنے کے طریقے سے ، جینے کے انداز سے ، سوچنے کے طریقے  اور فکروں سے ، جب تک آخری انسان ہے یہ اختلاف ہوگا۔ اختلاف کی بنا پر مکالمے جنم لیتے ہیں۔ مباحثوں کے دور سجتے ہیں۔ اختلافات کی بنا پر تشدد کمزور لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ جہاں دلیل کی بجائے بندوق تھامے اذہان منڈلانے لگیں وہاں پھر فکریں ناپید ہوجاتی ہیں۔ لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق تو اختلاف بھی غیر فطری تھا۔ ایک لڑکی کو مسلسل دوستی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کا پیچھا کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے انکار پر طیش میں آخر اسے مار دیا جاتا ہے ۔ کیا یہ انسانی نظریہ ہے۔  لوگوں کے نظریات، ان کی سوچ، ان کے انداز، زندگی گزارنے کا ڈھنگ غرض سب الگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کسی کی سانس روک دیں، کسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ ۔ جان لینے کا حق کسی کو بھی  نہیں ہے۔ جان لینے کا مطلب ہے کسی کا وقت مار دینا۔

جب کوئی جان جاتی ہے، تو صرف ایک جسم نہیں مرتا۔ اس کے ساتھ اس کی امیدیں، اس کے خواب، اس کے بچپن کی مسکراہٹیں، اس کی ناتمام خواہشیں  اور مستقبل کی تمام ممکنہ خوشیاں بھی دفن ہو جاتی ہیں اور پیچھے صرف سلگتے ہوئے سوالات رہ جاتے ہیں جن کے جواب ڈھونڈتے لواحقین ایک دن خود بھی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

چترال کی خوب صورت وادی سے تعلق رکھنے والی لڑکی کی مسکراہٹ دیکھتا ہوں تو دل چیر جاتا ہے۔ بھلا وہ ہاتھ کیسے نہیں کانپے ہوں گے، وہ وجود کسے بے قرار نہیں ہوا ہوگا جس نے اس شہزادی کے گھر میں صف ماتم بچھایا ہوگا۔ ماں باپ سے زیادہ لڑکی کے سگے بنے ان قاتلوں کو معاشرہ کیا نفرت کی سزا اسی طرح دے گا؟ ان سے بھی کیا اسی طرح لاتعلقی اختیار کی جائے گی جیسے ایک لڑکی کو ٹک ٹاکراور وی لاگر کہہ کر کی جاتی ہے؟ اسے بھی انصاف کے کٹہرے میں اسی طرح کھڑا کیا جائے گا۔ اگرچہ اس موت سے  کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا صرف اس کے ماں باپ جینا بھول جائیں گے۔ ان کی آنکھوں میں اس کی تصویر ہمیشہ رہے گی ، مسکراتی تصویر، سوال کرتی تصویر، معاشرے کی برداشت کا عکس دکھاتی تصویر۔۔۔۔۔۔اور ہم سب اسی طرح خاموش سوالی ہوں گے۔ جانے کب تک۔۔۔۔پتا نہیں کب تک۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button